مضامین

جب طاقت عورت کی عصمت سے ٹکرا جائے: خاموشی کوئی راستہ نہیں

ماریہ سوری، حیدرآباد

کچھ مناظر ایسے ہوتے ہیں جن کی غلطی سمجھنے کے لیے نہ کسی طویل تجزیے کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی کسی سیاسی وابستگی کی۔ وہ سیدھے انسان کے ضمیر پر ضرب لگاتے ہیں۔ بہار کے وزیر اعلیٰ کو ایک عوامی جلسے کے دوران ایک مسلم خاتون ڈاکٹر کا نقاب بے تکلفی سے ہٹاتے ہوئے دیکھنا ایسا ہی ایک لمحہ تھا۔ یہ نہ کوئی اتفاق تھا، نہ غلط فہمی، بلکہ طاقت کے ذریعے ایک ایسی حد کو عبور کرنے کا واقعہ تھا جسے کسی صورت عبور نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ یہ ایک خاتون کی عزت و وقار کے ساتھ ایسا برتاؤ تھا جیسے وہ گفت و شنید یا نمائش کی چیز ہو۔ اس عمل میں دستورِ ہند کی روح کی کھلی بے حرمتی بھی شامل تھی۔

 

یہ وہ لمحہ تھا جو ایک مسلم خاتون ڈاکٹر کے لیے اعزاز اور اعتراف کا باعث بن سکتا تھا، مگر اس کے بجائے وہ ذلت اور اذیت میں بدل گیا۔ ان کے جسم، ان کے عقیدے اور ان کی ذاتی حدود کو عوامی ملکیت سمجھ کر نظرانداز کر دیا گیا۔ ریاست کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ایک شخص نے خود کو اس بات کا مجاز سمجھا کہ وہ کسی خاتون کی اجازت کے بغیر اس کے لباس کو چھوئے، اس میں مداخلت کرے اور اس کا پردہ ہٹا دے۔ بظاہر یہ ایک لمحاتی عمل تھا، مگر اس کے اثرات نہایت گہرے اور دیرپا ہیں۔

 

یہ محض ایک کپڑے کا معاملہ نہیں، بلکہ اختیار اور کنٹرول کا مسئلہ ہے۔ یہ اس خطرناک ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے جس کے مطابق اقتدار حاصل ہو جانے کے بعد دوسروں کی جسمانی خودمختاری میں مداخلت کو جائز سمجھ لیا جاتا ہے۔ جب کوئی منتخب نمائندہ کسی خاتون کے مذہبی لباس کو اس کی مرضی کے بغیر چھوتا ہے تو وہ ایک نہایت تشویشناک پیغام دیتا ہے—کہ طاقتور افراد کے لیے کسی کی عزت کی کوئی وقعت نہیں، کہ اقلیتوں کی شناخت کو زبردستی نمایاں کیا جا سکتا ہے، اور انہیں مسلسل اپنے وجود کا جواز پیش کرنا ہوگا۔

 

ایک باحجاب مسلم خاتون ہونے کے ناطے یہ واقعہ صرف پریشان کن نہیں بلکہ ذاتی سطح پر لرزا دینے والا تھا۔ حجاب کسی کے لیے معمولی چیز ہو سکتی ہے، مگر کسی کے عقیدے، خودمختاری اور شناخت کی علامت ہے۔ ایک عوامی عہدیدار کو کسی خاتون کا نقاب زبردستی ہٹاتے دیکھنا گویا انتخاب کے حق کو چھین لینے کے مترادف تھا۔ یہ لمحہ ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ ہماری آزادی کتنی نازک ہے، اور کس قدر آسانی سے اس کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے. خاص طور پر تب، جب وہی لوگ اپنی حدود بھول جائیں جو ان آزادیوں کے محافظ سمجھے جاتے ہیں۔

 

قانونی زاویے سے دیکھا جائے تو اس واقعے پر چھائی خاموشی مزید تشویش کا باعث ہے۔ دستورِ ہند کا آرٹیکل 21 باوقار زندگی کے حق کی ضمانت دیتا ہے، جبکہ آرٹیکل 25 ضمیر اور مذہبی آزادی کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ یہ محض آئینی دعوے نہیں بلکہ وہ اصول ہیں جو ایسے ہی واقعات کی روک تھام کے لیے وضع کیے گئے ہیں۔ جب ایک وزیر اعلیٰ ان اصولوں کو عوامی سطح پر پامال کرتا ہے تو یہ خطرناک تصور جنم لیتا ہے کہ آئینی حقوق اختیاری ہیں، اور اقتدار کے تابع ہو سکتے ہیں۔

 

اس پورے واقعے میں سب سے زیادہ تشویشناک پہلو خود عمل نہیں بلکہ اس پر ردعمل کا فقدان ہے۔ اسے معمولی واقعہ قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، اور خواتین سے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ اپنی توہین کو “زیادہ سنجیدہ” نہ لیں۔ ناانصافی اسی طرح پنپتی ہے. خاموشی، نظراندازی اور معمول بنا دینے کے ذریعے۔ جب اسٹیج پر، کیمروں کے سامنے ایسا ہو سکتا ہے، تو یہ سوال ناگزیر ہو جاتا ہے کہ عام شہری اُس وقت کتنے محفوظ ہیں جب کوئی دیکھنے والا موجود نہ ہو؟

 

یہ ایک صنفی حملہ تھا۔ ایک بااختیار مرد کا کسی خاتون کے لباس میں اس کی اجازت کے بغیر مداخلت کرنا محض غیر شائستگی نہیں بلکہ علامتی تشدد ہے۔ یہ اس سوچ کو تقویت دیتا ہے کہ خاتون کا جسم سماجی کنٹرول کے دائرے میں آتا ہے، خصوصاً جب وہ اقلیتی طبقے سے تعلق رکھتی ہو۔ یہ رویہ صنفی انصاف اور سیکولر طرزِ حکمرانی کے تمام دعوؤں کی نفی کرتا ہے۔

 

یہ بھی تسلیم کیا جانا چاہیے کہ جس خاتون کا نقاب ہٹایا گیا، اس نے اس لمحے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ اس خاموشی کو ہرگز ان کے خلاف دلیل نہیں بنایا جانا چاہیے۔ خوف، صدمہ اور طاقت کے عدم توازن کا بوجھ کسی کو بھی لمحاتی طور پر خاموش کر سکتا ہے۔ تاہم، یہی خاموشی ایک بڑے اور فوری مکالمے کی متقاضی ہے۔ خواتین، خاص طور پر عوامی زندگی میں، مستقل خاموشی کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔ ہر وہ زیادتی جو چیلنج نہ ہو، آنے والی زیادتیوں کی راہ ہموار کرتی ہے۔

 

وزیر اعلیٰ کی معذرت محض اخلاقی تقاضہ نہیں بلکہ آئینی ذمہ داری ہے۔ تاہم، محض الفاظ کافی نہیں جب تک ان کے ساتھ احتساب اور سنجیدہ محاسبہ شامل نہ ہو۔ عوامی عہدیداروں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اقتدار ذاتی اختیار کا نام نہیں، اور حکمرانی کسی انسان کو دوسرے انسان کی عزت پر دست درازی کا حق نہیں دیتی۔

 

قانون کی طالبہ ہونے کی حیثیت سے شخصی طور پر میرا ایسا ماننا ہے کہ یہ لمحہ محض غصے کا نہیں بلکہ ایک بنیادی سچ کی توثیق کا ہے: کوئی عہدہ، کوئی طاقت، کوئی منصب کسی کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ کسی خاتون کی عزت، شناخت اور مرضی کو پامال کرے۔ اگر ہم نے آج یہ بات واضح طور پر نہ کہی، تو ہم آنے والی نسلوں کو یہ سکھائیں گے کہ زندہ رہنے کے لیے خاموشی ضروری ہے اور یہ سبق کسی بھی جمہوریت کے لیے تباہ کن ہے۔

_(تحریر انگریزی مضمون کا اردو ترجمہ ہے اور مصنف قانون کی طالبہ ہیں)_

متعلقہ خبریں

Back to top button