جنرل نیوز

جامعتہ البنات حیدرآباد میں یوم اقبال ویوم تعلیم کاشاندار انعقاد۔پروفیسر ناصر الدین،پروفیسر محمد محمود صدیقی ودیگرکا توسیعی لیکچر

جامعۃ البنات حیدرآباد جنوبی ہند کی اولین دینی تعلیمی درسگاہ ہے۔ جہاں لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ ان کی فکری تربیت اور ذہنی بالیدگی کے لیے مختلف موضوعات پر توسیعی لیکچر کا اہتمام کیا جاتا ہے صدر معلمہ جامعۃ البنات محترمہ آنسہ سمیہ کی دی گئی اطلاع کے بموجب ماہ نومبر میں یوم اقبال و یوم تعلیم کی مناسبت سے کل 8 نومبر بروز ہفتہ ایک توسیعی لیکچر کا انعقاد زیر

 

 

نگرانی ڈاکٹر سید معراج الدین صاحب سکریٹری انتظامی کمیٹی جامعۃ البنات حیدراباد عمل میں آیا۔پروگرام کا آغاز اعدادیہ ثالثہ کی طالبہ آمنہ وصی کی تلاوت سے ہوا جس کا ترجمہ فضیلت ثانیہ کی طالبہ یسری فاطمہ نے پیش کیا۔ اس کے بعد عالمیت ثالثہ کی طالبہ صبا فاطمہ نے حمد باری تعالیٰ اور عالمیت ثانیہ کی طالبہ سکینہ بدر نے نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نیز فضیلت اولی کی طالبہ عیشۃ الخالد نے کلام اقبال پیش کیا۔ جامعہ کی نائب صدر معلمہ محترمہ فوزیہ سلطانہ صاحبہ نے جامعۃ البنات کا تفصیلی تعارف پیش کیا اور کہا کہ ہماری طالبات مسلکی تعصب سے بالاتر ہو کر کتاب و سنت کی بہترین ترجمانی کرنے والی بنیں اور اپنے کردار و عمل سے وہ انقلاب برپا کریں

 

 

کہ دنیا کے سارے انقلابات ماند پڑ جائیں۔ انہوں نے جامعہ کے تعلیمی نظام کی تفصیل بتائی اور دیگر سہولیات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اپنے تعلیمی سسٹم کو بین الاقوامی تعلیمی مراحل سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اسی مطابقت سے تقسیم کیا ہے۔ کالج سے پہلے ہمارے پاس دو مرحلے ہیں اعدادیہ کے تین سال اور عالمیت کے چار سال، اس طرح سے ہمارے پاس چھٹی جماعت کامیاب طالبات کو داخلہ دیا جاتا ہے چھٹی تا دسویں کے دور میں وہ اعدادیہ سے گذرتی ہیں اور اس دوران ہم اردو میڈیم سے تمام مضامین پڑھانے کی کوشش کرتے ہیں پھر عالمیت جو کہ انٹر کے برابر ہے اس میں زیادہ فوکس عربی ادب پر ہوتا ہے اور فضیلتین میں علوم القرآن و حدیث کو گہرائی سے پڑھایا جاتا ہے۔ اس دوران طالبات ایم فل کے معیار کے مقالہ لکھتی ہیں اور پریزینٹیشن کے ذریعے ان کا امتحان لیا جاتا ہے۔ اسکے بعد ڈاکٹر اسلام الدین مجاہد صاحب رکن انتظامی کمیٹی جامعۃ البنات حیدراباد نے مقررمہمانان کرام کا تعارف پیش کیا۔ بعد ازیں ”علامہ اقبال کا پیغام نوجوانوں کے نام“ کے عنوان پر ماہر اقبالیات پروفیسر ناصر الدین صاحب نے لیکچر پیش کرتے ہوئے کہا کہ علامہ اقبال ایک آفاقی شاعر تھے۔ ان کی شاعری میں حب الوطنی خودداری اور مسلمانوں کی بیداری کے موضوعات نمایاں ہیں۔

 

 

انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے نوجوانوں کو علم و عمل اور انسانیت کی خدمت کی ترغیب دی ہے نیز علامہ اقبال کی شاعری اور ان کے افکار و خیالات سطحی سوچ کے بجائے اپنے اندر فکری ارتقاء پیدا کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ زندگی کے میدان میں آپ پہلی صف میں رہنے کی کوشش کریں۔ اگر آپ پہلی صف میں نہیں ہیں تو پھر اپنے آپ کے بارے میں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ کہ ہم کہاں ہیں۔ایک نئی دنیا کی تعمیر کرنے کی جدوجہد کریں اور بدلتی ہوئی دنیا کا حصہ بننے کو ترجیح دیں۔ آپ اس کائنات کو خوبصورت اور بہترین بنائیں۔ اپنی سوسائٹی اور اپنے سماج کی زندگی کو معیاری بنانے میں کوئی کمی نہ آنے دیں۔ زندگی میں کبھی کوئی غلط کام سامنے آئے تو اس کو سیدھا کر کے دکھانا یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔ کبھی کسی اچھی چیز۔ اچھے سسٹم اور نظام کو مرنے نہیں دینا یہ بھی آپ کی ذمہ داری ہے۔ علامہ اقبال نے نوجوانوں کو جھنجھوڑتے ہوئے انہیں اپنی ذمہ داری کو محسوس کرنے کی تاکید کی ہے۔ انہیں اس بات کی طرف بھی متوجہ کیا ہے کہ ہر نوجوان۔چاہے وہ مرد ہو یا عورت اپنی زندگی شمع کی صورت اختیار کریں۔ آپ تعلیم کے جس پوائنٹ پر ہوں اسی میں اس کو اچھا بنا کر پیش کرنا یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔ ہر پرانے خیالات افکار کلچر اور تہذیب کو ہٹا کر شرعی ہدایات کی روشنی میں نئے کلچر اور تہذیب سے لوگوں کو روشناس کرنا ضروری ہے۔ اقبال نے جس حکمت اور دانائی کو اختیار کرنے پر نوجوانوں کو زور دیا ہے اس سے اپنے آپ کو آراستہ کرنا اور آنے والی نسلوں کو مہمیز کرنا۔ انہیں اہمیت دینا اور اپنے اندر وہ چنگاری پیدا کرنا جو سارے زمانے کو روشن اور منور کر دے۔ اپنے آپ کو وہ قیمتی موتی کا درجہ دینا جو زمانے کو اپنے قدر کرنے پر مجبور کر دے اس اس لحاظ سے اپنی تربیت کرنا ضروری ہے۔

 

 

علامہ اقبال نے براہ راست نوجوانوں سے مخاطبت کی ہے مختلف مثالوں نظموں اور مکالموں کے ذریعے پیغام عمل کی طرف متوجہ کیا ہے اقبال نے اس بات کی جانب بھی متوجہ کیا کہ زندگی کے بہت سارے مواقع پر ہمیں اپنے اندر کچھ خامیاں نظر آئیں گی مگر اس کے باوجود ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ اللہ نے ہمارے اندر جو کچھ رکھا ہے وہ ہماری بھلائی کے لیے ہے۔مسلمانوں کے لیے ایک رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں فاطمہ بنت عبداللہ کی مثال دے کر مہمان محترم نے زندگی میں جدوجہد اور قربانی دینے پر آمادہ کیا۔اس کے بعد ”حالات حاضرہ میں مولانا آزاد کا پیغام“ کے عنوان پر پروفیسر محمد محمود صدیقی صاحب سینیئر پروفیسر مانو نے لیکچر پیش کرتے ہوئے کہا کہ مولانا ابوالکلام آزاد ایک عبقری شخصیت تھے۔ وہ تعلیم برائے معیشت نہیں بلکہ تعلیم برائے انسانیت کے قائل تھے مولانا بیک وقت ایک ماہر عالم دین مفسر قرآن ممتاز نثر نگار خطیب بے مثال ادب و صحافت کے مایہ ناز قلم کار اور مدبر سیاست دان تھے ان کی زندگی کا اہم مقصد ملک میں امن و سلامتی قائم کرنا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد حقیقی معنوں میں علامہ اقبال کے افکار و خیالات کے حامل تھے۔ لہذا آج کے نوجوانوں کے لیے علامہ اقبال کے افکار و خیالات اور مولانا آزاد کی زندگی مشعل راہ ہے۔ تعلیم و تدریس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے رویوں پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ بعض اوقات تدریس سے زیادہ سامنے والے پر رویے کا اثر پڑتا ہے۔ صرف زبان سے اپنے اندر انقلاب پیدا نہیں کر سکتے۔ بلکہ انقلاب کے لیے عملی نقل و حرکت کی ضرورت پڑتی ہے۔ مولانا آزاد رحمۃ اللہ علیہ نے عصر حاضر کے مسائل کا حل پیش کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو انسانیت کی تعمیر کے لیے تیار کرنا ہوگا۔ مولانا آزاد رحمت اللہ علیہ نہ صرف یہ کہ وہ عالم دین تھے بلکہ انسان دوستی اور کردار کا حسین امتزاج بھی اپنے

 

 

اندر رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے پائیدار امن کی بنیاد رکھی۔ اختلاف کے باوجود اتحاد و اتفاق کے ساتھ زندگی گزارنے کی تلقین کی۔ پروگرام کے آخر میں ڈاکٹر جاوید کمال صاحب رکن انتظامی کمیٹی جامعۃ البنات حیدراباد نے مہمان کرام کو ہدیہ تشکر پیش کیا۔ پروگرام کی نظامت مفتی عبدالفتاح صاحب سبیلی نائب ناظم جامعۃ البنات نے فرمائی۔ اور مفتی حبیب الرحمن صاحب قاسمی استاد فقہ جامعۃ البنات کی دعا پر پروگرام کا اختتام ہوا۔ دریں اثناء محض تین مہینے میں حفظ قرآن کی تکمیل کرنے والی طالبہ ماحیہ منکر کو 25 ہزار روپے بطور انعام دے کر حوصلہ افزائی کی گئی۔ صدر و ناظم جامعۃ مولانا شیخ ابو عمار رفیق احمد نظامی صاحب بیرون ملک ہونے کی بناء پر آن لائن پروگرام میں شرکت فرمائی۔ اس پروگرام کو زوم اور یوٹیوب پر بھی لائیو ٹیلی کاسٹ کیا گیا جس پر ملک اور بیرون ملک سے ایک کثیر تعداد نے

 

 

مشاہدہ کیا، اس موقع پر اراکین انتظامی کمیٹی اور معلمات و معلمین کرام اور طالبات کی کثیر تعداد پروگرام میں موجود تھی۔

متعلقہ خبریں

Back to top button