جنرل نیوز

جامعہ نظامیہ کے فیضان کا تسلسل — علم و روحانیت کی تابندہ روایت،مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا اظہار خیال

 

جامعہ نظامیہ کے فیضان کا تسلسل — علم و روحانیت کی تابندہ روایت،مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا اظہار خیال

 

حیدرآباد، 2 نومبر:(پریس ریلیز )چیئرمین لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے آج صدر دفتر بنجارہ ہلز روڈ نمبر 12 پر منعقدہ فکری نشست بعنوان "جامعہ نظامیہ کا فیضان” سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ جامعہ نظامیہ حیدرآباد صرف ایک درسگاہ نہیں بلکہ برصغیر کے علمی، فکری اور روحانی ورثے کی وہ روشن علامت ہے جس نے ایک صدی سے زائد عرصے تک امتِ مسلمہ کی فکری و اخلاقی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بانیِ جامعہ نظامیہ شیخ الاسلام والمسلمین عارف باللہ الامام الحافظ محمد انواراللہ فاروقی فضیلت جنگؒ نے ایسے پرفتن دور میں اس ادارے کی بنیاد رکھی جب امت میں علمی زوال، فکری انتشار اور مغربی اثرات کے سبب دینی تعلیم کمزور پڑ رہی تھی۔ جامعہ نظامیہ نے نہ صرف تجدیدِ دین کا فریضہ انجام دیا بلکہ علم و عمل، تصوف و فقہ، اور اخلاق و کردار کے حسین امتزاج کو فروغ دیا۔

 

مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے کہا کہ جامعہ نظامیہ سے فارغ ہونے والے علمائے کرام اور مشائخ نے دنیا بھر میں تبلیغِ دین، اشاعتِ علم اور اصلاحِ امت کے میدانوں میں بے مثال خدمات انجام دی ہیں۔ آج بھی جامعہ نظامیہ کا فیضان ہر گوشۂ عالم میں محسوس کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس ادارے نے ایسے رجالِ کار پیدا کیے جنہوں نے مدارس، جامعات، دارالافتاء اور تحقیقی اداروں کے قیام کے ذریعے امت کی فکری بیداری اور دینی تشخص کی حفاظت کی۔ یہی وجہ ہے کہ جامعہ نظامیہ کا فیضان وقت کے ساتھ بڑھتا چلا جا رہا ہے، اور اس کے فضلاء مختلف ممالک میں قرآن و سنت کی روشنی عام کر رہے ہیں۔

مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے آخر میں کہا کہ آج کے جدید دور میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم جامعہ نظامیہ کے تعلیمی و اخلاقی ماڈل کو نئی نسل تک منتقل کریں تاکہ علم کے ساتھ کردار سازی اور روحانیت کا توازن برقرار رہے۔

 

شیخ الاسلام حضرت مولانا انوار اللہ فاروقی علیہ الرحمہ موضع قندھار ضلع ناندیڑ میں ۴  ربیع الثانی ۱۲۶۴ھ کو پیدا ہوئے۔ آپکے والد گرامی حضرت قاضی حافظ ابو محمد شجاع الدین علیہ الرحمہ متقی وپر ہیز گار بزرگ تھے۔ آپ کا سلسلہ نسب امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے  ملتاہے۔ ابتدائی تعلیم وہیں ہوئی ۔ پانچ برس کی عمر میں قرآن پاک ناظرہ ختم کیاگیارہ بر س کی عمر میں قرآن پاک  حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی۔ ۱۲۸۲ھ میں جب آپکی عمر صرف ۱۸برس تھی توآپ حیدرآباد تشریف لائے اور مولاناعبد الحئی فرنگی محلیؒ سے فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ آپ تفسیر، حدیث، فقہ ، ادب اور معقولات کے جید عالم تھے۔ آپ اپنے اساتدہ کا بیحد ادب کرتے تھے۔ آپکی بے مثل وخداداد ذہانت وذکاوت اور علمی استدادکے خود آپ کے اساتذہ بھی معترف تھے ، اور آپکے بے پناہ علمی ذوق کو دیکھتے ہو ئے آپکے اساتذہ بھی باوجود کثرت مشاغل آپ پر اپنی خاص عنایت رکھتے تھے۔ آپ نے علوم شریعت کی تکمیل وتحصیل کے بعد اپنے والد محترم حضرت ابومحمد شجاع الدین علیہ الرحمہ سے سلوک کی تکمیل فرمائی اور سلاسل جملہ میں بیعت کی پھر حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ سے مکہ معظمہ میں موسم حج میں بیعت مکرر فرمائی اور منازل سلوک کی تکمیل بھی فرمائی۔ آپکو بعمر ۳۰ سال حرمین شریفین کی زیارت و سعادت حج حاصل ہوئی۔ آپ ایک بلند پایہ اور قادر الکلام شاعر بھی تھے۔ آپ کے فارسی و اردو اشعارپر مشتمل مجموعہ کلام ’’شمیم الانوار‘‘ کے نام سے منصہ شہود پرآچکا ہے۔ چونکہ آپکی مصروفیت بے پناہ تھی تصنیف وتالیف، درس وتدریس اور دیگر مشاغل کی وجہ سے آپ شعر گوئی پر زیادہ توجہ نہیں دیا کرتے تھے ، اگر عدیم الفرصتی آپکی شعر گوئی میں آڑے نہ آتی تو یقینا آپ کے قلم سے مزید اعلیٰ پائے کے اشعار ملتے اور صاحبِ ذوق حـضرات کیلئے باعث تسکین ہوتے اور اردو ادب کے سرمایہ  میں گرانقدر اضافہ کا موجب بنتے۔ ’’شمیم الانوار‘‘ میں اکثر اشعار بر جستہ ہیں، جو بے ساختہ آپکی زبان مبارک سے نکلے تھے جس سے آپکی شعر گوئی میں آپکے باوصف ہو نے کی دلیل ہے۔

 

آپ نے اپنی تحریروں کے ذریعہ مسلمانوں میں گرمیٔ ایمان کے جذبے کو تازہ کیا، بقول ڈاکٹر عبدالحمید اکبر کہ آپ نے ’’حریفانِ اسلام کے مقابلے میں جہاد بالقلم کیا‘‘  فرنگیوں نے ہو س اقتدار میں جب اہل اسلام کی دینی ومذہبی حیثیت کو مجروح کرنا شروع کیا تو  شیخ الاسلام حضرت مولانا انوار اللہ فاروقی علیہ الرحمہ نے اپنے زور قلم سے ان کی ناپاک سازشوں کا سدِّ باب کیا۔ انگریزوں نے بعض ضیمر فروش علماء  ومصنفین کو اپنا ہمنوا بنایا تب  شیخ الاسلام حضرت مولانا انوار اللہ فاروقی علیہ الرحمہ نے اپنے مشہور زمانہ رسالہ ’’رسالہ مقاصد الاسلام ‘‘ کے ذریعہ حق کو واضح کیا او رتمام

 

آزاد خیال علماء ومصنفین کی بیخ کنی فرمائی۔ گیار حصوںپرمشتمل طویل مقاصدالاسلام ، ایک عظیم علمی کارنامہ اور ادبی نکتہ نظر سے ایک شاہکار رسالہ ہے۔

 

پہلی جنگ آزادی ۱۸۵۷ء سے کچھ ہی پہلے مسلمانوں کے انحطاط کا دورشروع ہو چکا تھا۔ مسلمانوں کے اس زوال کا اثر آج تک برقرارہے۔ تنزلی کے اس بھیانک اور طویل دورمیں جو کہ تقریباً دیڑھ سوسال پر مشتمل ہے امت مسلمہ کئی نشیب وفرازسے گزری ہے اورہنوز گذررہی ہے۔ ہر دور میںتقریباً یکساں طرز کے فتنے ہمارے سامنے آکھڑے ہو ئے او راللہ تعالیٰ نے ہر دور میں کوئی نہ کوئی ایسی ہستی پیدا کی جو فتنوں کو خس وخاشاک کی طرح بہا لے گئی ،  شیخ الاسلام حضرت مولانا انوار اللہ فاروقی علیہ الرحمہ کے دور میں جو حالت مسلمانوں کی تھی اس کا موجودہ دور سے موازنہ کیا جائے تو اندازہ ہو گا کہ ہم کس تاریک اور بھیانک دور سے گذر رہے ہیں۔نہ ہمارے اندراسلام کی روح باقی ہے اور نہ شعور ، باشعور طبقہ  شاید کسی الف ثانی ؒ یا اما م احمد رضا یا شیخ الاسلام حضرت مولانا انوار اللہ فاروقی علیہ الرحمہ کا منتظر ہے۔ جبکہ ایسی عبقر ی شخصیت باربار پیدا نہیںہوتی بجائے انکا انتظار کرنے کے اگر صرف ان کے کارناموں ، انکی کاوشوں اور رہنمااصولوں کو ہی ہم اپنی زندگی کا نصب العین بنالیں تو میر ے خیال میں نہ صرف ان کے مسائل کا حل دستیاب ہو گا بلکہ امت پھر اپنے آپکو دور نشاۃ ثانیہ میں پائے گی،  شیخ الاسلام حضرت مولانا انوار اللہ فاروقی علیہ الرحمہ نے جس وقت علم اسلام بلند کیا وہ دور شاید اسی دور تاریک سے مماثلت رکھتا ہو یاپھر اس دور سے بھی بدتر ہوگا، اگر تھوڑی دیر کیلئے ہم تصور کریںتو ہمیں بخوبی اندازہ ہو گا کہ کس قدر تکالیف ہمارے بے مثل اسلاف کو برداشت کرنی پڑی ہو گی ، یہی وجہ ہے کہ آج بھی ان کی یادیں ، ان کی تعلیمات وارشادات ، ان کی گرانقدر تصنیفات وتالیفات ہمارے درمیان انکو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ آپ نے ساری عمر اشاعت ِدین وخدمتِ خلق میں گذاری ۔ آپ عالمِ باعمل تھے او راسم بامسمّٰی تھے ، آپ کا روشن کیا ہوا چراغ جسکی ضیاء پاشیوں سے آج ایک عالم جگمگا رہاہے شہرِ حیدرآباد کی پہچان بن گیا ہے۔ جامعہ نظامیہ کے نام سے شان وشوکت سے کھڑا دنیا میں اسلام کی پر نور کرنیں بکھیر رہاہے۔ فیروز بخت ان کرنوں سے اپنے دامنِ علم کو منور کررہے ہیں، ساری دینا میں خواہ آپ کہیں بھی چلے جائیں ، یہ میر ا دعوی ہے کہ آپکو دو، چار ،فارغین جو جامعہ نظامیہ سے فارغ التحصیل ہیں ضرور ملیں گے ، بین الاقوامی سطح علمی ودینی طرز کی یہ منفرد درسگاہ ہے جسکو عالم اسلام میں ایک ممتاز مقام حاصل ہے۔ آپکے دیگر کارناموں میں ، جامعہ نظامیہ اور ملک گیر سطح پر چھوٹے مدارس کے علاوہ ، دائرۃ المعارف النظامیہ ، کتب خانہ آصفیہ اور اشاعت العلوم قابل ذکر ہیں۔ ان عظیم اداروں کے ساتھ ساتھ تصنیفات وتالیفات کا آپ کا کام بھی چلتارہا۔ آپ نے اپنے زمانے کے فتنہ قادیانی کے رد میں افادۃ الافہام ، مفاتیح الاعلام ، فہرست افادۃ الافہام اور انوار الحق جیسی معر کۃ الآراء کتابیں لکھیں جو کہ آج بھی مرزا قادیانی کے کذب و افتراء پر ایک ٹھوس اور جامع دلیل ہے ، آپ نے سر سید احمد خان اورشبلی کے آزاد نظریات وعقائد جوکہ اسلام کے بنیاد ی عقائد سے متصادم تھے پر سخت تنقید فرمائی۔آپ نے ہر دوحضرات کی بیخ کنی کرتے ہوئے فرمایا کہ عقلی دلائل قائم کرکے اسلامی حقائق کی تکذیب کرنا شعار مومنوںکا نہیں بلکہ طریقہ کفارہے۔ سرسید اور شبلی قرآن حکیم کی تفسیرات میں اختلاف کرتے تھے۔ اورمعجزات ، ملائکہ کے وجود اورشیاطین کی اصلیت کے بھی منکرتھے۔

 

شیخ الاسلام حضرت مولانا انوار اللہ فاروقی علیہ الرحمہ کی پوری زندگی خدمت اسلام سے عبارت ہے اور آپ نے دامے ، درمے، سخنے ، ہر طرح سے اسلام کی خدمت کرنے کی کامیاب سعی فرمائی ، آپ ہمہ جہت ، پہلوداراور عظیم المرتبت شخصیت تھے۔ بیک وقت بلند پایہ شاعر، صاحب طرزنثرنگار، فلسفی، متکلم، محدث، مفسر، فقیہ صاحبِ کردار عالم باعمل، مدبر، قومی رہنما،صاحب فکروفن ، مصنف، مترجم اورکئی مدارس کے بانی غرض ایک ورسٹائل اور نابغہ روزگار شخصیت تھے۔ ۱۳۳۶ھ کو یہ بدردکن ۷۲سال کی عمرمیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے غروب ہوا۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔

علامہ اقبالؔ کے الفاظ میں۔

 

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ورپیدا

 

انہوں نے اس موقع پر یہ عزم ظاہر کیا کہ لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن علمی، لسانی اور فکری ترقی کے لیے ایسے ہی اداروں کے ساتھ اشتراکِ عمل کو فروغ دیتی رہے گی، تاکہ علم و اخلاق کی روشنی عام ہو اور امت اپنے اسلاف کے علمی ورثے سے وابستہ رہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button