مضامین

اس جرم کی سزا کیا؟ کیا نتیش کمار کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاۓ گا؟

تحریر:سید سرفراز احمد

 

بھارت دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے۔جہاں کثیر المذاہب کے ماننے والے لوگ رہتے ہیں۔جس کو ایک گلدستہ میں مختلیف انواع کے پھولوں سے تشبیہ دی جاتی رہی۔ یہ تشبیہ اس لیئے دی جاتی ہے کہ ہمارے پرکھوں نے اس ملک کے دستور کو ایک ایسے سلیقے سے ترتیب دیا جس میں ہر مذہب کو اپنے اپنے مذہبی عقائد اور ثقافتی طرز پر عمل کرنے کی مکمل آزادی دی گئی۔لیکن ایک مخصوص گروہ یعنی مسلم سماج کے طبقہ کے ساتھ اس مذہبی آزادی کو سلب کرنے کے لیئے جو توانائی سو سال پہلے صرف کی گئی تھی۔اس کو عملی طور پر پچھلے گیارہ سالوں سے ملک میں نافذ العمل کرنے کی پوری پوری کوشش جاری ہے۔اس کوشش میں نہ صرف ہندوتوا ایجنڈے سے منسلک گروہ شامل ہے بلکہ ایسے ایسے سیاسی قائدین بھی اس نظریہ کے حامی نکل کر آرہے ہیں جو اپنے آپ کو سیکولر ریس کا گھوڑا ثابت کرتے ہوۓ برسوں ریاستوں میں حکمرانی کرتے رہے۔لیکن آج وہ بھی اس ہندو توا نظریہ کے شانہ بہ شانہ اور قدم سے قدم ملاکر چل رہے ہیں۔

 

اسی کی ایک مثال چندرا بابو نائیدو اور نتیش کمار کی ہے۔جو بھی ان کی ماضی کی سیاست سے واقف ہوگا اور آج ان کی جو سیاست دیکھ رہا ہوگا وہ اچھی طرح سے سمجھ جاۓ گا کہ یہ سیکولر کے نام پر عوام بے وقوف بناتے رہے۔لیکن پھر بھی یہ کہا جاتا رہا کہ وہ اپنے سیاسی مفادات کو بچانے این ڈی اے کا حصہ بنے رہے۔لیکن نتیش کمار کی 15 ڈسمبر والی گھناؤنی و نیچ حرکت نے یہ ثابت کر دکھایا کہ وہ واقعتاً ہندوتوا کی نظریاتی جنگ میں اول صف میں اپنا مقام رکھتے ہیں۔یہی نہیں بلکہ پہلے بھی وہ اپنے زاتی اور سیاسی مفادات کی خاطر بھاجپا کے لاۓ جانے والے سیاہ قوانین میں بھی معاون بنے رہے۔لفظ سیکولر اب اس ملک میں صرف لفظ تک باقی رہ گیا۔ باقی ہر کام اس کے نام کا استعمال کرتے ہوۓ یا تو عوام کے ووٹوں کو لوٹا جارہا ہے یا پھر اس کے نام پر سیکولرزم کا زبردست استحصال کیا جارہا ہے۔اب صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ مذہبی آزادی،مساوات کا حق، اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوۓ آزادی کا حق، اظہار راۓ کی آزادی صرف دستور کے اوراق تک سمٹ کر رہ گئے ہیں۔باقی عملی طور پر وہ سب کچھ ہورہا ہے جو ایک سیکولر ملک میں نہیں ہونا چاہیئے۔

 

بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار و این ڈی اے کی سرکار نے جس طمطراق سے محفل سجاکر ڈاکٹرس کو تقرر نامے حوالے کر رہے تھے۔اسی تقریب میں ایک مسلم خاتون ڈاکٹر جس نے اپنی دن رات کی محنت مشقت کے بعد اس کو یہ خوشی حاصل ہورہی تھی کہ وہ آج ایک ڈاکٹر کے تقرر نامے کو وزیر اعلیٰ کے ہاتھوں سے لینے والی ہے۔لیکن نتیش کمار نے اس خاتون ڈاکٹر کو تقرر نامہ حوالے کرتے ہوۓ جس طرح پورے غصہ میں اور پوری محفل میں اس خاتون ڈاکٹر کے نقاب سے چھیڑ خوانی کرتے ہوۓ نقاب کھینچا اس لڑکی کی برسوں کی کمائی ہوئی خوشیوں اور عزت کو صرف ایک لمحہ میں ضائع کردیا۔خود ڈاکٹر نصرت پروین اپنی زبانی کہتے ہوۓ کہہ رہی ہے کہ "میئں اب یہ نوکری نہیں کروں گی۔وزیر اعلیٰ کا ارداہ کیا بھی ہو مجھے تکلیف پہنچی ہے۔کچھ لوگ پیچھے ہنس بھی رہے تھے۔” لوگ کہہ رہے ہیں نتیش کمار کا یہ پاگل پن ہے۔ کوئی کہہ رہے ہیں ان کے یہ ذہنی دیوالیے پن کی نشانی ہے۔ہمارا سوال ہے وقت کے وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بیٹھ کر جو شخص حکمرانی کر رہا ہو بھاجپا کو لوہے کے چنے چبانے پر مجبور کر رہا ہو، حالیہ انتخابات میں 85 اراکین اسمبلی نشستیں جیت چکا ہو ، بھلا ایسا شخص کیا ذہنی عارضہ کا مریض ہوسکتا ہے؟ اگر واقعی یہ شخص ذہنی مرض میں مبتلاء ہے تو کیا ایسے شخص کو کوئی اختیار بنتا ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ کی کرسی پر قائم رہتے ہوۓ اس طرح کی نیچ اور گھٹیا حرکتیں کرتا رہے؟

 

ہمارا سوال ہے نتیش کمار نے اس خاتون ڈاکٹر کا نقاب کیوں کھینچا؟ کیوں کہ حجاب پر پابندی لگاکر مسلم خواتین کو ان کے حقوق اور مذہب سے علحدہ کرنا یہودی اور ہندوتوا کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ہم سنتے آرہے ہیں دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں جہاں پر حجاب پر پابندی عائد ہے۔اور کرناٹک میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح حجاب پر پابندی لگانے کے لیئے بھاجپا سرکار نے دن رات محنتیں کی۔پھر معاملہ ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ جا پہنچا۔ابھی فیصلہ آنا باقی ہے۔تو نتیش کمار کے نقاب کھینچنے کے پیچھے یہی مقصد پوشیدہ ہے کہ وہ ہندو توا کے نظریہ کو قائم کرنے میں کھل کر سامنے آرہے ہیں۔ورنہ اگر نتیش کمار کا ذہن سیکولر ہوتا وہ سر عام ایک مسلم خاتون ڈاکٹر سے اس طرح پیش نہیں آتے۔ہر ایک کو اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوۓ اپنی مذہبی تعلیمات پر عمل آواری کرنے کا حق حاصل ہے۔ایسے ہی مسلم سماج کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ کوئی بھی لڑکی حجاب پہنے یا نہ پہنے یہ اس کا اپنا دستوری حق ہے۔سوال یہ ہے کہ نتیش کمار کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ نقاب کھینچے؟ بلکہ نتیش کمار کو یہ حق بھی نہیں پہنچتا کہ وہ ایک لڑکی کو نقاب ہٹانے کے لیئے کہیں۔نتیش کمار کی اس نچلی درجہ کی حرکت سے تو یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ انھیں بھی مسلم خواتین کے حجاب سے سخت نفرت ہے۔

 

ابھی مختلیف گوشوں سے نتیش کمار کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔مختلیف مقامات پر خواتین تنظیموں کی جانب سے ایف آئی آر درج کرائی جارہی ہے۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ نتیش کمار کے خلاف کوئی کاروائی بھی نہ ہو پاۓ گی۔لیکن پھر سے نفرت کے پروانے نتیش کمار کی تائید میں گردش کرنے لگ گئے ہیں۔اترپردیش کے وزیر سنجے نشاد نے ہنستے مسکراتے انتہائی شرم ناک بات کرتے ہوۓ کہتے ہیں کہ "حجاب ہی تو چھوا ہے اس سے کیا ہوگا۔ اگر کہیں اور چھو لیا ہوتا تو کیا ہوتا۔” دوسری طرف یونین منسٹر گری راج سنگھ بھی نتیش کی تائید میں میدان میں کود پڑے۔اور کہہ رہے ہیں کہ نتیش نے جو کیا صحیح کیا ہے۔یہ کوئی اسلامک ملک نہیں ہے۔تقرر نامہ لیتے وقت حجاب نکالنا چاہیئے۔اور کہہ رہے ہیں کہ یہ ملک قانون سے چلے گا”۔ اترپردیش کے وزیر سنجے نشاد اور گری راج سنگھ کی نچلی درجہ کی گفتگو یہی ثابت کر رہی ہے کہ بھاجپائی دور میں خواتین کی عزت تار تار کرنا ہم سے بہتر کوئی اور نہیں کرسکتا۔کیا سنجے نشاد نے اس لڑکی کی جگہ اپنی بیٹی کو رکھ کر کچھ سوچا ہے؟ اگر وہ اس خاتون ڈاکٹر کو اس ملک کی بیٹی مانتے تو وہ اتنی نیچ باتیں نہیں کہتے۔گری راج سنگھ قانون کی باتیں کر رہے ہیں۔اور پتہ نہیں وہ کونسے قانون کی بات کر رہے ہیں۔ گری راج سنگھ کو اس قانون کا حوالہ بھی دینا چاہیئے تھا کہ جس کے تحت نقاب ہٹاکر تقرر نامہ لیا جانا چاہیئے۔کیا صرف لفاظی سے کام چل سکتا ہے؟

 

دوسری طرف گودی میڈیا کے ایر کنڈیشن ہاؤسس میں اتنے بڑے مسئلہ کو صرف ایک سرخی کی طرح پیش کرکے بتایا جارہا ہے۔حالاں کہ یہی گودی میڈیا میں گفتگو کے دوران کوئی دو الفاظ نا زیبا استعمال کرلیتا ہے تو یہ ہلہ بول دیتی ہیں۔اور خواتین کے حقوق پر چیخ چیخ کر ڈیبیٹ کراتی ہیں۔لیکن آج انھیں سانپ سونگھ لیا ہے۔محض اسی لیئے کہ نتیش کمار این ڈی اے کا حصہ ہے۔اگر یہی نتیش کمار انڈیا اتحاد کا حصہ ہوتے تو گودی میڈیا نتیش کمار کے پرخچے اڑا دیتی۔اور خواتین کے تیئں بھاجپا کے رویہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتیں۔کیا آج یہ ایک خاتون کا درد محسوس نہیں کر رہی ہے؟ کیا ایک خاتون کی عزت ایک خاتون اینکر کے نزدیک اتنی گر چکی ہے ؟ جب کہ یوگی کا منتری سنجے نشاد کس قدر ایک خاتون کی عزت کو نیلام کر رہا ہے کیا انھیں یہ نظر نہیں آرہا ہے ؟

 

اب آتے ہیں اس اہم سوال کی طرف کہ نتیش کمار کے اس جرم کی سزا کیا ہے؟کیا اس ملک کا قانون نتیش کمار کے اس عظیم جرم کی سزا طئے کرے گا؟ کیوں کہ مقدمات تو بہت درج ہورہے ہیں اور گناہ بھی بہت بڑا ہے۔ پھر تو لازمی ہے کہ اس جرم کی سزا کا تعین بھی کیا جاۓ۔ ورنہ خواتین کے خلاف بالخصوص مسلم خواتین کے حجاب کو لے کر کہیں نتیش کمار کا رویہ دوسروں کے لیئے راہ فراہم نہ کردے۔ یہاں مہذب سماج کے ہر اس طبقہ کو اس جرم کے خلاف آواز اٹھانی چاہیئے جو خواتین کی عزت و آبرو اور ان کی آزادی پر بڑے بڑے سمینار اور سمپوزیم منعقد کرتے ہیں۔اور یہ بھی یاد رکھیں کہ یہاں ایک مسلم خاتون نہیں بلکہ لفظ خاتون اہمیت کا حامل ہے۔آج نقاب کھینچا گیا کل کے روز کوئی گھونگھٹ بھی کھینچے گا۔ لہذا اس واقعہ کو ایک مسلم سماج سے منسوب نہ کیا جاۓ۔اور یہ بھی نہ بھولیں کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار ایک آئینی عہدے پر فائز ہے۔جس کا قانون یہ بتاتا ہے کہ ایک خاتون کو چھونا یا اس کی کسی شئے کو چھونا جرم تسلیم کیا جاتا ہے۔

 

کیا نتیش کمار کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاۓ گا؟ یہ وہ اہم سوال ہے جو اس ملک کا قانون سکھاتا ہے کہ مجرم چاہے چھوٹا ہو یا بڑا جو نہ اس کا عہدہ دیکھتا ہے نہ شخصیت، بلکہ بھارت کے قانون کی نظر میں ہر وہ جرم کرنے والا مجرم کہلاتا ہے۔جس کو کیفر کردار تک پہنچانا پولیس اور عدلیہ کا کام ہوتا ہے۔ایسے میں بڑا سوال یہی نکل کر آتا ہے کہ نتیش کمار نے بھری تقریب میں ایک خاتون کے ساتھ جو کیا وہ بھی بھارتی قانون کی نظر میں ایک بڑا جرم ہے۔تو کیا پھر نتیش کمار کو ان کے کیئے کی سزا مل پاۓ گی؟ کیا ڈاکٹر نصرت پروین سے انصاف کیا جاۓ گا ؟ اگر دیکھا جاۓ تو نتیش کمار کی اس گھناؤنی حرکت پر آخری درجہ کی چیز یہی ہے کہ وہ اپنے کیئے پر ڈاکٹر نصرت پروین سے میڈیا کے ذریعہ معافی کا اقرار کریں۔تاکہ پھر کبھی کوئی دوبارہ ایسی نیچ حرکت کرنے سے پہلے سو بار سوچنے پر مجبور ہوجاۓ۔کیوں بھاجپائی وزراء کی جانب سے حجاب سے چھیڑ خوانی پر جس طریقے کے نا زیبا بیانات آرہے ہیں اس سے غنڈہ قسم یا شرپسند عناصر کو محرکہ مل سکتا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارت کا قانون جتنا سخت ہے کیا اس قانون کو چلانے والے بھی اتنے ہی سخت ہیں یا نہیں؟

متعلقہ خبریں

Back to top button