مضامین

خودپسندی، مال کی محبت اور حسد قوم یہود کے عادات شنیعہ

از :۔ پروفیسر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی

کامل الحدیث جامعہ نظامیہ ، M.A., M.Com., Ph.D (Osm)

طبعی دناء ت اور خست کے سبب یہود بے بہبود آسمانی مذہب اور حضرت ابراہیم ؑ کو ابو الانبیاء ماننے کے باوجود شناعتوں اور شرارتوں کا شکار رہی۔ اپنی انہی باطنی خباثتوں کے باعث قوم یہود نے حضرات دائود و سلیمانؑ کو انبیاء و رسل کی فہرست سے خارج کردیا، حضرت عزیر کو خدا کو بیٹا بنادیا، تورات میں سینکڑوں تحریفات کیں ، ظلم و تعدی، جور و ستم اور تمرد و سرکشی کے باعث پیغمبروں کو ناحق قتل کیا تاکہ رشد و ہدایت کا سلسلہ منقطع ہوجائے اور خودپسندی، مال کی محبت اور حسد جیسے مہلک امراض میں مبتلا ہوگئیجس کی پاداش میں اللہ تعالی نے اس قوم پر ذلت و مسکنت کی مہر لگادی اور یہ قوم غضب الٰہی کی مورد بنی۔

 

 

مسلمان ہر نماز میں سورۃ فاتحہ کی تلاوت لازماً کرتے ہیں جس کی آخر آیت میں ہر لمحہ لغزش و کجروی اورمنحرف و گمراہ ہونے کے خوف کے باعث اپنے آپ کو پروردگار عالم کے سایہ رحمت کے سپرد کرتے ہوئے اپنے پالنہار کے حضور یہ دعا کرتے ہیںکہ اے پروردگار عالم ہم نابکاروں کو غضب و ضلال سے محفوظ فرما اور ہمیں ان لوگوں کے راستے پر نہ چلا جو تیرے لطف و عنایت، فضل و کرم، آلا و نعم اور رحمت سے محروم ہونے کے باعث مغضوب و معتوب ہیں۔ مغضوب و ضالین سے کون سے فریق مراد ہیں؟ اس کے جواب علمائے اعلام نے فرمایا کہ رسول اعظمؐ نے مغضوب علیھم کی تفسیر یہود سے اور ضالین کی تفسیر نصاری سے فرمائی ہے۔ قوم یہود پر اللہ تعالی کا غضب اس لیے نازل ہوا چونکہ یہ قوم کتمان حق، غرور و تکبر، نفسانی خواہشات اور دنیا پرستی اتباع ہوا جیسے امراض کا شکار تھی۔ خود پسندی، مال کی محبت اور حسد جیسی بدترین خصلتیں اس قوم میں پائی جاتی تھیں جس کی وجہ سے ذلت و

 

 

مسکنت اور غضب و لعنت اس کا قوم کا مقدر بن گئی۔ گمراہ قوم سے پہلے اس قوم کا ذکر کیا گیا ہے جس پر اللہ تعالی کا غصب نازل ہوا ہے جس کی وجہ بیان کرتے ہوئے علمائے اعلام رقمطراز ہیں کہ ایسا اس لیے ہوا چونکہ یہود بہ نسبت نصاری کے اسلام سے زیادہ دور ہیں۔ قوم یہود میں بے شمار برائیاں تھیں جن میں خود پسندی، مال کی محبت اور حسد سرفہرست ہیں ۔ ان بدخصلتوں اور شنیع عادتوں کے علاج کے طور پر رب کائنات نے قوم یہود کو بالترتیب نماز قائم کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے اور جماعت میں شامل ہونے کا نسخہ عطا فرمایا۔ قرآن مجید میں یہود کے حالات و واقعات اور ان کی نافرمانی و سرکشی کے باعث اس قوم پر ہونے والے غضب کا ذکر پڑھنے کے بعد مسلمانوں پر لازم تھا کہ وہ ایسا راستہ اختیار کرتے جو قوم یہود کے راستہ سے بالکل مغایر و مباین ہوتا لیکن صدحیف جو مذموم صفات یہود کا شیوہ تھا آج مسلمانوں کی اکثریت انہی صفات رذیلہ کا

 

 

شکار نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج مسلمانوں کی اکثریت عیش و تنعم میں پڑکر دیدہ و دانستہ طور عدول حکمی کررہی ہے اور احکام الٰہی کو پس پشت ڈال رہی ہے جس کی وجہ سے نعائم الٰہی اطاعت کا ذریعہ بننے کے بجائے معصیت کا سبب بن رہے ہیں اور امت مسلمہ پوری دنیا میں ذلت و رسوائی کی زندگی گزاررہی ہے۔ خودپسندی سے پیدا ہونے والے باطنی خباثتوںاور امراض جیسے ذہنی مسائل، سماجی تنہائی، دینی اخلاقی نقصانات، معاشرہ کو معاصی و جرائم کی آماجگاہ بنانے والے اور رہائش کنندگان کو جہنم کے دہانے پر لاکھڑا کرنے والے منفی جذبات سے محفوظ رکھنے میں نماز کی ادائیگی انتہائی ممد و معاون ثابت ہوتی ہے۔ چونکہ خودپسندی کی ضد عاجزی و انکساری ہے اور جب بندہ مومن نماز کا اہم رکن یعنی سجدہ ادا کرتا ہے تو وہ کمال تواضع،

 

 

عاجزی و انکساری کا اظہارکرتا ہے اسی لیے تمام عبادات میں نماز ہی کو مومنین کی معراج کہا گیا ہے اور عجب پسندی کو دین سے ہاتھ دھوبیٹھنے کا ذریعہ بتایا گیا ہے لیکن صدحیف کہ مہلک نفسیاتی بیماری اور معاشرتی ناسور یعنی خودپسندی مسلمانوں کی اکثریت کے کردار میں اس قدر سرایت کرگئی ہے کہ ہر کوئی اپنے آپ کو اعلی اور دوسروں کو ادنی تصور کرنے لگا ہے۔ کسی کو اپنے علم و ہنر پر ناز ہے تو کسی کو اپنے مال و دولت پر نازاں ہے، کوئی اپنے عہدے و منصب پر اترارہا ہے تو کوئی اپنے اثر و رسوخ پر فخر کررہا ہے۔ اعلی عہدیدوں پر فائز لوگ عوام الناس سے ملنے کو بھی کسر شان سمجھنے لگے ہیں اور جو اعلی عہدیداروں کے ماتحتین سے ربط و تعلق رکھنے والے ہیں وہ بھی لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھنے لگے ہیں چونکہ انہیں یہ گمان ہے کہ وہ بھی اعلی، اہم اور عبقری فرد ہے۔ اس سے بڑی حماقت، نادانی اور نامعقولیت اور کیا ہوسکتی ہے؟

 

 

یہ ہمارے فکری زوال اور کردار کی گراوٹ کی منہ بولتی تصویر ہے ۔اس طرح کے لوگ برائی کو نیک عمل تصور کرنے لگتے ہیں اسی لیے ان جیسے افراد کو توبہ کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ اسی لیے آج مسلمان پوری دنیا میں ذلیل و خوار ہورہا ہے۔ دین اسلام میں خودپسندی جیسے ناسور گناہ کو کو سخت ناپسند کیا گیا ہے اور ایسے شخص کے لیے سخت وعید آئی ہے جیسا کہ حسب ذیل حدیث پاک سے مترشح ہورہا ہے۔ رسول اللہؐ فرماتے ہیں تکبر کرنے والوں کو قیامت کے روز جمع کیا جائے گا چیونٹیوں کے مانند لوگوں کی صورت میں ان پر ہر طرف سے ذلت چھائی ہوئی ہوگی ان کو قید کی طرف ہانکا جائے گا جو جہنم میں ہے اس کا نام بولس ہے سخت ترین آگ ان پر غالب ہوگی ان کو دوزخیوں کا پیپ پلایا جائے گا جس کا نام طینۃ الخبال ہے۔ قوم یہود کی دوسری بری عادت جو مسلمانوں کی اکثریت میں

 

 

پائی جاتی ہے وہ مال کی محبت ہے۔ مال کی محبت وہ خطرناک مرض ہے جس کی وجہ سے تعلقات میں بگاڑآنے لگتا ہے، انسانی معاشرہ تباہی و بربادی کی لپیٹ میں آجاتا ہے، انسان ذہنی دبائو، جذباتی الجھن کا شکار ہوجاتا ہے، غلط فیصلے لینے لگتا ہے، زندگی کے اہم پہلوئوں کو نظر کرنے لگتا ہے ، لوگوں کی تذلیل و توہین کرنے لگتا ہے، انسانی شرف ،توقیر ذات اورعزت نفس مجروح ہونے لگتی ہے اور ایمان میں رخنہ پڑنے لگتا ہے جیسا کہ حسب ذیل حدیث پاک سے یہ حقیقت واضح ہورہی ہے۔ حضرت کعب بن مالکؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا دو بھوکے بھڑیے بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ

 

 

دیئے جائیں تو وہ اتنا فساد اور خرابی نہ کریں جتنا آدمی کے دین کو مال و جاہ کی حرص خراب کردیتی ہے۔ دنیا میں آج جتنے بھی جرائم اور گناہوں کا ارتکاب ہورہا ہے اس کی اہم وجہ مال کی محبت ہے۔ انہی تمام نقصانات سے بچانے کے لیے دین اسلام نے انسان کو کثرت سے صدقات،خیرات کرنے کا حکم دیتا ہے تاکہ دل سے مال کی محبت نکل جائے۔ آج مسلمانوں کی اکثریت بھی مال کی محبت میں گرفتار ہوچکی ہے اور حلال و حرام ، جائز و ناجائز کی تمیز برقرار رکھے بغیر مال کے حصول میں مگن ہوگئی ہے جو درحقیقت دنیا و آخرت میں نقصان و خسارہ اٹھانے کا باعث ہے۔ مسلم معاشرے میں بہت سارے مسلمان ایسے بھی ہیں جو رشوت اور دیگر حرام ذرائع سے کمائی ہوئی دولت سے صدقات و

 

 

خیرات کرکے مطمئن ہوجاتے ہیں کہ انہوں نے نیکی کام کیا ہے ۔ ہماری اسی غلط روش کی نحوست سے ہمارے دلوں سے اللہ تعالی کی محبت نکل چکی ہے جس کی وجہ سے احکام شریعت مصطفی ؐ کی ادائیگی میں ہمیں سستی، کاہلی اور دشواری محسوس ہورہی ہے۔ قوم یہود کی تیسری عادت شنیع جو مسلم معاشرے میں پائی جاتی ہے وہ ہے حسد۔ حسد ایک ایسا مہلک مرض ہے جس سے ایمان خراب ہوجاتا ہے، دین کی جڑیں کمزور ہوجاتی ہیں، نیکیاں ضائع ہوجاتی ہیں، رشتوں میں خرابیاں آجاتی ہیں، نفسیاتی مسائل میں اضافہ ہوتا ہے ، آپس میں بغض و کینہ اور لوگوں کے درمیان فتنہ و فساد کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں جبکہ دین اسلام ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد و اتفاق ، موافقت و یگانگت اور بھائی چارگی کی تعلیم دیتا ہے۔ علماء فرماتے ہیں

 

 

کہ جس طرح کھٹمل انسان کے بدن کو زخمی کرکے اس کا خون چوستا ہے اسی طرح حسد بھی ایک حاسد سے یہی کام لیتا ہے۔ اسی لیے دین اسلام نے حسد سے بچنے کی مسلمانوں کو تاکید کرتا ہے ۔ آج مسلم معاشرے میں جو انتشار کی کیفیت ہے، ایک دوسرے سے جو نفرت کررہے ہیں اس کی اہم وجہ حسد ہے جس کو ترک کرنے سے بندہ مومن جنت کا مستحق بن جاتا ہے۔ روایت میں آتا ہے کہ حضور اکرمؐ نے ایک انصاری صحابی رسول کے متعلق ارشاد فرمایا کہ یہ جنتی ہیں ۔ حضرت عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ان کے خاص اعمال کے بارے میں دریافت کیا جس کی وجہ سے رحمت عالمؐ نے آپ کو اتنی بڑی خوشخبری دی ہے تو جواباً انہوں نے فرمایا کہ کسی کو اللہ نے کوئی خاص نعمت عطا فرما رکھی ہو تو میں اس پر اُس سے حسد نہیں کرتا۔ یہود کی مذکورہ بالا عادات شنیعہ کو اپنانے کا ہی نتیجہ ہے کہ آج مسلمانوں کی اکثریت ہر میدان میں خائب و خاسر نظر آرہی ہے اگر ہمیں زندگی کے ہر

 

 

محاذ پر مظفر و منصور ہونا ہے تو ہمیں قوم یہود کے راستہ پر نہ چلانے کی دعا کرنے کے ساتھ ساتھ یہود کی بداعمالیوں سے بھی حد درجہ اجتناب کرنا ہوگا۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں اسلامی تعلیمات کی روح کو سمجھنے اور اس پر صدق دل کے ساتھ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔

متعلقہ خبریں

Back to top button