مولانا عامر عثمانیؒ کے مشہور جریدے ’’ ماہنامہ تجلی ‘‘ کا احیاء نو

اورنگ آباد 16 دسمبر (ای میل )بیسویں صدی کے سب سے زیادہ شائع ہونے والے اسلامی رسالے ’’ ماہنامہ تجلی ‘‘کی دوبارہ اشاعت اہل علم کے لیے یقیناً مسرت کی بات ہے ۔ اورنگ آباد میں چل رہے کتاب میلے میں دیوبند سے تشریف لائے ہوئے مولانا عامر عثمانی کے بھتیجے عبداللہ راہی اور دیگر دانشورانِ عظام کی موجودگی میں’’ ماہنامہ تجلی جدید ‘‘ کا اجراء کیا گیا ۔
رسالے کے ایڈیٹر عبدالرحمن سیف عثمانی نے بتایا کہ ’’ ماہنامہ تجلی جدید ‘‘ میں مولانا عامر عثمانی کی وہی تحریریں شائع کی جارہی ہیں جو اُس زمانے میں لوگوں کو اپنے حصار میں لیے ہوئے تھیں۔ وہی آغاز سخن ، وہی تجلی کی ڈاک ، وہی تفہیم الحدیث ، وہی مسجد سے میخانے تک، وہی کھرے کھوٹے اور شمس نوید عثمانی ؒ کا وہی کیا ہم مسلمان ہیں؟۔ ایڈیٹر صاحب نے بتایا اورنگ آباد کتاب میلے میں تجلی لانے کا مقصد یہاں کے لوگوں کو پھر سے وہ علمی رسالہ فراہم کرنا ہے جو اورنگ آباد کے پرانے لوگ پڑھا کرتے تھے ۔
اجراء میں موجود ممبئی سے آئے ہوئے مولانا عبدالسلام قاسمی نے کہا :تجلی فقط ایک اسلامی جریدہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک تحریک ہے جو احیاء اسلام اور اشاعتِ دین کا چراغ روشن کیے ہوئے ہے۔ مولانا عامر عثمانیؒ نے تجلی کے ذریعہ اپنی تحریروں سے شرک و بدعت اور واہی عقائد کے اندھیروں کو مٹاکر علم دین کے چراغ روشن کیے ہیں ۔سرینگر کشمیر سے تشریف لائے ہوئے محمد افضل لون نے کہا ہمارا بچپن ماہنامہ تجلی کو دیکھتے ہوئے گزرا ہے ، ہمارے گھر میں ہر مہینے پابندی کے ساتھ ماہنامہ تجلی آیا کرتا تھا ۔
اب تجلی جدید کے نام سے اِس کا دوبارہ شروع ہونا بے حد خوشی کی بات ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ موجودہ نسل بھی اپنے بڑوں کی طرح مولانا عامر عثمانی کی تحریروں سے مستفیض ہوگی۔روزنامہ اورنگ آباد ٹائمز کے سب ایڈیٹر شیخ امتیاز نے کہا’’ ماہنامہ تجلی جدید ‘‘کی اشاعتِ ثانیہ ایک خوش آئند قدم ہے ۔عبدالرحمن سیف نے تجلی کو دوبارہ شروع کرکے بہت بڑا کام کیا ہے ۔ ٹائز آف انڈیا کے صحافی سید رضوان اللہ نے کہا مولانا عامرؒ کا ماہنامہ تجلی وہ رسالہ تھا جس نے لوگوں کے قلوب و اذہان کو روشن کر دیا تھا۔مولانا عامر عثمانیؒ ایک بے باک صحافی تھی وہ ہمیشہ سچ لکھتے تھے بات چاہے
کسی بڑی سے بڑی شخصیت کے خلاف کیوں نہ ہو لیکن مولانا عامر عثمانیؒ پوری بے باکی کے ساتھ حق گوئی کے فرائض انجام دیتے تھے۔اور حق گوئی ہی صحافت کا امتیاز ہے۔اجراء میں شریک ہونے والے دہلی سے آئے سید ابوالاعلیٰ سبحانی نے کہا ہم نے اپنے بڑوں سے مولاناعامر عثمانیؒ اور اُن کے رسالے تجلی کے بارے میں بہت سنا ہے لیکن کبھی تجلی رسالہ دیکھا نہیں تھا اب عبدالرحمن سیف عثمانی نے ’’تجلی جدید‘‘ کے نام سے اُسی پرانے تجلی کو نئے انداز میں شائع کرنے کے لیے جو ماہنامہ کا سلسلہ شروع کیا ہے وہ قابل قدر بھی ہے اور قابل فخر بھی۔
اورنگ آباد کے مرزا عبدالقیوم بھی اِس موقع پر موجود رہے اور اُنھوںنے مولانا عامر عثمانیؒ کا شعر پڑھتے ہوئے کہا کہ مولانا عامر عثمانیؒ نے اپنی ہمت ، جرات اور حوصلے سے قلم کے سہارے زمانے کے بڑے سے بڑے منصب دار اور طاقتور شخص کی علمی غلطیوں اور خیانتوں پر بے لاگ تنقید و تبصرے کے فرائض انجام دے کر صحیح و غلط کے فرق کو اس طرح واضح کیا ہے کہ دنیا والوں کی آنکھیں کھلی رہ گئیں۔مؤ سے تشریف لانے والے عزیزالرّحمن فہیم نے پروگرام میں کہا ماہنامہ تجلی کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ آج مولانا عامر عثمانی کے انتقال کے پچاس سال بعد بھی تجلی لوگوں کے دلوں میں ایسے زندہ ہے جیسے یہ رسالہ کبھی بند ہی نہ ہو ۔
جبکہ پچاس سال بعد تجلی کی دوبارہ اشاعت ہو رہی ہے جو ہر مطالعے کا ذوق رکھنے والے کے لیے عید کے چاند کی خبر سے کم نہیں۔ پروگرام کی صدارت مولانا عبدالسلام قاسمی صاحب نے کی اور نظامت کے فرائض عبدالقیوم صاحب نے انجام دیے ۔ ’’ماہنامہ تجلی جدید‘‘کے اجراء کے موقع پر اورنگ آباد کی معزز شخصیات کے علاوہ ابوذر ، سید وقار ، محمد خالد ، اشرف عباس
ذاکر حسین ، سلیم اختر ، جمال احمد ، اسلم جاوید دہلی سے محمد شہزاد، مصطفی اقبال ، شکیل انجم دہلوی ، اصغر حسین ، ممبئی سے آئے آصف احمد ، ریاض احمد ، محمد زبیر وغیرہ موجود رہے۔



