سپریم کورٹ نے تبدیلی مذہب کے خلاف منظورہ قوانین پر فوری طور پر روک لگانے سے انکار کر دیا

سپریم کورٹ نے تبدیلی مذہب کے خلاف منظور کئے گئے قوانین پر فوری طور پر روک لگانے سے انکار کر دیا۔ منگل کے روز عدالت عظمیٰ میں دائر اُن درخواستوں کی فوری سماعت کی اپیل کی گئی تھی جن میں ان قوانین پر عبوری حکم دینے کی استدعا کی گئی تھی۔
واضح رہے کہ اترپردیش، گجرات، مدھیہ پردیش سمیت کئی ریاستوں نے مذہب کی تبدیلی روک تھام بل منظور کئے ہیں۔ ان قوانین کو کئی افراد نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ چیف جسٹس بی آر گووائی، جسٹس کے وینود چندرن اور جسٹس این وی انجاریا پر مشتمل بنچ نے کہا کہ ان درخواستوں کی سماعت دسمبر میں کی جائے گی۔
درخواست گزاروں کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل نے عدالت سے اپیل کی کہ ان پٹیشنز کو آئندہ ہفتہ ہی سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔ تاہم چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ممکن نہیں، مجھے فیصلے تحریر کرنے ہیں، میں 23 نومبر کو ریٹائر ہو رہا ہوں
سپریم کورٹ نے اس سال ستمبر میں ہی مختلف ریاستوں سے وضاحت طلب کی تھی کہ وہ مذہب تبدیلی مخالف قوانین کے بارے میں کیا موقف رکھتی ہیں۔
عدالت نے ان ریاستوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب داخل کرنے کے لئے چار ہفتے کا وقت دیا تھا اور کہا تھا کہ اُن کے جوابات موصول ہونے کے بعد ہی عدالت فیصلہ کرے گی کہ ان قوانین پر حکم التوا دیا جائے یا نہیں۔
یہ قوانین جن ریاستوں میں نافذ ہیں ان میں اترپردیش، مدھیہ پردیش، ہماچل پردیش، اتراکھنڈ، چھتیس گڑھ، گجرات، ہریانہ، جھارکھنڈ اور کرناٹک شامل ہیں۔ ان سبھی ریاستوں میں مذہب کی تبدیلی مخالف قوانین کے آئینی جواز کو چیلنج کرتے ہوئے مختلف درخواستیں سپریم کورٹ میں زیرِ غور ہیں۔



