نوجوان نسل اور منشیات — بیداری کی ایک نئی ضرورت مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا
نوجوان نسل اور منشیات — بیداری کی ایک نئی ضرورت
مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا پیغام
حیدرآباد، 21؍اکتوبر /. دنیا کی سب سے بڑی طاقت انسان کی عقل ہے۔ جب عقل سلامت رہتی ہے تو انسان پہاڑوں کو کاٹ دیتا ہے، سمندروں کو پار کر لیتا ہے، اور آسمانوں تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ لیکن جب یہی عقل نشے کے دھوئیں میں ڈوبنے لگتی ہے تو انسان حیوانیت کے گڑھے میں جا گرتا ہے۔ افسوس کہ آج ہمارا معاشرہ، خصوصاً نوجوان نسل، اسی خطرناک موڑ پر کھڑی ہے۔
منشیات ایک ایسا زہر ہے جو آہستہ آہستہ جسم، روح، اور کردار سب کو ختم کر دیتا ہے۔ یہ کسی کو لمحاتی سرور دیتا ہے مگر زندگی بھر کا سکون چھین لیتا ہے۔ جو نوجوان کل ملک و ملت کا سرمایہ تھے، آج انہی ہاتھوں میں زہر کے انجکشن، اور انہی آنکھوں میں خوابوں کے بجائے خالی پن کی سیاہی ہے۔
اسلام نے انسان کو “احسن تقویم” پر پیدا کیا، یعنی بہترین صورت اور فطرت میں۔ مگر منشیات اس حسنِ فطرت کو مسخ کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے فرمایا:
> “شیطان چاہتا ہے کہ شراب اور جوا کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی ڈال دے اور تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل کر دے۔” (المائدہ: 91)
منشیات صرف جسمانی عادت نہیں بلکہ روحانی بیماری ہے۔ یہ ایمان کو کمزور کرتی ہے، عقل کو مفلوج، اور ضمیر کو مردہ کر دیتی ہے۔
مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے اپنے بیان میں فرمایا کہ:
> “آج سب سے بڑی جہاد منشیات کے خلاف ہے۔ یہ صرف حکومت یا قانون کا نہیں، بلکہ ہر گھر، ہر استاد، ہر مسجد اور ہر ادارے کا فریضہ ہے کہ وہ نوجوانوں کو بیدار کرے۔ والدین اپنے بچوں کے دوست بنیں، دشمن نہیں۔ ان سے گفتگو کریں، نگرانی کریں، محبت سے سمجھائیں، کیونکہ سختی اکثر بغاوت کو جنم دیتی ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ:
> “نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کو مقصد کے ساتھ جوڑیں، اپنی توانائی کو علم، کھیل، عبادت اور سماجی خدمت میں لگائیں۔ نشہ وقتی بھول ہے، مگر تباہی دائمی ہے۔ جو انسان اپنے خوابوں کو بیدار رکھتا ہے، وہ کبھی نشے کے اندھیروں میں نہیں کھو سکتا۔”
انسان کو جن نعمتوں سے سرفراز کیا گیا ہے، ان میں ایک عقل و دانائی بھی ہے، یہی عقل ہے جس نے اس کے کمزور ہاتھوں میں پوری کائنات کو مسخر کر رکھا ہے اور اسی صلاحیت کی وجہ سے اللہ نے اس کو دنیا میں خلافت کی ذمہ داری سونپی ہے ؛ اسی لئے اسلام میں عقل کو بڑی اہمیت حاصل ہے، قرآن مجید نے بےشمار مواقع پر مسلمانوں کو تدبر اور تفکر کی دعوت دی ہے، تدبر اور تفکر کی حقیقت کیا ہے؟ یہی کہ انسان جن چیزوں کا مشاہدہ کرے اور جو کچھ سنے اورجانے، عقل کو استعمال کر کے اس میں غور و فکر کرے اور انجانی حقیقتوں اور ان دیکھی سچائیوں کو جاننے اور سمجھنے کی سعی کرے اسی لئے قانونِ اسلامی کے ماہرین اور فلاسفہ نے لکھا ہے کہ شریعت کے تمام احکام بنیادی طور پر پانچ مقاصد پر مبنی ہیں، دین کی حفاظت، جان کی حفاظت، نسل کی حفاظت، مال کی حفاظت اور عقل کی حفاظت، گویا عقل اور فکر و نظر کی قوت کو برقرار رکھنا اور اسے خلل اور نقصان سے محفوظ رکھنا اسلام کے بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے۔
چنانچہ اسلام میں جن کاموں کی شدت کے ساتھ مذمت کی گئی ہے اور جن سے منع فرمایا گیا ہے، ان میں ایک نشہ کا استعمال بھی ہے، قرآن مجید نے نہ صرف یہ کہ اس کو حرام بلکہ نا پاک قرار دیا ہے:
یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَO
اے ایمان والو! بیشک شراب اور جُوا اور (عبادت کے لئے) نصب کئے گئے بُت اور (قسمت معلوم کرنے کے لئے) فال کے تیر (سب) ناپاک شیطانی کام ہیں۔ سو تم ان سے (کلیتاً) پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔
( المائدة: 90)
کیونکہ انسان کا سب سے اصل جوہر اس کا اخلاق و کردار ہے، نشہ انسان کو اخلاقی پاکیزگی سے محروم کر کے گندے افعال اور ناپاک حرکتوں کا مرتکب کر تی ہے اور روحانی اور باطنی ناپاکی ظاہری ناپاکی سے بھی زیادہ انسان کے لئے مضر ہے، احادیث میں بھی اس کی بڑی سخت وعید آئی ہے اور بار بار آپ ﷺ نے پوری صفائی اوروضاحت کے ساتھ اس کے حرام اور گناہ ہونے کو بتایا ہے، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:
ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔ (بخاری)
حضرت جابر بن عبد اللہ سے آپ ﷺ کا ارشاد مروی ہے کہ:
جس شے کی زیادہ مقدار نشہ کا باعث ہو، اس کی کم مقدار بھی حرام ہے۔ (ترمذی)
یہ نہایت اہم بات ہے کیونکہ عام طور پر نشہ کی عادت اسی طرح ہوتی ہے کہ معمولی مقدار سے انسان شروع کرتا ہے اور آگے بڑھتا جاتا ہے، یہاں تک کہ بعض اوقات اتنا آگے بڑھ جاتا ہے کہ زہر آمیز انجکشن کے بغیر اس کی تسکین نہیں ہوتی۔
نشہ ایک ایسا لفظ ہے جس کے زبان پر آتے ہی اس کی خرابیاں نگاہوں کے سامنے رقص کرنے لگتی ہیں۔ اصل میں اس کی خرابیاں واضح ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ایک صالح و صحت مند معاشرہ اسے ہرگز قبول نہیں کرتا۔ منشیات کا زہر ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے، کتنے ہی خاندان ایسے ہیں جو نشے میں مبتلا اپنے بچوں کے مستقبل سے نااُمید ہو چکے ہیں۔ ہمارے نوجوان اکثر و بیشتر معاشرتی ردعمل اور نامناسب رہنمائی کی وجہ سے نشے جیسی لعنت کو اپنا لیتے ہیں۔ آج ہماری نوجوان نسل منشیات، شراب، جوے اور دیگر علتوں میں مبتلا ہو کر نہ صر ف اپنی زندگی تباہ کر رہی ہے بلکہ اپنے ساتھ اپنے خاندان والوں کے لیے بھی اذیت اور ذلت و رسوائی کا سبب بن رہی ہے۔ ملک و قوم کی ترقی اور مستقبل کے ضامن یہ نوجوان جرائم پیشہ ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ نشہ جسم کے ساتھ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو بھی سلب کر کے رکھ دیتا ہے۔
آخر میں مولانا نے یہ پیغام دیا کہ:
> “اسلام کا پیغام یہ ہے کہ عقل اللہ کی امانت ہے، اور اس کی حفاظت ایمان کا حصہ ہے۔ آئیں! ہم سب مل کر منشیات کے خلاف عزم کریں اور اپنی آنے والی نسل کو ایک پاکیزہ، بیدار اور باشعور معاشرہ تحفے میں دیں۔”



