جنرل نیوز

ظلمتِ جاہلیت سے نورِ نبوت تک — سیرتِ نبوی ﷺ انسانیت کے لیے کامل رہنمائی مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب

ظلمتِ جاہلیت سے نورِ نبوت تک — سیرتِ نبوی ﷺ انسانیت کے لیے کامل رہنمائی

مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب

 

حیدرآباد،16ڈسمبر (پریس ریلیز):

خطیب و امام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز، نامپلی حیدرآباد، مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے اپنے فکرانگیز خطاب میں سیرتِ رسولِ اکرم ﷺ کے ابتدائی دور پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ بعثتِ نبوی ﷺ سے قبل جزیرۂ عرب خصوصاً خطۂ حجاز مکمل طور پر جہالت، گمراہی اور اخلاقی زوال کی انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ نہ صرف عرب معاشرہ بلکہ پوری دنیا ضلالت کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی، جہاں کفر و شرک، ظلم و جور، فحاشی، قمار بازی، شراب نوشی اور قتل و غارت گری عام تھی۔

 

انہوں نے کہا کہ عرب معاشرے میں انسانی اقدار پامال ہوچکی تھیں، یہاں تک کہ بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے جیسی سفاک رسمیں رائج تھیں۔ خانۂ کعبہ، جو توحید کا مرکز تھا، سینکڑوں بتوں کا مسکن بن چکا تھا، حالانکہ اس مقدس گھر کی تولیت قریش کے معزز خاندان بنو ہاشم کے سردار حضرت عبدالمطلب کے پاس تھی۔

 

مولانا نے فرمایا کہ قدرت کا اٹل اصول ہے کہ جب دنیا ظلمت و گمراہی میں غرق ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کسی عظیم مصلح کو مبعوث فرماتا ہے، چنانچہ ایسے ہی پرآشوب دور میں مکہ مکرمہ کی سرزمین پر بنو ہاشم کے گھر میں نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ولادت ہوئی، جن کے نورِ نبوت نے نہ صرف جزیرۂ عرب بلکہ پوری دنیا کو منور کر دیا۔

 

انہوں نے کہا کہ اعلانِ نبوت سے قبل آپ ﷺ مکہ کے معاشرے میں صادق و امین کے لقب سے پہچانے جاتے تھے، لیکن جب آپ ﷺ نے جاہلی نظام کو للکارا اور توحید کی دعوت پیش کی تو یہی قوم مخالفت پر آمادہ ہوگئی۔ قریش کی یہ مخالفت کسی اخلاقی یا فکری کمزوری کی بنا پر نہ تھی بلکہ محض ان کی مفاد پرستی اور اقتدار کے زوال کے خوف کا نتیجہ تھی۔

 

مولانا مفتی صابر پاشاہ قادری نے مزید کہا کہ ابتدائی دورِ نبوت میں حضرت خدیجہؓ سب سے پہلی ایمان لانے والی خاتون بنیں اور آہستہ آہستہ یہ دعوت حق کمزور، مظلوم اور سادہ دل انسانوں کے دلوں میں گھر کرتی چلی گئی۔ اعلانِ عام کے بعد رسول اکرم ﷺ کو شدید اذیتوں، تمسخر، ظلم و تشدد اور سماجی بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑا، مگر آپ ﷺ صبر، استقامت اور اخلاقِ حسنہ کے پیکر بنے رہے۔

 

انہوں نے واقعۂ ہجرت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت دراصل ایک نئی اسلامی ریاست اور صالح معاشرے کی بنیاد تھی، جہاں مہاجرین و انصار کی لازوال محبت نے ایک مثالی انسانی معاشرہ تشکیل دیا۔ مختصر مدت میں اسلام کا پیغام عرب سے نکل کر دنیا کے دیگر خطوں تک پہنچ گیا۔

 

آخر میں مولانا نے کہا کہ آج مسلمانوں کا وجود، ان کا تشخص، اور قرآن و سنت پر مبنی لائحۂ عمل نبی کریم ﷺ کی انہی بے مثال قربانیوں اور قیادت کا ثمر ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم سیرتِ نبوی ﷺ کو اپنی عملی زندگی میں نافذ کریں اور اسی داعی اعظم ﷺ کے مشن کو آگے بڑھانے کا عہد کریں۔

متعلقہ خبریں

Back to top button