اسپشل اسٹوری

مالیگاوں کا ایک عام سا مزدور جو اپنی چھوٹی سی سائیکل پر اردو کا چراغ روشن رکھے روز نکلتا ہے۔۔۔۔۔!!

شہر کے خاموش مجاہدِ اردو محمد عابد کی بے لوث خدمت کی داستان ۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

 

خصوصی رپورٹ: خیال اثر (مالیگاؤں)

مالیگاوں کے مصروف بازاروں اور گہماگہمی سے بھری گلیوں میں، جہاں ہر شخص اپنی ضرورتوں اور روزمرہ کی مشقت میں گم نظر آتا ہے، وہاں ایک ایسا خاموش کردار بھی موجود ہے جو بنا کسی اعلان، تقریر یا شہرت کے اردو زبان کی بقا کے لیے وہ کام کر رہا ہے جسے بڑے بڑے ادارے اور دعوے دار بھی انجام نہیں دے پاتے۔ یہ کردار ہے محمد علی روڈ پر واقع المدینہ لنگی سینٹر کے ملازم محمد عابد کا، جن کی سادگی اور بے نیازی ان کے عمل کے سامنے ماند پڑ جاتی ہے۔ مالیگاوں کی سڑکوں پر عام سی نظر آنے والی ان کی سائیکل، دراصل اردو زبان کی سانسیں اپنے ساتھ لیے پھرتی ہے۔ روزانہ دکان بند کرنے کے

 

بعد وہ خاموشی سے اپنے تالے بند کرتے ہیں، سائیکل کے پاس آتے ہیں اور اس راستے پر روانہ ہو جاتے ہیں جو اردو کے لیے نئی زندگی بن چکا ہے۔ یہ راستہ سیدھا وسیم کتابی کی سٹی بک ڈپو تک جاتا ہے، جہاں سے وہ روز بیس پچیس اردو اخبارات خریدتے ہیں۔ یہ خریداری نہ کاروبار ہے، نہ کوئی نمائش، نہ کسی تنظیم کا حصہ اور نہ سوشل میڈیا کی نمائش کا سامان؛ یہ ان کی برسوں سے جاری وہ عبادت ہےجو صرف دل رکھنے والے ہی سمجھتے ہیں۔ اخبارات کے گٹھے جب وہ سائیکل پر قرینے سے رکھتے ہیں تو منظر دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی کاتب اپنے قلم اور مسودے جمارہا ہو۔ یہ منظر کئی بار دیکھنے کے باوجود ہر بار چونکا دیتا ہے۔

 

گزشتہ رات نیاپورہ کے میٹرو ہوٹل کی بھاپ چھوڑتی چائے کے ساتھ بیٹھے ہوئے میں نے ان سے پوچھا: ’’عابد بھائی، روز اتنے سارے اخبار…؟ کیا وجہ ہے؟‘‘ وہ آہستہ سے مسکرائے، ایسی مسکراہٹ جو تھکن سے بوجھل ہونے کے باوجود کسی اندرونی سکون کا پتا دیتی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ نجمہ آباد کی نئی بستی میں رہتے ہیں، جہاں اردو اخبارات پہنچتے ہی نہیں۔ برسوں سے وہاں اردو کا چراغ بجھنے کے قریب ہے۔ لوگ پڑھنا چاہتے ہیں مگر رسائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کمی کو محسوس کرتے ہوئے انہوں نے برسوں پہلے یہ معمول بنا لیا کہ شہر کے تمام بڑے اردو اخبارات کی پانچ دس کاپیاں خرید کر گھر لے جائیں۔ روزنامہ ترجمان اردو ہو، روزنامہ اردو

 

ہو، شامنامہ ہو، ڈسپلن ہو یا جو بھی اخبار دستیاب ہو وہ لے لیتے ہیں، اس نیت سے کہ پڑھنے والا خالی ہاتھ واپس نہ جائے۔ان کے گھر جو بھی قاری، محبِ اردو یا مطالعے کا شوقین چلا آئے، وہ اسے بغیر کسی شرط، بغیر کسی اندراج اور بغیر کسی شہرت کی خواہش کے اخبار دے دیتے ہیں۔ بس اتنا کہتے ہیں کہ پڑھنے والے کم نہیں ہونے چاہئیں، اردو کے چاہنے والوں کے ہاتھ خالی نہیں جانے چاہئیں۔ ان کی سادگی، دیانت اور اخلاص سنتے ہوئے ذہن میں ایک تلخ حقیقت ابھر کر سامنے آتی ہے کہ اردو سے حق تلفی کوئی اور نہیں کرتا خود اردو والے کرتے ہیں۔ وہ ڈاکٹر، اساتذہ، پروفیسر، صحافی اور اہلِ دانش، جنہوں نے اردو کے دم پر عزت، روزی اور مقام حاصل کیا، وہی آج اخبار، رسائل اور کتابیں خریدنے میں سب سے پیچھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج اردو اخبارات بند ہو رہے ہیں، رسائل دم توڑ رہے ہیں، کتابیں خریداروں کو ترس رہی ہیں، اور مطالعے کی دنیا موبائل کی روشنی میں دھندلا رہی ہے

 

لیکن اسی منظرنامے میں مالیگاوں کا ایک عام سا مزدور اپنی چھوٹی سی سائیکل پر اردو کا چراغ روشن رکھے روز نکلتا ہے۔ اس کی محنت صرف سخاوت نہیں بلکہ زبان کی حفاظت کی وہ خاموش جدوجہد ہے جو نہ نعرے مانگتی ہے نہ داد۔ وہ ان قارئین کے لیے بیساکھی ہے جو اب بھی اخبار یا کتاب کے لمس کو کھونا نہیں چاہتے۔ محمد عابد نہ صحافی ہیں، نہ استاد، نہ ادب کی کسی بڑی انجمن سے وابستہ، مگر عملی طور پر وہ اردو کے حقیقی خادم ہیں۔ ان کا کردار ثابت کرتا ہے کہ زبانیں جلسوں اور سیمیناروں سے نہیں بلکہ قاری اور مطالعے سے زندہ رہتی ہیں۔محمد عابد اکرام الدین گزشتہ پندرہ برسوں سے نہایت ایمانداری کے ساتھ المدینہ لنگی سینٹر میں معمولی تنخواہ پر کام کر رہے ہیں۔ وقت کے ساتھ ان کی دیانت نے دکان کے مالک کا ایسا اعتماد حاصل کر لیا کہ آج پوری دکان انہی کے سپرد ہے۔ اس سے پہلے جب وہ سمکسیر میں رہتے تھے تو وہاں بھی ان کی یہی عادت تھی کہ اپنے خرچ پر

 

اخبارات و رسائل خرید کر لوگوں میں مفت تقسیم کریں۔ سمکسیر کی حسینی ہوٹل، جو ان کے بڑے بابا کی تھی، اس میں بھی وہ اخبارات رکھواتے کہ آنے والے لوگ پڑھ سکیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ اینڈرائیڈ موبائل تو کیا، عام کیپڈ موبائل بھی استعمال نہیں کرتے، لیکن مطالعہ ان کی زندگی کی پہلی ضرورت ہے۔ اسی شوق اور اسی جذبے کے تحت وہ گزشتہ پندرہ برس سے روزانہ دیڑھ سے دو سو روپے خرچ کر کے اخبارات خریدتے ہیں اور خاموشی سے تقسیم کرتے چلے آ رہے ہیں۔یہ تحریر تعریف نہیں، ایک آئینہ ہے ان سب کے لیے جو زبان کی محبت کو صرف دعووں میں جیتے ہیں مگر عمل میں نہیں۔ اگر محدود وسائل رکھنے والا ایک مزدور اپنی زبان کے تحفظ کے لیے اتنا کچھ کر سکتا ہے تو ہم اہلِ اردو کو ضرور سوچنا چاہیے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ شاید

 

محمد عابد جیسے ہی لوگ ہوتے ہیں جن کے سہارے زبانیں سانس لیتی رہتی ہیں، اور شاید تاریخ بھی ایسے ہی بے لوث کرداروں کو خاموشی سے اپنے صفحات میں جگہ دیتی ہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button