سر سید احمد خاں — علم، عقل اور اصلاحِ قوم کے علمبردار, جنرل سکریٹری لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن محترمہ ڈاکٹر عاصم ریشماں کا بیان
📰 سر سید احمد خاں — علم، عقل اور اصلاحِ قوم کے علمبردار, جنرل سکریٹری لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن محترمہ ڈاکٹر عاصم ریشماں کا بیان
حیدرآباد، 22؍اکتوبر 2025ء(پریس ریلیز ) جنرل سکریٹری لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن محترمہ ڈاکٹر عاصم ریشماں نے بتلایا کہ سر سید احمد خاں برصغیر ہند و پاک کی ان عظیم شخصیات میں شمار کیے جاتے ہیں جنہوں نے اپنی بصیرت، علم دوستی، اصلاحی سوچ اور عملی جدوجہد سے قومِ مسلم کو ایک نئی فکری سمت عطا کی۔ وہ صرف ایک مصلح یا معلم نہیں بلکہ ایک ایسی ہمہ جہت شخصیت تھے جنہوں نے سیاسی، تعلیمی، ادبی، تحقیقی اور مذہبی ہر میدان میں گہرے اور دیرپا اثرات چھوڑے۔1817ء میں دہلی میں پیدا ہونے والے سر سید احمد خاں نے ابتدائی تعلیم عربی و فارسی میں حاصل کی
۔ بعد ازاں انہوں نے ملازمت کے ساتھ ساتھ علمی و تحقیقی مشاغل کو بھی جاری رکھا۔ ان کی ابتدائی تصانیف میں ’’آثارالصنادید‘‘، ’’جام جم‘‘، ’’تحفۃ الحسن‘‘، ’’کلمۃ الحق‘‘ اور ’’جلاء القلوب‘‘ شامل ہیں جن میں علمی و دینی رجحانات نمایاں نظر آتے ہیں۔ وہ شروع ہی سے تحقیق اور تجزیہ کے عادی تھے، اسی لیے ان کی تحریروں میں علم و عقل کا حسین امتزاج دکھائی دیتا ہے۔1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد جب پورا ہندوستان انتشار اور مایوسی کا شکار تھا، سر سید نے ایک نئی راہ اختیار کی۔ انہوں نے قوم کے زخموں پر مرہم رکھنے کے ساتھ ساتھ مستقبل کی راہیں روشن کیں۔ انہوں نے مسلمانوں کی پسماندگی کا سبب جہالت کو قرار دیا اور تعلیم کو ہی نجات کا واحد ذریعہ بتایا۔ یہی فکر آگے چل کر علی گڑھ تحریک کی بنیاد بنی، جس نے برصغیر کے مسلمانوں کے تعلیمی اور فکری افق کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔
سر سید احمد خاں نے 1875ء میں علی گڑھ میں محمدن اینگلو اورینٹل کالج قائم کیا، جو بعد میں ’’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘‘ کے نام سے معروف ہوا۔ یہ ادارہ صرف تعلیم کا مرکز نہیں بلکہ قومِ مسلم کی فکری بیداری اور ترقی کی علامت بن گیا۔ ان کے نزدیک تعلیم کا مقصد محض نوکری حاصل کرنا نہیں بلکہ عقل و شعور کی تربیت اور قومی شعور کی بیداری تھا۔جہاں تک زبان و ادب کا تعلق ہے، سر سید احمد خاں نے اردو نثر کو ایک نیا رخ دیا۔ انہوں نے نثر کو تکلف اور تصنع سے پاک کر کے اسے عام فہم، سادہ اور مؤثر بنایا۔ ان کے مضامین نے اردو ادب کو فکر و اصلاح کا پیغام دیا۔ ان کی تصنیف ’’تہذیب الاخلاق‘‘ برصغیر میں اصلاحی صحافت کا پہلا سنگِ میل ثابت ہوئی
۔ انہوں نے ادب کو محض تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ معاشرتی بیداری کا مؤثر ہتھیار سمجھا۔ ان کے نزدیک ادب کا مقصد قوم کی اصلاح اور انسان کی تربیت ہے۔انگریزی علوم و فنون سے استفادہ کرتے ہوئے سر سید نے جدید سائنس اور دینی فکر کے درمیان ایک پُل قائم کرنے کی کوشش کی۔ ان کا نظریہ یہ تھا کہ مذہب اور سائنس ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ ایک دوسرے کے معاون ہیں۔ انہوں نے قرآن کی تعبیر کو عقلی بنیادوں پر سمجھنے کی دعوت دی اور نوجوان نسل کو جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی شعور سے آراستہ ہونے کی تلقین کی۔ان کی تصانیف میں ’’تبیین الکلام‘‘، ’’اسبابِ بغاوتِ ہند‘‘، ’’خطباتِ احمدیہ‘‘، ’’سفرنامۂ لندن‘‘، ’’احکامِ طعام اہل کتاب‘‘، اور ’’تہذیب الاخلاق‘‘ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ ان کے خیالات میں وسعت، ان کے قلم میں جرات، اور ان کے عمل میں اخلاص نمایاں تھا۔سر سید احمد خاں 1898ء میں وفات پا گئے
، لیکن ان کی فکری، ادبی اور تعلیمی خدمات ہمیشہ زندہ رہیں۔ ان کے قائم کردہ ادارے، ان کی تحریریں، ان کی تحریک اور ان کے نظریات آج بھی برصغیر کے تعلیمی نظام اور فکری منظرنامے پر گہرا اثر رکھتے ہیں۔سر سید کی زندگی ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ قوموں کی ترقی کا راز تعلیم، تحقیق، علم و عقل اور اجتماعی شعور میں پوشیدہ ہے۔ انہوں نے جو چراغ علی گڑھ میں روشن کیا، وہ آج بھی امتِ مسلمہ کے لیے رہنمائی کا مینار بنا ہوا ہے۔چیرمین لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ نے بتلایا کہ آج جب دنیا تیز رفتار سائنسی ترقی کے باوجود فکری انتشار، مذہبی انتہاپسندی اور سماجی ناہمواریوں سے دوچار ہے
، سرسید احمد خاں کے نظریات پہلے سے کہیں زیادہ قابلِ عمل اور ضروری معلوم ہوتے ہیں۔ اُن کا پیغام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ترقی کا واحد راستہ تعلیم، تحقیق، رواداری اور اجتماعی شعور سے ہو کر گزرتا ہے۔موجودہ دور میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سرسید کے تعلیمی فلسفے کو نئی نسل تک پہنچائیں — تاکہ نوجوان محض ڈگری یافتہ نہیں بلکہ علم و عمل سے مزین، اخلاقی اعتبار سے مضبوط اور فکری لحاظ سے باشعور شہری بن سکیں۔ سرسید نے جو چراغِ علم جلایا تھا، وہ آج بھی روشنی بانٹ رہا ہے۔ اگر ہم اُس روشنی کو اپنی زندگیوں میں جذب کرلیں تو یقیناً ہمارا معاشرہ ترقی، اتحاد اور علم دوستی کا پیکر بن سکتا ہے۔



