نیشنل

اترپردیش کے تمام تعلیمی اداروں میں "وندے ماترم” لازمی — مسلم والدین اپنے بچوں کو اسکولوں سے نکال لیں

اترپردیش کے تمام تعلیمی اداروں میں "وندے ماترم” لازمی — مسلم علما کا شدید ردعمل، مذہبی آزادی کی خلاف ورزی قرار

 

 

لکھنؤ، 11 نومبر — اترپردیش کے چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ کے تازہ اعلان نے سیاسی اور مذہبی تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔ چیف منسٹر نے پیر کے روز گورکھپور میں "ایکتا یاترا” اور "وندے ماترم” پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کے تمام اسکولوں اور کالجوں میں قومی ترانہ "وندے ماترم” کا گانا لازمی ہوگا۔

 

انہوں نے کہا کہ ہر طالب علم کو ماں دھرتی کے احترام کے طور پر "وندے ماترم” گانا چاہیے۔ ان کے مطابق اس فیصلے کا مقصد نوجوانوں میں حب الوطنی اور قومی یکجہتی کے جذبے کو فروغ دینا ہے۔

 

تاہم، چیف منسٹر کے اس بیان نے مسلم رہنماؤں اور دینی اسکالروں میں سخت برہمی پیدا کر دی ہے۔ جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے صدر مولانا حلیم اللہ قاسمی نے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت نے ایسا حکم نافذ کیا تو مسلم والدین اپنے بچوں کو اسکولوں سے نکال لیں۔

 

انہوں نے کہا کہ ہندوستان کا آئین ہمیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی دیتا ہے۔ اسلام میں صرف اللہ کی عبادت کی اجازت ہے، کسی اور کی تعظیم یا پرستش عقیدے کے خلاف ہے۔

 

مولانا قاسمی نے الزام عائد کیا کہ حکومت کا یہ اقدام قومی اتحاد کے نام پر دراصل مسلمانوں کو دباؤ میں لانے اور اشتعال دلانے کی کوشش ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’ہمارے بچے ’وندے ماترم‘ نہیں گائیں گے۔ اگر حکومت نے زور دیا تو ہم انہیں اسکول سے نکال لیں گے۔ مسلمان ہمیشہ اس ملک کے وفادار رہے ہیں، لیکن اب ہمیں بلاوجہ نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

 

انہوں نے ماضی کے ایک تنازعہ کی یاد دلاتے ہوئے کہا کہ جب اترپردیش حکومت نے اسکولوں میں ’’سوریا نمسکار‘‘ لازمی کیا تھا تو مولانا علی میاں ندویؒ نے مسلمانوں سے اپیل کی تھی کہ وہ اپنے بچوں کو اسکولوں سے نکال لیں۔ میں آج پھر وہی اپیل دہرا رہا ہوں، ایمان کی حفاظت تعلیم سے زیادہ ضروری ہے،

 

"وندے ماترم” کے گانے پر تنازعہ کوئی نیا نہیں۔ کئی مسلمان اسے گانے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ اس کے بعض اشعار کو بت پرستی سے جوڑا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ قومی ترانہ نہیں بلکہ قومی گیت ہے، مگر اس پر اکثر مذہبی اور سیاسی تنازعات کھڑے ہوتے رہے ہیں۔

 

سپریم کورٹ پہلے ہی یہ واضح کر چکا ہے کہ کسی شہری کو ضمیر کے خلاف حب الوطنی کے گیت گانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے باوجود سیاسی جماعتیں وقتاً فوقتاً اس مسئلے کو قوم پرستی کے امتحان کے طور پر اٹھاتی رہی ہیں۔

 

فی الحال حکومت کی جانب سے کوئی باضابطہ نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا ہے، لیکن وزیراعلیٰ کے اس بیان نے ملک بھر میں مذہب، حب الوطنی اور آئینی آزادی کے درمیان ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button