تلنگانہ

پارٹی بنانا کوئی بڑا کام نہیں۔ اصل کام عوام کے مسائل کی یکسوئی ہے : رکن کونسل کویتا

پارٹی بنانا کوئی بڑا کام نہیں۔ اصل کام عوام کے مسائل کی یکسوئی ہے

*سما جی تلنگانہ کا حصول ہی جاگروتی کا مقصد*

*تمام کو مساوی مواقع کے لئے جدوجہد کا عزم*

*کانگریس ایک ڈوبتی ہوئی کشتی*

*نظام آباد میں صدر تلنگانہ جاگروتی کےکویتا کی پرہجوم پریس کانفرنس*

 

نظام آباد 26/ اکٹوبر (اردو لیکس)

صدر تلنگانہ جاگروتی کلواکنٹلہ کویتا نے "جاگروتی جنم باٹا” پروگرام کے سلسلے میں نظام آباد میں ایک پر ہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور کہا کہ جاگروتی کا نصب العین "مواقع، اختیار اور خودداری” پر مبنی ہے اور یہی حقیقی سماجی تلنگانہ کی بنیاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ تلنگانہ کی تشکیل کا مقصد یہی تھا کہ ہر طبقے کو برابری کا حق ملے، سب کو مواقع میسر ہوں اور ہر فرد کو عزت نفس کے ساتھ جینے کا حق حاصل ہو۔کویتا نے کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کے کئی انقلابات اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے،

 

مگر آزادی، مساوات اور خودداری کے لئے برپا ہونے والا انقلاب کامیاب ہوا۔ اسی طرح، تلنگانہ تحریک بھی پانی، فنڈس اور ملازمتوں کے حق کے لئے کامیاب جدوجہد تھی۔ مگر آج وہی تلنگانہ، جسے عوام نے قربانیوں سے حاصل کیا، سب کے لئے مساوی ترقی سے محروم نظر آتا ہے۔انہوں نے وزیراعلیٰ ریونت ریڈی کی حکومت پر شدید تنقید کی اور کہا کہ آج تعلیم ہر ایک کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ فیس ری ایمبرسمنٹ اسکیم بند ہونے سے سب سے زیادہ نقصان بیٹیوں کو ہو رہا ہے

 

کیونکہ والدین بیٹوں کی فیس تو دیتے ہیں مگر لڑکیوں کی تعلیم پر خرچ نہیں کر پاتے۔ یہ عمل دراصل حکومت کی پالیسیوں سے خواتین کے ساتھ ہونے والی ناانصافی ہے۔کویتا نے کہا کہ ریاست میں اختیارات کی تقسیم بھی غیر مساوی ہے۔ کئی سماجی طبقات کے باوجود حکومت میں چند طبقات ہی اقتدار سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، جب کہ ایس سی، ایس ٹی، بی سی، خواتین اور نوجوانوں کی حصہ داری نہ ہونے کے برابر ہے۔

 

انہوں نے زور دیا کہ حقیقی سماجی انصاف تب ہی ممکن ہے جب ہر طبقے کو نمائندگی اور اختیار دیا جائے۔انہوں نے کہا کہ کانگریس حکومت نے اقلیتوں کے نام پر اقتدار حاصل کیا، لیکن تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ ریاستی کابینہ میں نہ کوئی اقلیتی وزیر ہے، نہ کوئی ایس ٹی وزیر۔ یہ تلنگانہ کی سماجی روح کے مغائرہے اور کانگریس کو اس پر شرم آنی چاہئے۔

 

کویتا نے کہا کہ تلنگانہ کی شناخت ہی خودداری اور وقار ہے۔ اور خودداری اسی وقت برقرار رہ سکتی ہے جب سب کو مساوی مواقع ملیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ وہ صرف کسی ایک طبقے یا برادری کے لئے نہیں بلکہ پورے تلنگانہ کے لئے بولتی ہیں۔ٹی ایس پی ایس سی گروپ-1 امتحانات میں ناانصافی کا ذکر کرتے ہوئے کویتا نے کہا کہ تلنگانہ کے نوجوانوں کا حق چھین کر 8 نان لوکل امیدواروں کو نوکریاں دی گئیں، جس سے ریاست کے مستقبل کو خطرہ لاحق ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس معاملے پر انہوں نے چیف جسٹس آف انڈیا کو خط لکھا ہےاور اگر از خود کارروائی نہ ہوئی تو وہ عدالت میں رِٹ پٹیشن دائر کریں گی۔کویتا نے کہا کہ یہ 8 افراد مستقبل میں 30 سال تک اہم عہدوں پر فیصلے لیں گے، جس سے تلنگانہ کے مفادات کو شدید نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ “ہم اس زیادتی کے خلاف آخر تک لڑیں گے،”

 

انہوں نے کہا کہ وہ ریاست بھر کے فنکاروں اور تلنگانہ تحریک کے کارکنوں سے ملاقات کر رہی ہیں جو پنشن کے مطالبے پر آواز اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ شہداء کے اہل خانہ کو ایک کروڑ روپئے معاوضہ دیا جائے اور تحریکِ تلنگانہ کے کارکنوں سے کئے گئے وعدوں کو پورا کیا جائے۔

 

کویتا نے کہا کہ تلنگانہ سب کا ہونا چاہئے، صرف چند افراد کا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ بی آر ایس سے علیحدگی اس لئے اختیار کی ہیں کیونکہ پارٹی میں خودغرض اور موقع پرست افراد کو ترجیح دی گئی جنہوں نے بی آر ایس اور کے سی آر گارو دونوں کو نقصان پہنچایا۔

 

انہوں نے کہا، “میں نے پارٹی کے اندر کبھی بغاوت نہیں کی۔ مجھے بولنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ جب مجھ سے منصفانہ سلوک نہیں ہوا، تب ہی میں نے استعفیٰ دیا۔”کویتا نے کہا کہ بی آر ایس میں ان کے خلاف کارروائی کے سی آر گارو کے فیصلے سے ہوئی، اور وہ اب بھی کے سی آر کو ایک بہترین وزیراعلیٰ اور قائد سمجھتی ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ وہ بی آر ایس یا کے سی آر پر ایشو بیسڈ تنقید کرتی ہیں، نہ کہ ذاتی حملے۔کویتا نے کہا کہ کانگریس سے ان کی کوئی وابستگی نہیں، کیونکہ “خود عوام نے ہی کانگریس کو مسترد کر دیا ہے۔” انہوں نے کہا کہ “کانگریس ایک ڈوبتی ہوئی کشتی ہے، جس سے مجھے یا عوام کو کوئی امید نہیں۔”

 

مرکزی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر بی جے پی کے رکن پارلیمان واقعی بی سی طبقے کے خیرخواہ ہیں، تو انہیں بی سی ریزرویشن بل کے لئے استعفیٰ دینا چاہئے تاکہ یہ بل پاس ہو سکے۔انہوں نے مقامی مسائل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ نظام آباد کے مکہ نگر برج کی تعمیر دو سال سے رکی ہوئی ہے۔ “جب بی آر ایس حکومت میں تھی، بی جے پی والے ’کے-ٹیکس‘ کا شور مچاتے تھے، اب سوال یہ ہے کہ کیا آج ’می-ٹیکس‘ چل رہا ہے؟”

 

کویتا نے وزیراعلیٰ ریوَنت ریڈی پر پوڈو کسانوں کے ساتھ زیادتی کا الزام لگایا اور کہا کہ منچِپہ پروجیکٹ کے علاقے میں ایک کسان نے اپنی فصل تباہ ہونے کے بعد زہر پی کر خودکشی کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ ضلع انتظامیہ کو چاہئے کہ کسانوں کے ساتھ ہمدردی سے پیش آئے، ورنہ یہ ظلم ناقابلِ برداشت ہے۔

 

اسی طرح، یَچ گاؤں میں گوداوری سیلاب سے شدید نقصان پہنچا ہے۔ کویتا نے کہا کہ صرف نوی پیٹ منڈل میں 5 ہزار ایکڑ زمین متاثر ہوئی ہے، اس لئے حکومت فی ایکڑ 50 ہزار روپئے معاوضہ ادا کرے۔

 

انہوں نے کہا کہ مکئی کے کسانوں کو وعدے کے مطابق 400 روپئے بونس نہیں دیا گیا، جس سے فی کنٹل 700 روپئے کا نقصان ہوا ہے۔ “سرکار کو چاہئے کہ پچھلے سال کے ساتھ اس سال کا بونس بھی فوراً ادا کرے اور ایک ایک دانہ خریدنے کی ضمانت دے۔”کویتا نے بیڑی مزدور خواتین کے مسئلے پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ کمپنیوں کی طرف سے اجرتوں میں کٹوتی کی جا رہی ہے جس سے خواتین متاثر ہو رہی ہیں

 

۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ مقامی ایم ایل ایز اور ارکانِ پارلیمان اس پر آواز اٹھائیں۔آخر میں کویتا نے نظام آباد کے عوام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ “میں جنم باٹا کے ذریعے عوام سے ملاقات کر رہی ہوں، ان کے دکھ سن رہی ہوں، ان کے حق کے لئے لڑوں گی۔ پارٹی بنانا کوئی بڑا کام نہیں، اصل کام عوام کے مسائل حل کرنا ہے۔”

متعلقہ خبریں

Back to top button