حضرت سیدنا عبدالقادر جیلانیؓ: انسانیت کے لئے مینارۂ نور،مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری

حضرت سیدنا عبدالقادر جیلانیؓ: انسانیت کے لئے مینارۂ نور،مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری
حیدرآباد24ستمبر (پریس نوٹ): خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے بتلایا کہ حضرت سیدنا عبدالقادر جیلانیؓ کی مبارک شخصیت آج بھی پوری دنیا کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ آپؓ نے اپنی پوری زندگی رب کی رضا کے حصول میں گزاری اور اخلاق و کردار کا وہ معیار قائم کیا جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:یعنی اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
صوفی وہ ہے جس کا دل اللہ کے لیے پاکیزہ ہو۔
اہلِ عقیدت نے کہا:’’حضرت غوث الاعظمؓ کی تعلیمات امن اور محبت کا پیغام ہیں۔‘‘
’’آپؓ کی سیرت عاجزی، انکساری اور خدمتِ خلق کا درس دیتی ہے۔‘‘
’’آج بھی لاکھوں دل آپؓ کے فیوض و برکات سے منور ہیں۔‘‘یقیناً حضرت سیدنا عبدالقادر جیلانیؓ کا فیض کل بھی تھا، آج بھی ہے اور رہتی دنیا تک جاری و ساری رہے گا۔حضر ت سیدنا غوث الاعظم حضرت سیدنا عبدالقادر جیلانیؒ حسنی حسینی سید ہیں اور آپ کا شجرہ نسب چند واسطوں کے بعد حضرت علی المرتضیٰؓ سے جاملتا ہے۔ آپؓ امام الاولیاء ہیں اور تصوف کے سب سے بڑے سلسلے ’’قادریہ‘‘ کے بانی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت کمال اور بزرگی عطا فرمائی ہے۔ آپ جامع العلوم تھے آپ کے چہرہ مبارک پر رعب و جلال اور بزرگی اس قدر نمایاں تھی کہ ظالم اور جابر لوگ بھی آپ کے چہرے کو دیکھتے تو ا ن پر خشوع و خضوع طاری ہوجاتا۔ آپ کے والد ابوصالح سید موسیٰ جنگی دوستؒ بھی اولیاء اللہ میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ کی والدہ ماجدہ سیدہ ام الخیر امتہ الجبارؒ بڑی نیک خاتون تھیں۔ آپ کا پورا خاندان ہی ولایت کے مرتبے پر فائز تھا۔ آپ کے نانا، دادا، والد، والدہ، پھوپھی اور آپ کے صاحبزادگان سب اولیاء اللہ ہوئے اور یہ پورا خاندان کشف و کرامات کا حامل تھاحضور سیدنا غوث الاعظمؓ حضرت سیدنا عبدالقادر جیلانی نے نو سال تک بغداد میں علم حاصل کیا۔ اس دوران سخت مجاہدے بھی کیے۔ والدہ نے جو چالیس دینار دیئے تھے وہ جلد ہی ختم ہوگئے۔ آپؒ کو گزر بسر کے لیے بہت سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود آپ کی استقامت میں کوئی فرق نہ پڑا۔ حضرت شیخ طلحہ بن مظفرؒ لکھتے ہیں کہ سیدنا غوث الاعظم نے مجھے بتایا تھا کہ بغداد میں قیام کے دوران میں اکثر فاقہ سے ہوتا۔ ایک مرتبہ مجھے بیس دن تک کھانے کو کچھ نہ ملا تو میں ایوان کسریٰ کی جانب چل پڑا وہاں پہنچ کر دیکھا کہ چالیس اولیاء اللہ مجھ سے پہلے وہاں موجود تھے مجھے یہ دیکھ کر بہت شرمندگی ہوئی اور میں واپس آگیا اس دوران میری ملاقات ایک ہم وطن سے ہوئی۔ اس نے مجھے کچھ رقم دی اور بتایا کہ یہ آپ کی والدہ نے آپ کے لیے بھیجی ہے۔ میں وہ رقم لے کر واپس 40 اولیاء کے پاس گیا اور ان کی امداد کے بعد کچھ رقم اپنے لیے رکھی۔ ان اولیاء نے پوچھا کہ یہ رقم کہاں سے آئی تو میں نے بتایا کہ یہ میری والدہ نے بھیجی ہے تو مجھے مناسب نہیں لگا کہ میں اس سے کھانا کھالوں اور آپ سب بھوکے رہیں۔
اسی طرح ایک اور واقعہ حضرت شیخ عبداللہ سلمیؒ سے منقول ہے کہ مجھے حضور سیدنا غوث الاعظمؓ حضرت سید عبدالقادر جیلانی کی صحبت میں رہنے کا موقع ملا۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ایک مرتبہ میں بہت دن تک فاقے سے رہا۔ جب بھوک کی شدت نے بے چین کردیا تو میں محلہ قطیعہ شرقیہ میں جا نکلا جہاں ایک شخص نے مجھے کاغذ کی بندھی ہوئی ایک پڑیا دی اور چلا گیا میں نے اس پڑیا میں موجود رقم سے حلوہ خریدا اور مسجد میں جاکر بیٹھا میں قبلہ رو بیٹھ کر یہ سوچ رہا تھا کہ مجھے یہ حلوہ کھانا چاہیے یا نہیں۔ اس دوران میری نظر ایک کاغذ پر پڑی میں نے اس کاغذ کو کھول کر دیکھا تو اس پر لکھا تھا کہ ہم نے کمزور مومنین کے لیے رزق کی خواہش پیدا کی تاکہ وہ بندگی کے تقاضے پورے کرنے کے لیے اس سے قوت حاصل کریں۔ میں یہ عبارت پڑھ کر لرز اٹھا۔ خوف الہٰی سے میرے رونگٹے کھڑئے ہوگئے میں حلوہ وہیں چھوڑ کر اٹھا اور دو رکعت نماز نفل ادا کرکے واپس آگیا۔
آخر میں دعا کی گئی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کی تعلیمات پر عمل کرنے اور اپنی زندگیاں ان کے نقشِ قدم پر گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
–