مضامین

شیرِ میسور کی سرزمین پر بڑھتی ہوئی نفرت۔سری رنگا پٹن کی مسجد ِاَعلٰی، کرناٹک کی نئی سیاست، اور ریاستی حکومت کی آزمائش

از: عبدالحلیم منصور

Haleem

؎ لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں

تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں

 

کرناٹک میں فرقہ وارانہ فضا ایک بار پھر تشویشناک موڑ پر کھڑی ہے۔ سرزمینِ میسور—سلطنتِ خداداد کے سری رنگا پٹن—میں حضرت ٹیپو سلطان شہیدؒ کے عہد کی تاریخی مسجدِ اعلٰی، جسے ریاست کی تہذیبی اور ثقافتی شناخت میں نمایاں مقام حاصل ہے، ہنومان جینتی کے دوران اچانک شرپسند عناصر کے نشانے پر آگئی۔ چند نوجوان، جن کے ہاتھوں میں مالائیں اور زبان پر اشتعال انگیز نعرے تھے، مسجد کی سمت بڑھتے ہوئے اسے منہدم کرکے مندر تعمیر کرنے کی للکار لگاتے دکھائی دیے۔ یہ منظر محض ایک لمحاتی اشتعال نہیں تھا؛ بلکہ پچھلے دو برسوں سے منڈیا اور اس کے آس پاس منظم طریقے سے ابھرتی ہوئی مہم کا نیا باب تھا۔

 

تاریخی طور پر مسجدِ اعلٰی صرف ٹیپو سلطان کی حکمرانی کی علامت نہیں بلکہ کرناٹک کی مشترکہ ثقافت، مذہبی ہم آہنگی اور تعمیراتی ورثے کی روشن مثال ہے۔ ایسے مقدس مقام کو مذہبی تصادم کا مرکز بنانے کی کوشش دراصل تاریخ کو سیاسی ایجنڈوں پر قربان کرنے کے مترادف ہے۔ سری رنگا پٹن وہی سرزمین ہے جہاں ٹیپو سلطان نے استعمار کے خلاف جدوجہد کی بنیاد رکھی، جہاں جنگوں نے ہندوستانی مزاحمت کا ایک طویل باب رقم کیا۔ آج اسی خطے میں نفرت بھڑکانے کی کوششیں، حکومتی اداروں کی خاموشی اور سیاسی طاقتوں کی پس پردہ مداخلت ریاستی امن کے لیے سنگین سوالات کھڑے کرتی ہیں۔

 

منڈیا میں گزشتہ چند برسوں کے دوران فرقہ وارانہ بےچینی میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ گنیش اُتسو، ہنومان جینتی اور مختلف مذہبی جلوسوں کے نام پر شرپسندی، مساجد کے سامنے اشتعال انگیزی، اور نعرہ بازی معمول بنتے جا رہے ہیں۔ مقامی حلقوں کا کہنا ہے کہ بی جے پی–جے ڈی ایس اتحاد کے بعد ضلع میں ایسے واقعات کے رجحان میں تیزی آئی ہے، اور ہندوتوا تنظیمیں کھل کر ان سرگرمیوں کو ہوا دے رہی ہیں۔ یہ وہی ماڈل ہے جو ساحلی اضلاع—منگلورو اور اُڈپی—میں برسوں پہلے آزمایا گیا تھا، جہاں مسلسل فرقہ وارانہ کشیدگی نے سماجی ہم آہنگی کو توڑا، کاروبار کو متاثر کیا، اور تعلیمی ماحول میں زہر گھول دیا۔

 

اُڈپی اور جنوبی کینرا میں ہجومی تشدد، معاشی بائیکاٹ مہمات، حجاب تنازعہ، مدارس کے خلاف پروپیگنڈہ اور مساجد پر اعتراضات نے خطے کو ایک مخصوص سیاسی ڈھانچے میں ڈھال دیا تھا۔ منڈیا میں اب یہی تجربہ دہرایا جا رہا ہے۔ گزشتہ برس گنیش جلوس کے دوران مسجد پر پتھراؤ اور اب مسجدِ اعلٰی کے سامنے براہِ راست دھمکی — ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ پولیس کے طرزِ عمل پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں، کیونکہ کئی مقامی شہریوں کا کہنا ہے کہ جلوس کے دوران شرپسندوں کو روکا نہیں گیا بلکہ گویا انہیں ’’تحفظی حصار‘‘ فراہم کیا گیا۔

 

اسی تناظر میں ہاویری کا تازہ حجاب تنازعہ سامنے آتا ہے، جہاں چند طلبہ کے درمیان معمولی اختلاف کو غیرضروری طور پر فرقہ وارانہ رنگ دے دیا گیا۔ حالات اس قدر بگڑ گئے کہ علاقے کے مسلمانوں نے خوف کے باعث گھروں سے نکلنا کم کر دیا، اور کئی مقامات پر جمعہ کی نماز بھی متاثر ہوئی۔ گزشتہ تین برسوں سے حجاب کا معاملہ سیاسی ایندھن کے طور پر بار بار استعمال ہوا ہے، جبکہ عدالت نے واضح فیصلہ دیا تھا کہ مذہبی شناخت کی بنیاد پر طلبہ کو نشانہ بنانا مناسب نہیں۔ لیکن زمینی حقیقت یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ مسئلہ وقتاً فوقتاً سیاسی مفاد کے تحت دوبارہ بھڑکایا جاتا ہے۔

 

اسی دوران ریاستی کابینہ نے ایک نئے مسودۂ قانون کی منظوری دی ہے، جس کا مقصد نفرت انگیز تقاریر اور اشتعال انگیز سرگرمیوں کے خلاف فوری کارروائی کو قانونی بنیاد فراہم کرنا ہے۔ یہ قدم بظاہر قابلِ تحسین ہے، تاہم اس کی اصل کامیابی اس وقت ممکن ہوگی جب پولیس اور ضلعی انتظامیہ اسے پوری غیرجانبداری سے نافذ کریں۔ منڈیا، سری رنگا پٹن اور ہاویری جیسے حساس علاقوں میں مؤثر عمل درآمد کی فوری ضرورت ہے۔

 

ریاستی سیاست کا سنجیدہ تجزیہ بتاتا ہے کہ کانگریس حکومت صرف بیانات اور پریس کانفرنسز کے سہارے فرقہ وارانہ ابال کو نہیں روک سکتی۔ ساحلی اضلاع کی طرح منڈیا میں بھی ایک مؤثر اینٹی کمیونل ٹاسک فورس ناگزیر ہوچکی ہے۔ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو منڈیا بھی ان اضلاع کی فہرست میں شامل ہوسکتا ہے جہاں فرقہ وارانہ سیاست نے سماج اور معیشت کا پورا منظرنامہ بدل کر رکھ دیا۔

 

سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کرناٹک کس سمت بڑھ رہا ہے؟ شیرِ میسور کی وہ سرزمین جو کبھی شجاعت، رواداری اور اخوت کی علامت تھی، کیا اب نفرت اور سیاسی زہر کا مرکز بنتی جا رہی ہے؟ مسجدِ اعلٰی کے نام پر شرپسندی اور حجاب کے نام پر نفرت انگیزی ایک ایسے دور کی یاد دلاتی ہے جب مذہب کو سیاسی ہتھیار بنا کر سماج کے تانے بانے کو پارہ پارہ کیا گیا تھا۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ یہی سرزمین بارہا نفرت کا مقابلہ کرتی رہی ہے، اور ہر آزمائش کے بعد اپنے تنوع، ورثے اور بھائی چارے کی حفاظت کے لیے مضبوطی سے کھڑی رہی ہے۔

 

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت، میڈیا، سماجی تنظیمیں اور ذمہ دار شہری سب مل کر اس نفرت انگیزی کے خلاف ایک مضبوط اجتماعی دیوار بنیں۔ ورنہ مسجدِ اعلٰی — جو ڈھائی صدیوں سے امن، یکجہتی اور مزاحمت کی علامت ہے — صرف ایک عمارت نہیں، بلکہ ہمارے اجتماعی ضمیر کی آزمائش بن کر رہ جائے گی۔

haleemmansoor@gmail.com

مضمون نگار

معروف صحافی و تجزیہ نگار ہیں

متعلقہ خبریں

Back to top button