مالی معاملات میں دیانت داری اور ذمہ داری کا احساس ایمان کا اہم جز ہے۔مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا بیان
مالی معاملات میں دیانت داری اور ذمہ داری کا احساس ایمان کا اہم جز ہے۔مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا بیان
حیدرآباد، 29؍اکتوبر 2025ء(پریس ریلیز ) خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے بتلایا کہ اسلام ایک ایسا کامل دین ہے جو انسان کی انفرادی، اجتماعی اور معاشی زندگی کے ہر پہلو کی رہنمائی کرتا ہے۔ مالی معاملات میں دیانت داری اور ذمہ داری کا احساس ایمان کا اہم جز ہے۔ قرض لینا بظاہر ایک عام ضرورت ہے، لیکن اس کی ادائیگی میں لاپرواہی یا تاخیر دینی اور اخلاقی لحاظ سے سخت ناپسندیدہ عمل ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب کوئی مومن فوت ہوتا اور اس پر قرض ہوتا تو رسول اللہ ﷺ پوچھتے:”کیا اس نے اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے کچھ چھوڑا ہے؟“اگر لوگ کہتے کہ ہاں، تو آپ ﷺ اس کی نماز جنازہ پڑھاتے، ورنہ ارشاد فرماتے:
”تم اپنے ساتھی پر نماز پڑھ لو“۔پھر جب اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ پر فتح و نصرت کے دروازے کھول دیے تو آپ ﷺ نے فرمایا:
”میں مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھتا ہوں، تو جو شخص وفات پائے اور اس پر قرض ہو، اس کی ادائیگی مجھ پر ہے، اور اگر کوئی مال چھوڑ جائے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے۔“(صحیح بخاری و صحیح مسلم)
یہ فرمانِ نبوی امتِ مسلمہ کے لیے ایک عظیم پیغام رکھتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے نہ صرف مالی معاملات میں احتیاط کا حکم دیا بلکہ امت کے کمزور اور محتاج افراد کے بوجھ کو خود اپنے ذمے لے کر سماجی ذمہ داری کا اعلیٰ ترین نمونہ قائم فرمایا۔اسلام کی نظر میں قرض کی ادائیگی محض ایک مالی فریضہ نہیں بلکہ ایمانی امانت ہے۔ قرآن مجید میں بھی ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
”اے ایمان والو! جب تم قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو“ (البقرہ: 282)
یعنی قرض کا معاملہ باقاعدہ تحریر میں لانا چاہیے تاکہ کسی کے حق میں کمی نہ ہو۔
علمائے کرام کا کہنا ہے کہ آج کے دور میں جب مالی بے احتیاطی عام ہو چکی ہے، ایسے میں ضروری ہے کہ مسلمان قرض لینے میں احتیاط کریں، غیر ضروری قرض سے بچیں، اور اگر قرض لے چکے ہوں تو اسے حتی الامکان جلد از جلد ادا کریں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
”شہید کے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں سوائے قرض کے۔“
(صحیح مسلم)
یہ حدیث قرض کی سنگینی اور اس کی ادائیگی کے وجوب پر واضح دلیل ہے۔
کسی کا مال لوٹنا، ناجائز طریقے یا دھوکے سے کسی کا مال ہتھیانا یا کسی کے مال پر قبضہ کرنا شرعاً ناجائز ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:اور تم ایک دوسرے کے مال آپس میں ناحق نہ کھایا کرو اور نہ مال کو (بطورِ رشوت) حاکموں تک پہنچایا کرو کہ یوں لوگوں کے مال کا کچھ حصہ تم (بھی) ناجائز طریقے سے کھا سکو حالانکہ تمہارے علم میں ہو (کہ یہ گناہ ہے)۔
البقرة، 2: 188
دوسرے مقام پر فرمایا:
اے ایمان والو! تم ایک دوسرے کا مال آپس میں ناحق طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اس کے کہ تمہاری باہمی رضا مندی سے کوئی تجارت ہو، اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بیشک اللہ تم پر مہربان ہے۔النساء، 4: 29
جس طرح دھوکہ فراڈ سے دوسروں کا مال کھانا حرام ہے اسی مقروض کا وسعت کے باجود قرض واپس نہ کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس فعل کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے شخص کا جنازہ پڑھانے سے انکار فرما دیتے جس پر قرض ہوتا تھا تاآنکہ کوئی شخص اُس کا قرض ادا کرنے یا قرض خواہ اُسے قرض معاف کرنے کا اعلان نہیں کر دیتا تھا۔ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک جنازہ لایا گیا تاکہ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
کیا اس پر کوئی قرض ہے؟ لوگوں نے عرض کی نہیں تو اُس کی نماز جنازہ پڑھی۔ پھر دوسرا جنازہ لایا گیا تو فرمایا: کیا اس پر قرض ہے؟ لوگ عرض گزار ہوئے: ہاں۔ فرمایا: تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھو۔ حضرت ابو قتادہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! اس کا قرض مجھ پر۔ پھر (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے) اُس کی نماز جنازہ پڑھی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں جب کوئی جنازہ لایا جاتا تو آپ پوچھتے کیا اس کے پاس قرض ادا کرنے کے لیے کچھ ہے؟ لوگ ہاں کرتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھا دیتے ورنہ مسلمانوں سے فرماتے کہ اپنے بھائی کی نماز جنازہ پڑھو۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو کثرت سے مال دیا تو فرمایا کہ میں مسلمانوں کا اُن کی جانوں سے بھی زیادہ مالک ہوں۔ پھر جو مسلمانوں میں سے فوت ہو جائے اور قرض چھوڑے تو یہ مجھ پر ہے اور جو مال چھوڑے تو وہ اُس کے وارثوں کے لیے ہے۔
اس موضوع پر اور بھی متعدد روایات موجود ہیں۔ اس لیے لوگوں کا ناحق مال کھانا اور قرض واپس نہ کرنا شرعاً ممنوع ہے۔ سوال میں مذکور شخص قرض کی ادائیگی پر قادر ہونے کے باوجود قرض واپس نہ کر کے گناہ کا مرتکب ہو رہا ہے اور اس کے ساتھ دینے والے بھی اس گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔ قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اﷲ (نافرمانی کرنے والوں کو) سخت سزا دینے والا ہے۔الْمَآئِدَة، 5: 2
گویا برے کاموں میں تعاون کرنے والے بھی شدید عذاب کے مستحق ہیں۔
جہاں تک اس شخص کے ساتھ تعلقات رکھنے اور اس کے ساتھ کھانے پینے کا تعلق ہے تو اس حوالے سے بہتر یہ ہے کہ اسے سمجھایا جائے اور اس قبیح فعل کی سنگینی سے آگاہ کیا جائے، شائد سمجھانے سے اس کا ضمیر جاگ جائے۔ نفرت گناہ سے ہونی چاہیے گنہگار سے نہیں، اصلاح کی کوشش جاری رہنی چاہیے۔ اگر محض کسی کے گناہ کی بنیاد پر اس سے قطع تعلقی کر لی جائے تو گہنگاروں کی اصلاح کیسے ہوگی؟ وہ تو مزید گناہوں میں لت پت ہو جائیں گے۔ اس لیے اعزا و اقربا اصلاح کی نیت سے اُس کے ساتھ تعلق قائم رکھیں اور باقاعدگی سے اُسے اِس برائی سے نکالنے کی کوشش کریں۔ سماجی معاملات میں بھی اس کے ساتھ میل جول جاری رکھیں۔
ملتِ اسلامیہ کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں دیانت، امانت، اور مالی ذمہ داری کا شعور پیدا کریں۔ سماج میں ایسے ادارے وجود میں آئیں جو ضرورت مندوں کے قرض ادا کرنے میں تعاون کریں تاکہ امت معاشی طور پر مضبوط اور ایمانی طور پر بااعتماد بنے۔
آخر میں، ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ قرض دار کی راحت اور ادائیگی میں آسانی پیدا کرنا اللہ کی رحمت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، جیسا کہ ارشادِ نبوی ﷺ ہے:
”جو کسی تنگدست کو مہلت دے یا اس کا قرض معاف کردے، اللہ اسے قیامت کے دن اپنے عرش کے سایے میں جگہ دے گا۔“
(ترمذی)



