مضامین

فلسطینی کیسے دنیا بدل رہے ہیں۔غزہ جنگ کے دو سال پر خصوصی تحریر 

شجیع اللہ فراست 

غزہ جنگ کے دو سال پورے ہوگئے ہیں ۔ ان دو برسوں میں دنیا خاص طور پر مڈل ایسٹ میں بہت کچھ بدلا اور بہت کچھ بدلنے والا ہے۔ سات اکٹوبر دو ہزار تئیس کو اسرائیل کے کنٹرول والے علاقوں میں حماس نے ایک ایسا حملہ کیا تھا جس نے اسرائیل کی طاقت بھرم توڑ کر رکھ دیا تھا۔ وہ حملہ محض ایک شروعات تھا ۔ اس کے بعد بہت سی اور تبدیلیاں ہوئیں.اسرائیل فلسطین مسئلہ انیس سو اڑتالیس سے پایا جاتا ہے لیکن سات اکٹوبر کے حملوں سے پہلے دنیا نے فلسطین مسئلہ کو بھلادیا تھا ۔ اسرائیل نے دو ہزار سات سے غزہ کی ناکہ بندی کر رکھی تھی۔ غزہ کو ایک کھلی جیل بناکر رکھا گیا تھا ۔ فلسطینی سات اکٹوبر سے پہلے بھی اسرائیل کے ظلم کے شکار تھے لیکن فلسطین مسئلہ دنیا کے ایجنڈ´ے سے باہر ہوگیا تھا۔

 

 

سب سے بڑی تبدیلی جو فلسطینیوں نے اپنے خون کی قربانی دے کر دنیا میں لائی ہے وہ یہ ہے کہ فلسطین کا مسئلہ پھر سے زندہ ہوگیا ہے۔ پچھلے دو سال سے دنیا کے ہر اخبار اور ہر ٹی وی چیانل پر روزانہ فلسطین کا ذکر ہوتا ہے۔یہ فلسطینیوں کی ایک کامیابی ہے ۔ اگرچہ اس کے لئے انہوں نے بہت بھاری قیمت چکائی ہے۔ اسرائیل دو سال سے مسلسل بربریت کررہا ہے۔ اس ظلم میں سینسٹھ ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں ۔ دیڑھ لاکھ سے زیادہ فلسطینی بے گھر ہوئے ہیں۔ اسّی فیصد سے زیادہ غزہ کھنڈر ہوچکا ہے۔ سخت ناکہ بندی کی وجہ سے بھوک سے موتیں ہورہی ہیں ۔ غزہ کے ہاسپٹلس علاج کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود فلسطینیوں کی یہ کامیابی ہے کہ انہوں نے اپنی شہادتوں اور اپنی تباہی اور مظلومیت کے ذریعہ اسرائیل کو دنیا میں اکیلا کردیا ہے ۔

 

 

امریکہ سے لے کر آسٹریلیا تک اور یوروپ سے لے کر افریقہ تک کئی ملکوں میں لوگ فری فلسطین کا نعرہ لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل رہے ہیں ۔ اب تو یوروپی یوروپی اور دوسرے مغربی ملکوں کی حکومتیں بھی اسرائیل سے دور ہورہی ہیں ۔ کئی ملکوں نے جن میں فرانس ۔ برطانیہ ۔ کناڈا ۔ آسٹریلیا ۔ آئرلینڈ ۔ اسپین ۔ پرتگال وغیرہ شامل ہیں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان میں کئی ملک اسرائیل کے روایتی اتحادی تھے ۔

 

 

دو سال کی غزہ جنگ کی وجہ سے جیوپالیٹکس میں ھبی بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں۔ سات اکٹوبر سے پہلے جی ٹوئنٹی ملکوں کی ایک میٹنگ انڈیا میں ہوئی تھی جس میں انڈیا مڈل ایسٹ یوروپ کاریڈور کے خذوخال کو طئے کیا گیا تھا۔ یہ ایک بہت بڑا معاشی منصوبہ تھا اس کے لئے ضروری تھا کہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ تعلقات قائم کرے۔ لیکن حماس کے حملے نے اس منصوبہ کی دھجیاں بکھیر دیں ۔ اب کوئی آئی ایم ای سی سمجھوتہ کی بات نہیں کررہا ہے اور وہ سرد خانہ میں چلا گیا ہے۔

 

 

ٹرمپ کی پہلی میعاد کے دوران ابراہام اکارڈ کے تحت بعض عرب ملکوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کئے تھے لیکن پچھلے دو برسوں نے ان عرب ملکوں اور اسرائیل کے درمیان پھر سے دوریاں پیدا کردی ہیں ۔ ان دو برسوں میں ایک اچھی بات یہ دیکھنے میں آئی ہے کہ عرب ملک اپنی سیکیورٹی ۔ امریکہ ۔ اسرائیل اور ایران اور فلسطین کے تعلق سے اپنے برسوں کی پالیسیوں پر دوبارہ غور کیلئے مجبور ہوئے ہیں ۔ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان اہم ڈیفنس سمجھوتہ اس کی ایک مثال ہے۔ دوحہ میں اسرائیلی حملہ کے بعد خلیجی ملک اب اپنی سیکیورٹی کے لئے امریکہ پر آنکھ بند کرکے بھروسہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ آنے والے دنوں میں اور بھی بہت کچھ بدل سکتا ہے۔

 

 

ایران کی قیادت والے مزاحمتی محاذ نے ان دو برسوں میں بہت قربانیاں دی ہیں ۔ غزہ جنگ صرف غزہ تک محدود نہیں رہی جنگ کے شعلے ایران لبنان ۔ یمن ۔ سیریا ۔ قطر اور عراق تک پہونچے ۔ اسرائیل اور ایران کے درمیان بارہ دن کی جنگ لڑی گئی جس کے دوران اسلامی جمہوریہ نے یہودی ملک کے دانت کھٹے کئے اور دنیا میں کئی لوگوں کے منہ بند کئے ۔ ایران کے کئی فوجی جنرلس اسرائیلی حملوں میں جاں بحق ہوئے ۔ لبنان کی حزب اللہ تحریک کے لیڈر حسن نصراللہ شہید ہوئے ۔ حماس کے رہنما اسماعیل ھانیہ اور یحیی سنوار نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔ یہ تو صرف کچھ نام ہیں ۔ یمن کے وزیراعظم کو پوری کیبنٹ کے ساتھ ختم کردیا گیا ۔

 

 

مڈل ایسٹ میں ایک بڑی تبدیلی یہ آئی کہ ایران کے پرانے اتحادی بشارالاسد کا تختہ الٹ دیا گیا اور ان کی جگہ ایک ایسے لیڈر صدر بن گئے جو کبھی داعش یا آئی ایس آئی ایس کے لیڈر تھے ۔ سیریا میں یہ تبدیلی عالمی سیاست خاص طور پر مڈل ایسٹ میں بڑی طاقتوں کے کھیل کے بارے میں بہت کچھ بیان کرتی ہے ۔ غزہ میں دو سال سے جاری جنگ اسرائیل کے لئے ہی کوئی منافع کا کھیل نہیں رہا ۔ سات اکٹوبر دو ہزار تئیس کے بعد سے لڑائی میں دیڑھ ہزار سے زیادہ اسرائیلی فوجی مارے گئے ۔ ان میں تقریباً آدھے فوجیوں کی عمر اکیس سال سے کم ہے ۔ تقریباً پچاس اسرائیلی فوجیوں نے خودکشی کی ۔ سینکڑوں سپاہی دماغی بیماریوں کا شکار ہوگئے ۔ اسرائیل کی معیشت تباہ ہوگئی ۔ اسٹارٹ اپس بند ہوگئے ۔ اسرائیل کے لوگ بھی جنگ روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر ہیں  لیکن اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نتن یاہو ٹس سے مس نہیں ہورہے ہیں ۔ اسرائیلی اس جنگ کے دوران یک لمحہ بھی چین سے نہیں سوپائے ۔ نہ صرف یہ بلکہ دنیا بھر میں یہودیوں پر حملوں کے کئی واقعات پیش آئے ۔ غزہ جنگ کو نتن یاہو کی شخصی جنگ کہیں تو بیجا نہیں ہوگا ۔ نتن یاہو کو ملک میں کئی مسائل خاص طور پر کرپشن کے الزامات کا سامنا ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ نتن یاہو نے اپنی کرسی بچانے کے لئے دنیا کے چھوٹے سے خطہ میں قیامت برپا کردی ۔ لیکن وہ جنگ کے مقصد حاصل نہیں کرسکے جن کا اعلان کیا گیا تھا ۔

 

 

اسرائیل نے جنگ شروع کرتے ہوئے دو مقصد مقرر کئے تھے ۔ حماس کو مٹانا اور ہوسٹیجس کو واپس لانا ۔ لیکن دو سال کی بدترین بربریت کے باوجود یہ دونوں مقصد حاصل نہیں کئے جاسکے ۔ حماس آج بھی زندہ ہے اور اسرائیل آج اسی حماس کے ساتھ جنگ بندی سمجھوتہ کے لئے بات چیت کررہا ہے اور ہوسٹیجس آج بھی مزاحمتی تنظیموں کی قید میں ہیں ۔ اس جنگ میں سب سے بڑی قیمت شاید فلسطین کے بچوں اور عورتوں نے چکائی ہے۔ جہاں سینسٹھ ہزار شہادتوں میں آدھے عورتیں اور بچے ہیں وہیں بے شمار بچوں سے ان کا بچپن چھین لیا گیا ۔ جنگ رکنے کے بعد بھی وہ اس دور کی تلخ یادو ںکے ساتھ جئیں گے ۔ وہ شاید کبھی نارمل زندگی نہیں گزار سکیں گے ۔ ان میں کئی بچے ماں باپ اور رشتہ داروں سے محروم ہوچکے ہیں ۔

 

 

غزہ جنگ نے دنیا کے نظام کو کھوکھلا ثابت کردیا ہے۔ یونائیٹیڈ نیشنس ۔ یوروپی یونین ۔ عرب لیگ ۔ او آئی سی جیسے ادارے اب محض تماشے نظر آتے ہیں کیوں کہ دو سال سے مسلسل بربریت کا صرف تماشہ دیکھا جارہا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت کوئی نظام بچوں کے قاتل اسرائیل کو روکنے میں ناکام رہی ہے ۔جہاں فلسطینیوں کو یوروپ اور لیٹن امریکہ کے ملکوں اور پوری دنیا کی اخلاقی تائید حاصل ہورہی ہے وہیں امریکہ بڑی ڈھٹائی سے فوجی اور سفارتی محاذ پر اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس جنگ سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ امریکہ کے بغیر اسرائیل کچھ نہیں ہے۔ بلکہ امریکہ ہی اسرائیل ہے اور اسرائیل ناقابل تسخیر نہیں ہے۔ یمن کے حوثی آج بھی اسرائیل کے اندر دہشت پیدا کئے ہوئے ہیں۔ یمنیوں نے بھی اس جنگ کے دوران کئی قربانیاں دیں ۔ بے سر و سامان یمنیوں کا یہ جذبہ دولتمند عرب ملکوں کو ان کے انسانی مذہبی اور اخلاقی فرض کا درس دے رہا ہے اور عربوں کی بے حسی اور بزدلی کو جھنجھوڑ رہا ہے۔

 

 

 

غزہ کے لئے لاکھوں لوگ لندن ۔ ملبورن ۔ نیویارک ۔ برلن جیسے شہروں میں تو کھڑے ہوئے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جدہ ۔ دبئی ۔ مناما ۔ دوحہ ۔ جیسے شہروں میں ایمان والے خاموش رہے اور انہیں مظلوم غزہ میں اپنے بھائیوں کے لئے آواز اٹھانے کی توفیق نہیں ہوئی ۔

متعلقہ خبریں

Back to top button