بلڈانہ میں فرضی ووٹنگ کا بڑا تنازعہ، ایم ایل اے کے بیٹے سمیت 6 افراد کے خلاف مقدمات درج

بلڈانہ،۴ ؍دسمبر (ڈاکٹر محمد راغب دیشمکھ کی رپورٹ)بلڈانہ نگر پریشد کے انتخابات کے دوران فرضی ووٹنگ کے سنگین الزامات نے پورے ضلع میں ہلچل مچا دی ہے۔ اس معاملے نے نہ صرف سیاسی ماحول کو گرما دیا بلکہ ریاستی سطح پر بھی انتخابات کی شفافیت پر سوال کھڑے کر دیے ہیں۔
پولس نے اس سلسلے میں مجموعی طور پر چھ افراد کے خلاف مقدمات درج کیے ہیں جن میں شیو سینا (شندے گروپ) کے رکن اسمبلی سنجے گائیکواڑ کے فرزند کنال گائیکواڑ اور بھتیجے شریکانت گائیکواڑ بھی شامل ہیں۔انتخابات کے دوران پہلا بڑا واقعہ وارڈ نمبر 6 کے ’ضلع بزنس ٹریننگ سینٹر‘ پولنگ اسٹیشن پر پیش آیا، جہاں مقامی لوگوں نے ایک مشتبہ فرضی ووٹر کو پکڑ کر پولس کے حوالے کیا تھا۔ اسی دوران کنال اور شریکانت گائیکواڑ وہاں پہنچے اور مبینہ طور پر اس شخص کو پولس کی حراست سے بچا کر بھاگنے میں مدد کی۔ اس واقعے
کا ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوگیا، جس کے بعد معاملہ مزید سنگین صورت اختیار کر گیا۔ ویڈیو سامنے آنے کے بعد سرکاری کام میں رکاوٹ ڈالنے اور فرضی ووٹر کو بھگانے میں مدد کرنے کے الزام میں دونوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔اسی روز ایک اور واقعہ وارڈ نمبر 15 کے ’گاندھی پرائمری اسکول‘ پولنگ اسٹیشن پر پیش آیا جہاں موتلہ تعلقہ کے کوٹھلی گاؤں سے آئے دو مشتبہ افراد کو فرضی ووٹر ہونے کے شبہے میں پکڑا گیا۔ الیکشن ڈیوٹی افسر شرد پاٹل کے مطابق ابتدائی تفتیش میں دونوں پر شبہ بڑھنے پر انہیں پولس کے حوالے کر دیا
گیا ہے۔ پولس دونوں واقعات کی الگ الگ تفتیش کر رہی ہے، اور یہ جانچنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آیا یہ واقعات کسی منظم فرضی ووٹنگ نیٹ ورک کا حصہ ہیں یا نہیں۔ویڈیو وائرل ہونے کے بعد سیاسی ماحول گرم ہوگیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ایک رکن اسمبلی کا خاندان ہی فرضی ووٹروں کو بچانے میں سرگرم ہو، تو یہ جمہوری عمل کے لیے نہایت خطرناک علامت ہے۔ کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے الزام لگایا ہے کہ یہ واقعہ انتخابات کو متاثر کرنے کی منظم سازش ہے اور اس میں ملوث تمام افراد کی فوری گرفتاری ہونی چاہیے۔ کچھ مقامی رہنماؤں نے تو یہاں تک مطالبہ کیا ہے کہ اگر ضرورت پڑے تو
متعلقہ وارڈ میں دوبارہ پولنگ کرائی جائے۔ادھر ایم ایل اے سنجے گائیکواڑ نے اپنے بیٹے کے دفاع میں کہا ہے کہ کنال گائیکواڑ نے صرف ’’ایک بے گناہ نوجوان کو مارپیٹ سے بچایا‘‘ اور اس کافرضی ووٹنگ سے کوئی تعلق نہیں۔ تاہم وائرل ویڈیو اور پولس کی کارروائی نے اس وضاحت کو مزید مشکوک بنا دیا ہے۔ پولس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ شواہد کی بنیاد پر مقدمہ درج کیا گیا ہے اور تحقیقات مکمل ہونے کے بعد مزید کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ان واقعات کے بعد انتخابی عمل کی شفافیت پر بحث ایک بار پھر شدت اختیار کر گئی ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات سے انتخابی نظام پر سے عوام کا
اعتماد کمزور ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے کہ فرضی ووٹنگ پر قابو پانے کے لیے انتخابی فہرستوں کی سخت جانچ اور پولنگ اسٹیشنوں پر نگرانی کے موثر انتظامات ناگزیر ہیں۔پولس ان دونوں معاملات کی تحقیقات میں مصروف ہے اور اعلیٰ سطح پر رپورٹ تیار کی جا رہی ہے۔ آنے والے چند دنوں میں اس کیس پر مزید کارروائی اور پیش رفت کے امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔



