انٹر نیشنل

القدس کے ممتاز عالم دین الشیخ عبدالعظیم سلهب کا انتقال

نئی دہلی ۔ مقبوضہ القدس گورنری نے اعلان کیا ہے کہ القدس کے ممتاز عالم دین الشیخ عبدالعظیم سلهب انتقال کرگئے ہیں۔ مرحوم القدس کی اوقاف و مقدسات اسلامی کونسل کے سربراہ اور شہر کے اہم علماء اور مسجد اقصیٰ کے وفادار محافظوں میں سے ایک تھے۔ وہ اپنی زندگی اللہ کی راہ میں وقف کر کے مقدس شہر کی اسلامی شناخت کی حفاظت اور فلسطینی قوم کی خدمت میں مصروف رہے۔

 

 

القدس اوقاف و مسجد اقصیٰ کے امور کی ڈائریکٹوریٹ نے اپنے ایک بیان میں مرحوم کے انتقال پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ شیخ سلهب "القدس کے وفادار رہنماؤں میں سے ایک تھے، جنہوں نے اپنی زندگی شہر اور اس کے مقدسات خاص طور پر مسجد اقصیٰ کی حفاظت میں گزاری”۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ وہ "قابض ریاست کی جانب سے مسجد اقصیٰ کو یہودی بنانے اور اس کی اسلامی شناخت مٹانے کی کوششوں کے سامنے مذہبی اور قومی استقامت کا ستون تھے”۔

 

 

بیان میں کہا گیا کہ مرحوم "عدالتی خدمات اور دینی تعلیم کے شعبے میں نمایاں اثرات چھوڑ گئے”، جن میں القدس کی شریعت کی اپیل عدالت کی صدارت شامل ہے۔ وہ ایسی اہم شخصیات میں شمار ہوتے تھے جنہوں نے قابض اسرائیل کے دباؤ اور مداخلت کے باوجود اسلامی اوقاف کی خودمختاری کو برقرار رکھا۔

 

 

شیخ عبدالعظیم حسین عبدالقادر سلهب سنہ 1946ء میں الخلیل میں پیدا ہوئے اور سنہ 1968ء میں عمان سے شریعت میں تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے فلسطینی شریعت کی عدالتوں میں ملازمت سے اپنا سفر شروع کیا اور اریحا، نابلس، الخلیل اور القدس میں اعلیٰ قضائی عہدے سنبھالے، آخرکار شریعت کی اپیل کی عدالت کے رکن اور پھر شہر کے اوقاف کے سربراہ بنے۔

 

 

شیخ سلهب اپنے معاشرتی و دینی خدمات اور تعلیم میں سرگرمی کے لیے جانے جاتے تھے، انہوں نے القدس میں کالج الدعوة وأصول الدین کی قیادت کی اور کئی علمی اداروں جیسے جامعہ القدس اور 1993ء میں قائم کردہ مدارس الإيمان کے بورڈ آف ٹرسٹیز میں حصہ لیا۔

 

 

اپنی زندگی کے دوران، شیخ سلهب نے مسجد اقصیٰ کی تعمیر و مرمت میں بھی اہم کردار ادا کیا، جن میں مسجد المروانی و قدیم اقصیٰ کی فرش سازی، گنبدوں، میناروں اور تاریخی سکولوں کی بحالی شامل ہے، نیز زائرین کے لیے سہولیات بھی قائم کیں۔شیخ عبدالعظیم سلهب نے ایک عظیم روحانی و قومی میراث چھوڑی، وہ القدس کی آواز اور مسجد اقصیٰ کے وفادار محافظ کی حیثیت سے عرب و اسلامی محافل میں نمایاں رہے اور قابض اسرائیل کی یہودیانے کی پالیسیوں کے سامنے استقامت کی علامت تھے۔

 

 

ان کے انتقال کے ساتھ القدس نے اپنے ایک نمایاں عالم اور وفادار محافظ کو کھو دیا، جنہوں نے اپنی زندگی کے آخری لمحے تک پہلی قبلہ کی حفاظت کا علم بلند رکھا

متعلقہ خبریں

Back to top button