بہار کا فیصلہ۔کانگریس کیلئے سخت پیغام۔مسلمانوں کی سیاسی بیداری، شعوری ووٹ اور نمائندگی کی نئی بنیاد

از: عبدالحلیم منصور

؎ ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے
کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے
بہار کے حالیہ انتخابی نتائج نے ہندوستانی سیاست کے جسم میں ایک تیز جھٹکا چھوڑا ہے۔ایسا جھٹکا جس نے نہ صرف سیاسی جماعتوں کی روایتی سوچ کو چیلنج کیا ہے بلکہ یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ مسلمان اب محض ایک عددی قوت نہیں، بلکہ ایک باشعور اور فیصلہ ساز سیاسی طاقت بن چکے ہیں۔ یہ نتائج کسی ایک ریاست کے انتخابی اعداد و شمار نہیں، بلکہ قومی سطح پر بدلتے سیاسی مزاج اور مستقبل کی سمت کا اعلان ہیں۔ یہ حقیقت پوری قوت سے سامنے آئی ہے کہ مسلمان اب کسی کے سیاسی تابع نہیں رہے، بلکہ ایک منظم اور خودمختار فیصلہ کن قوت کے طور پر ابھر رہے ہیں۔
ہندوستان کی حالیہ سیاسی فضا میں جو ہلچل محسوس کی جا رہی ہے وہ صرف انتخابی سرگرمی نہیں بلکہ ایک بڑے ذہنی اور سیاسی انقلاب کا آغاز ہے۔ بہار، مدھیہ پردیش، راجستھان اور تلنگانہ کے تجربات نے یہ حقیقت آشکار کر دی ہے کہ کانگریس اب وہ جماعت نہیں رہی جسے مسلمان اپنی فطری یا مجبوری کی پناہ گاہ سمجھتے تھے۔ ووٹ کا مزاج بدل چکا ہے، سوچ کی ترجیحات تبدیل ہو چکی ہیں، اور سیاسی فیصلوں کے پیمانے نئے ہو چکے ہیں۔ پہلی بار ملک کی سیاسی جماعتوں، خصوصاً کانگریس جیسے روایتی قومی پلیٹ فارم کو اس حقیقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ ’’محض سیکولر نعرہ‘‘ اور ’’خوف کی سیاست‘‘ اب مسلمانوں کیلئے قابلِ قبول نہیں رہی۔ شعوری ووٹ، سوالات، محاسبہ اور نمائندگی کا مطالبہ اب حقیقت بن چکا ہے۔
یہ تبدیلی کسی حادثے کا نتیجہ نہیں، بلکہ دہائیوں کی بےقدری، سیاسی نظراندازی اور نمائندگی کی کمی کے خلاف اجتماعی ردِعمل ہے۔ مسلمانوں نے ہمیشہ کانگریس کو اقتدار تک پہنچایا، لیکن عملی سطح پر وہ نہ فیصلہ سازی میں شامل کیے گئے، نہ پالیسی کے دل میں جگہ دی گئی، اور نہ کل ہند سطح پر انہیں معتبر قیادت فراہم کی گئی۔یہ لمحہ کانگریس کیلئے نہ صرف شدید لمحۂ فکریہ ہے بلکہ مقامِ عبرت بھی کہ ایک زمانہ تھا جب سترہ سے زائد ریاستوں میں کانگریس کی حکومت تھی، اور آج صورت یہ ہے کہ متعدد ریاستیں جیسے اڈیشہ، دہلی، آندھرا پردیش، ہریانہ، پنجاب اور آسام جہاں کبھی کانگریس کی مستحکم حکمرانی تھی، وہاں آج وہ نہایت کمزور ہوچکی ہے۔ یہ زوال کسی ایک انتخاب کا نتیجہ نہیں، بلکہ دہائیوں کی سیاسی بےحسی، اندرونی انتشار اور زمینی حقیقتوں سے لاتعلقی کا ثمر ہے۔
بہار کے مسلم علاقوں میں انتخابی سرگرمی اور سیاسی بیداری میں واضح اضافہ دیکھا گیا۔ متعدد مطالعات کے مطابق مسلم اکثریتی حلقوں میں ماضی کے مقابلے میں ووٹ ڈالنے کی شرح میں تقریباً 12 سے 13 فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیاجو اس بات کا اعلان ہے کہ اب ووٹ جذبات پر نہیں، حکمت اور منصوبہ بندی پر ڈالا جا رہا ہے۔اسی تناظر میں سیماچل کے حلقوں میں اے آئی ایم آئی ایم کی پیش قدمی اور کامیابی نے یہ ثابت کیا کہ مسلمان اب ایسے سیاسی متبادل کو ترجیح دیتے ہیں جو ان کی زبان، ان کے مسائل اور ان کے جغرافیائی حالات کی حقیقی نمائندگی کرے۔ یہ تبدیلی واضح اعلان ہے کہ مسلمان اب محض ’’سیکولر دعوؤں‘‘ کے سہارے ووٹ دینے کیلئے تیار نہیں—وہ ایسی قیادت چاہتے ہیں جو ان کیلئے بولے بھی، لڑے بھی اور فیصلہ سازی کی میز پر ان کی موجودگی بھی یقینی بنائے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ کانگریس نے دہائیوں تک مسلمانوں کو صرف انتخابی ضرورت سمجھا، مگر نہ عملی نمائندگی دی اور نہ پالیسی کے دل میں جگہ دی۔ آج بھی کانگریس کے پاس کوئی معتبر، مضبوط، سنجیدہ اور کل ہند سطح پر اعتماد رکھنے والا مسلم چہرہ موجود نہیں—نہ احمد پٹیل جیسا فکری قد، نہ غلام نبی آزاد جیسی سیاسی گرفت، نہ روشن بیگ جیسی زمینی شناخت، اور نہ نئی نسل میں قیادت پیدا کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش۔
آج مسلمان کھل کر کہہ رہے ہیں کہ ہم مجبور ووٹر نہیں با اختیار فیصلہ ساز ہیں ،ہمارے ووٹ کی قیمت ہے اور ہم اسے ضائع نہیں کریں گے ۔ہم نمائندگی نہیں—شراکت چاہتے ہیں ۔ اگر کانگریس نے مسلم قیادت کو مضبوط نہ کیا، انہیں فیصلہ سازی میں حقیقی حصہ نہ دیا اور نمائندگی کی بحالی کو عملی شکل نہ دی، تو آنے والے انتخابات اس کیلئے تباہ کن ثابت ہوسکتے ہیں۔ بہار کا پیغام یہی ہے کہ آج مسلمان کانگریس کے محتاج نہیں—بلکہ کانگریس مسلمانوں کی محتاج بنتی جا رہی ہے۔راہل گاندھی اور قیادت کو چاہیے کہ وہ یاترا اور ٹوئٹ کی سیاست سے نکل کر زمین کی سیاست کریں، پارٹی ڈھانچے کی اصلاح، شفافیت، میرٹ، مسلم نمائندگی اور زمینی نیٹ ورک کی بحالی پر سنجیدہ توجہ دیں ورنہ یہ کہانی ختم ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔آج مسلمان پوری وضاحت کے ساتھ اعلان کر رہے ہیں کہ ہم سیاسی غلامی نہیں سیاسی شراکت چاہتے ہیں ۔ اگر کانگریس نے آنکھیں نہ کھولیں، اپنا رویہ نہ بدلا، اور مستقبل کی سیاست میں مسلمانوں کو مساویانہ شریک نہ کیا، تو تاریخ اسے صرف ایک کھوئی ہوئی جماعت کے طور پر یاد کرے گی۔ کانگریس کیلئے سبق صرف ایک ہے یا بدلو یا بکھرو
؎ جو سمجھتے تھے کہ ان کے سوا کوئی نہیں
وقت کہتا ہے کہ ایسا بھی کبھی ہوتا نہیں



