سخت راہوں کا مسافر! مجھ سے ہر وقت مخاطب رہی غیرت میری اعظم خان کی دہلیز پر اکھلیش کی حاضری؟

تحریر:سید سرفراز احمد
ہندوستانی سیاست میں ایسے ایسے چہرے گزرے ہیں جن میں کچھ فراست، بصیرت، دانش مند صفات سے متصف تو کچھ چانکیئے کچھ گھمنڈ میں چور تو اور کچھ شدت پسند سیاست داں شامل ہیں۔ایسے ہی مثبت و منفی صفات رکھنے والے سیاست داں آج کے دور میں بھی شامل ہیں۔لیکن اکثریت ان سیاست دانوں کی ہے۔جو اپنی سیاست کو چار چاند لگانے کی فکر میں مشغول رہتے ہیں۔جو نہ تو عوام کے مفادات کو ملحوظ رکھتے ہیں اور نہ ہی سماج کے لیئے کچھ مثبت کرنے کی سوچ رکھتے ہیں۔اور اس دور حاضر میں ایسے سیاست دانوں کو انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے جو اعلیٰ منصب حاصل کرنے کے بعد بھی خود داری کا مظاہرہ کرتے ہوں۔جو آنکھ میں آنکھ ملاکر اپنی بات رکھنے کی طاقت رکھتے ہوں۔جن میں یہ جرات ہوتی ہے کہ وہ اقتدار کے نشے میں چور حکمرانوں کا گریبان ایوان میں پکڑتے ہوں۔لیکن جب ایسے خود دار اور انصاف پسند سیاست دانوں کا وقت ساتھ نہیں دیتا تو ظالم حکمران جھوٹے مقدمات میں پھنساکر پابند سلاسل کردیتے ہیں۔اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہوۓ اذیت ناک سزاؤں کے ذریعہ انتقام کی آگ میں جھونک دیتے ہیں۔تاکہ انھیں پوری طرح سے کمزور کردیا جاۓ اس لیئے کہ وہ دوبارہ کھڑے ہو نہ پائیں۔ لیکن جو عزم اور عیمت ،صبر اور استقامت کی راہ کو اپنالیتے ہیں ان کی مثال اس چٹان کی طرح ہے جو جو پانی کے تیز بہاؤ کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہے۔ اور پانی کے تیز طمانچے کھاتے ہوۓ بھی اس کو واپس ہونے پر مجبور کردیتی ہے۔لیکن آگے بڑھنے سے روکتی ہے۔ ظالم سب کچھ پیچ کھیل سکتا ہے لیکن ایسی چٹان صفات رکھنے والے انسانوں کا حوصلہ کبھی نہیں توڑ سکتا۔
اترپردیش میں رام پور کے سابق رکن پارلیمان و سماج وادی پارٹی کے سابق ریاستی وزیر، اعظم خان اور ان کی شخصیت سے کون واقف نہ ہوگا۔اعظم خان اپنے انداز بیان کے لیئے جانے جاتے ہیں۔کوئی بھی صحافی ششدر رہ جاتا ہے جب وہ کسی بڑے سوال کا جواب دو لفظوں میں سمٹ کر دیتے ہیں۔خالص اردو زبان میں، طنزیہ انداز بیان،لفظوں کا نشتر چلانا اور ہر جواب کے پیچھے سیاسی بصیرت کا راز پوشیدہ رکھنا یہ ہر کوئی سیاست داں کے بس کی بات نہیں ہے۔لیکن یہ سب ہنر اعظم خان کے اندر موجود ہے۔بلکہ جب سے وہ سیتا پور جیل سے ضمانت پر رہا ہو کر آۓ ہیں۔آج بھی ان کی شائستہ زبان، انداز بیان اور طنزیہ لہجے میں کوئی بھی فرق محسوس نہیں کیا جاسکتا۔ہاں جسمانی طور پر وہ کمزور ضرور لگ رہے ہیں۔بلکہ وہ خود بھی کہہ رہے ہیں کہ مجھے اچھا علاج کرواتے ہوۓ صحت مند ہونا ہے۔لیکن اعظم خان کا لہجہ،عزم،مضبوط حوصلے اس چٹان کی طرح قائم ہے جو مثال اوپر تمہیدی الفاظ میں پیش کی گئی۔
اترپردیش میں یوگی سرکار ظلم کے تمام حدود پار کرتی جارہی ہے۔کھلے عام ہندو مسلم تعصب کا ننگا ناچ چل رہا ہے۔لیکن اس ملک کے نظام میں اس قدر بگاڑ پیدا ہوچکا ہے کہ کسی میں ہمت باقی نہیں رہی کہ وہ یوگی کو سفاک و ظالمانہ کاروائیوں سے روک سکے۔آپ اس بات سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ملک عدالت اعظمیٰ نے ریاستوں کو بغیر عدالتی کاروائی کے کسی کے بھی گھر پر بلڈوزر کاروائی نہ کرنے کی سخت ہدایت دی تھی۔باوجود اس کے اترپردیش میں شاہی فرمان کے ساتھ غیر قانونی انہدامی کاروائیاں عروج پر ہیں۔بھاجپا کے سابق رکن پارلیمان سبرامنیم سوامی نے ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ "یوگی کا سیاسی مستقبل نہیں ہے۔چونکہ وہ شدت پسند رویہ پر یقین رکھتا ہے۔” سوامی جی کی آدھی بات تو درست ثابت ہوئی ابھی سیاسی مستقبل کا زوال دیکھنا باقی ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یوگی سرکار ہندو راشٹر کے لیئے مسلمانوں کو نشانے پر رکھتی ہے۔یہ دراصل غلط فہمی کا شکار ہیں۔دراصل یوگی مودی کی گجراتی لابی کی راہ پر چلتے ہوۓ مستقبل کے وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
یوگی کے اس ڈراؤنے چہرے کو انصاف پسند عوام کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ جس نے ریاست اترپردیش سے مسلم قیادت کی نمائندگی کو جڑ سے ختم کرنے کی ایک پوری مہم چلائی۔مافیا کے نام پر عتیق احمد کو پہلے اپنے راستے سے ہٹایا پھر مختار انصاری کو اور اعظم خان پر سینکڑوں مقدمات درج کرتے ہوۓ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجا گیا۔جس کا تذکرہ کرتے ہوۓ خود اعظم خان طنزیہ انداز میں کہتے ہیں کہ”ہم تو مجرم ہیں۔ہم ملک کے تین بڑے مافیا کے نام سے جانے گئے ہیں پہلا اعظم خان، دوسرا مختار انصاری اور تیسرا عتیق احمد،ان میں میئں زندہ بچ گیا۔کب تک زندہ ہوں وہ میئں بھی نہیں جانتا۔” مزید اعظم خان نے کہا کہ "یہ میری زندگی کا تیسرا ایپی سوڈ تھا۔پہلا1975 تا1977 ایمرجینسی کا دوسرا 27 مہینے کا اور تیسرا 23 مہینے کا۔دوسرا اور تیسرا دور اتنا بھاری تھا کہ ایمرجینسی کا کوئی زخم یاد نہیں ہے۔” اور آگے کہا کہ "ایک یونی ورسٹی و اسکولس کے بانی دس بار کا رکن اسمبلی دو بار کا رکن پارلیمان اور چار بار کے وزیر اور ایک بار حزب کا اختلاف کے قائد پر "چوری” کا الزام ہے۔ لیکن سزا "ڈکیتی” کی مل رہی ہے۔ہم سوچتے بھی نہیں تھے کہ ظلم کرنا سرکاروں کا کام ہے۔ہم تو یہ سوچتے تھے کہ کسی بھی طرح عوامی مفادات کے کام ہوجاۓ۔پہلی بار پتہ چلا کہ سرکاروں کا وہ کام(جو ہم کرتے تھے)صحیح نہیں تھا۔ بلکہ یہ کام صحیح ہے۔موقع ملے گا تو ہم بھی صحیح کام کرنے کی کوشش کریں گے، ہم کیوں غلط کام کریں۔”
اعظم خان سے یا ان کی شخصیت سے ہر کسی کو کچھ نہ کچھ اختلاف ہوسکتا ہے۔کوئی انھیں متکبر کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو کوئی کسی اور نظر سے۔یہ انسانی مزاج کا فطری طریقہ ہوسکتا ہے۔کیونکہ خامیوں اور خوبیوں کے پاۓ جانے والے کو ہی انسان کہا جاتا ہے۔لیکن سچ کہیں تو اعظم خان کے کارناموں اور ان کی سیاسی بصیرت سے شائد ہی کسی کو انکار ہو۔پورا ملک جانتا ہے کہ یوگی سرکار نے جس طریقے سے انتہائی گھٹیا قسم کے الزامات لگاکر جیل میں ڈالا وہ صاف طور پر جھوٹے اور بے بنیاد ہی ہوسکتے۔اعظم خان ایک اعلیٰ مسلم قائد کی حیثیت سے یوگی کی آنکھ میں کانٹے کی طرح چھبتے تھے۔جن کو یوگی سرکار جڑ سے ختم کرنا چاہتی تھی۔کیا سماج کو ان سوالات پر غور نہیں کرنا چاہیئے کہ کیا اعظم خان کا یہ جرم تھا کہ انھوں نے "محمد علی جوہر یونی یورسٹی” کو قائم کیا؟کیا اعظم خان کا یہ جرم تھا کہ انھوں نے پردیش میں اپنی ایک سیاسی شناخت بنا رکھی تھی؟کیا اعظم خان کا یہ جرم تھا کہ وہ بلا مذہب و ملت سماج کی بھلائی کے لیئے بڑھ چڑھ حصہ لیتے تھے؟یا اعظم خان کا یہ جرم تھا کہ وہ ایک "مسلمان” تھے؟ان سوالات کو جب ہم یوگی کی شخصیت سے تقابل کرتے ہیں تو تصویر پوری طرح سے واضح ہوجاتی ہے کہ یوگی کو اعظم خان کی بنائی گئی محمد علی جوہر یونی ورسٹی اور ان کے مسلمان ہونے پر تکلیف تھی۔تب ہی یوگی سرکار اپنے راستے کو ہمیشہ ہموار بنانے کی غرض سے مسلم قیادت کو صاف کرنے کی ایک قصداً مہم چلائی۔جس سے وہ ہندوؤں کے قد آور قائد بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔لیکن وقت بدل کر کبھی بھی گلے کی ہڈی بن سکتا ہے۔
ایک 77 سالہ بزرگ قائد کو زندان کے 23 ماہ بند کوٹھری کی سخت گرمی میں رکھ کر ازیتیں دی جاتی ہوں۔جس کو جیل کی غذا کھانے سے موت کا ڈر،نہ کھاتا تو بھوکا مرنے کا ڈر،جس کے خاندان کے بیوی بیٹے اور بزرگ بہنوں پر مقدمات کی ایک جھڑی،ایک مسلمان ہونے کے ناطے اس کو بھلا امید تو اس خدا سے ہی تھی کہ وہ جب سخت آزمائش میں ڈالتا ہے تو بعد میں آسائش سے بھی نوازتا ہے۔لیکن جس قائد نے سماج وادی پارٹی کو اپنے خون جگر سے سینچ کر مسلم سماج میں جس مقام تک پہنچایا ہے۔جس کا نام اس پارٹی کی بنیادوں سے جڑا ہو۔کیا اس پارٹی نے جیل کی صعوبتوں کو جھیلنے والے بزرگ قائد کی کچھ فکر بھی کی؟کیا جیل سے رہا ہونے کے بعد ایک اچھی ملاقات کرکے الفاظ کے موتی جھڑانے سے حق ادا ہوگیا؟ہمیں تو لگتا ہے کہ اکھلیش یادو نے اپنے ممتاز قائد سے سراسر نا انصافی کی۔اکھلیش نے اعظم خان کی سپا میں کھپائی ہوئی زندگی کو ایک جھٹکے میں فراموش کردیا۔اگر اکھلیش کو کچھ تو ہمدردی ہوتی یا ملنے کی تڑپ ہوتی تو وہ اپنے ممتاز قائد سے سیتا پور کی جیل میں جاکر خیریت دریافت کرلیتے۔اگر ملنے نہیں بھی دیا جاتا تو اکھلیش کی تڑپ ہی اعظم خان سے والہانہ محبت کی ایک زندہ مثال بن جاتی۔لیکن ایسا بھی نہیں ہوا۔
اعظم خان کی رہائی کے بعد بہت سی قیاس آرائیاں چل رہی تھی کہ اعظم خان بی ایس پی کے 9 اکٹوبر کو ہونے والے جلسہ میں مایاوتی کی پارٹی میں شامل ہوجائیں گے۔چونکہ جب اعظم خان جیل میں تھے تب ان کی اہلیہ نے دہلی میں مایاوتی سے ملاقات کی تھی۔ لیکن ہوا یوں کہ مایاوتی کے جلسہ سے ایک دن قبل ہی اکھلیش یادو اعظم خان سے ملنے کے لیئے رام پور میں ان کی رہائش گاہ کی دہلیز پر حاضری دے دی۔جس کے بعد سے تمام قیاس آرئیاں ختم ہوگئیں۔لیکن مایاوتی نے اعظم خان کا نام لیئے بغیر کہا کہ "اگر میئں کسی سے ملوں گی تو چھپکے نہیں بلکہ کھلے عام ملوں گی۔” اس بیان کے رد عمل میں جب اعظم خان سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ "ملاقات صرف سیاسی مقاصد کے لیئے نہیں ہوتی بلکہ ملاقات انسانی ضرورتوں کا ایک حصہ ہے”۔ وہ ایک بڑے سماج کی نائک ہے ان کی عزت میرے نزدیک بہت ہے۔مجھے خوشی ہوئی کہ انھوں نے میرے متعلق کوئی ایسی بات نہیں کہی جس سے مجھے ٹھیس پہنچی ہو۔
بات چل رہی تھی اعظم خان اور اکھلیش کی ملاقات کی ۔جب اکھلیش یادو رام پور پہنچتے ہیں تو اعظم خان کا ہاتھ میں ہاتھ تھامے ساتھ چل رہے تھے۔لیکن ہمیں یوں محسوس ہوا کہ یہ ہاتھ اور یہ ساتھ تیس ماہ تک کہاں کھوگیا تھا؟بہر حال دونوں کی ملاقات تقریباً دو گھنٹے سے زائد تھی۔اس ملاقات کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں کوئی تیسرا شامل نہیں تھا۔دونوں میں کیا بات چیت ہوئی یہ ابھی واضح نہیں ہے۔لیکن زرائع کے مطابق کہا جارہا ہے کہ اترپردیش میں سال 2027 میں آنے والے اسمبلی انتخابات کے بارے میں گفتگو ہوئی۔اس ملاقات نے اترپردیش کی سیاست میں ایک تہلکہ مچادیا ہے۔کیونکہ سیاسی نوعیت سے اس ملاقات کو سیاسی گلیاروں میں بہت اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔ ملاقات کے بعد اکھلیش یادو نے کہا، ’’میں اعظم خان صاحب سے ملنے آیا ہوں، کیوں کہ میئں جیل نہیں جا پایا تھا۔ آج ان کی صحت کا حال پوچھنے آیا ہوں۔ اعظم خان صاحب پارٹی کے درخت کی طرح ہیں، جن کی جڑیں جتنی گہری ہیں اتنا ہی سایہ ہمیں ملتا ہے۔ یہ ایک بڑی لڑائی ہے جسے ہم سب مل کر لڑیں گے۔‘‘انہوں نے مزید کہا، ’’پرانے لوگ، پرانے سماج وادی، جو نیتاجی کے ساتھ رہے، ان کی بات ہی الگ ہوتی ہے۔ اکھلیش نے کہا کہ 2027 میں ہماری حکومت بننے جا رہی ہے اور ہم سرکار میں آنے کے بعد اعظم خان صاحب کے تمام مقدمات واپس لے لیں گے۔
اعظم خان کی شخصیت اور ان کے انداز بیان سے ہر کوئی متاثر ہوۓ بناء رہ نہیں سکتا۔رہائی کے بعد سے میڈیا میں جس طرح کے بیانات دے رہے ہیں ان بیانات میں ایک بھی ایسا بیان نہیں ملے گا جس سے پارٹی کی ساکھ متاثر ہوتی ہو۔ ڈھلتی عمر کے باوجود آج بھی اعظم خان میں خود داری،حوصلوں کی چٹان پائی جاتی ہے۔اور پارٹی کے تیئں وفاداری کی نصف صدی تو گذار دی ہے۔لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا آگے اکھلیش یادو انھیں اس وفا داری کا کیا پھل دیں گے؟ اور یہ بھی دیکھنا اہم ہوگا کہ اکھلیش اعظم خان سے بھر پور انصاف کرپائیں گے یا نہیں؟کیف بھوپالی کا یہ شعر اعظم خان کی وفاداری پر کھرا اترتا ہے۔
جس دن مری جبیں کسی دہلیز پر جھکے
اس دن خدا شگاف مرے سر میں ڈال دے
اسی طرح کسی میڈیا والے کو انھوں نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوۓ کہا تھا کہ”میری سزا کے ساتھ میرا چھتیس لاکھ کا جرمانہ ہے۔میئں وہ جرمانہ کہاں سے لاؤں؟پھر خود جواب دیتے ہوۓ کہتے ہیں شائد گھر فروخت کرتے ہوۓ یہ جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔جس پر صحافی نے کہا کہ کیا آپ نے اکھلیش جی کو یہ بات بتائی ہے۔تو اعظم خان نے جواب دیا یہ میرا نجی معاملہ ہے۔میئں انھیں یہ کیوں بتاؤں! کیا میئں اتنا خوددار نہیں ہوں۔”جس کو سنتے ہی راقم الحروف کی زبان پر امیر قزلباش کا یہ شعر بے ساختہ زبان پر آگیا۔
وقت کے ساتھ بدلنا تو بہت آساں تھا
مجھ سے ہر وقت مخاطب رہی غیرت میری