نیشنل

مہاراشٹرا۔ بیڑ رکن اسمبلی ثنا ملک کا موبائل چوری،چور نے ایک گھنٹے میں شاطرانہ انداز سے فون پولیس کے حوالے کیا

بیڑ،۲۳ نومبر (ڈاکٹر محمد راغب دیشمکھ کی رپورٹ)بیڑ میں نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (اجیت پوار گروپ) کی رکنِ اسمبلی ثنا ملک کے موبائل فون کی چوری کا واقعہ انتخابی گہماگہمی کے دوران پیش آیا، جس نے نہ صرف سیاسی حلقوں بلکہ عام عوام میں بھی بحث چھیڑ دی ہے۔

 

 

ثناء ملک گزشتہ دو دنوں سے بیڑ میں میونسپل انتخابات کی تیاریوں اور انتخابی مہم میں مصروف تھیں۔ جمعے کے روز انہوں نے مختلف علاقوں کا دورہ کیا، جبکہ ہفتے کی شام گاندھی نگر میں اپنے مقامی انتخابی دفتر کا افتتاح کیا۔ اسی ہجوم اور شور شرابے کے بیچ ان کا موبائل فون اچانک غائب ہوگیا، جس کا احساس انہیں تقریب کے دوران ہی ہوا۔

 

 

فون کے لاپتہ ہونے کی خبر ملتے ہی ثناء ملک کے ذاتی معاون نے فوراً سائبر ڈپارٹمنٹ اور مقامی پولیس کو اطلاع دی۔ انتخابی ماحول میں موجود حساسیت اور بات ایک عوامی نمائندے کے فون کی ہونے کے سبب پولیس اور سائبر سیل دونوں تیزی سے حرکت میں آگئے۔ ابتدائی تفتیش اور لوکیشن ٹریس کرنے کی کوششوں کا سلسلہ جاری تھا کہ ایک گھنٹے بعد پولیس اسٹیشن میں ایک کم عمر لڑکا داخل ہوا، جس کے ہاتھ میں ایم ایل اے ثنا ملک کا وہی موبائل فون تھا۔

 

 

پولیس اہلکاروں کے مطابق یہ فون کسی نامعلوم شخص نے اسی لڑکے کے ہاتھ میں دے کر پولیس اسٹیشن پہنچانے کیلئے بھیجا تھا۔ اس اچانک واپسی نے واقعے کو مزید پراسرار بنا دیا ہے، کیونکہ ایسا تاثر مل رہا ہے کہ چور نے فوری گرفتاری یا ممکنہ کارروائی کے خوف سے فون واپس کرنے میں ہی عافیت سمجھی۔تاہم حیرت انگیز بات یہ ہے کہ فون کی بازیابی کے باوجود ثنا ء ملک یا ان کی ٹیم کی جانب سے کوئی باضابطہ شکایت درج نہیں کروائی گئی، جس کے باعث پولیس نے بھی کوئی مقدمہ درج نہیں کیا اور معاملے کی مزید تفتیش روک دی گئی۔

 

 

اس پہلو نے عوامی سطح پر کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ شہر کے سیاسی اور سماجی حلقوں میں یہ سوال زور پکڑ رہا ہے کہ جب ایک منتخب عوامی نمائندہ، جن کے ساتھ سیکورٹی کے متعدد اہلکار، گاڑیوں کا پورا قافلہ، اور انتظامی مشینری کی موجودگی ہوتی ہے، ان کا موبائل فون بھی اتنی آسانی سے چوری ہو سکتا ہے تو ایک عام شہری خود کو کس قدر محفوظ تصور کرے؟ واقعہ نہ صرف بیڑ شہر کی سکیورٹی کی کمزوریوں کو ظاہر کرتا ہے بلکہ یہ بھی دکھاتا ہے کہ انتخابی ماحول میں پولیس کی موجودگی کے باوجود ایسے واقعات رونما ہونا عوامی اعتماد کو متاثر کرتا ہے۔

 

 

اس واقعے نے شہریوں میں یہ بحث بھی چھیڑ دی ہے کہ شکایت درج نہ کرنے کی وجہ کیا تھی؟ کیا معاملے کو جلد نمٹانے کیلئے خاموشی اختیار کی گئی یا پھر واپسی کو ہی کافی سمجھا گیا؟ بہرحال یہ واقعہ انتخابی مہم کے دوران سیکورٹی انتظامات پر ایک بڑا سوالیہ نشان بن کر سامنے آیا ہے، جس نے پولیس کی ذمہ داریوں اور عوامی نمائندوں کی حفاظت کے حقیقی انتظامات پر نئی بحث کو جنم دیا ہے۔

 

 

متعلقہ خبریں

Back to top button