مضامین

احتجاجی نظم 

ڈاکٹر سیدہ نسیم سلطانہ

ویمنس یونی ورسٹی

عنوان

=========

” نہ رادھا بچی، نہ رعنا”

 

تو رادھا ہو یا رعنا

دونوں کے دکھ ایک جیسے

ہوس کے ہاتھوں

نہ رادھا بچی

نہ رعنا

کسی کی رِدا نوچی گئی

کسی کا نقاب چھینا گیا

نام بدلے

جرم ایک ہی رہا

نہ رادھا بچی

نہ رعنا

کہیں سات برس کی

کچلی کلی پر

موت کی مہر ثبت ہوئی

کہیں نربھیا کے نام

موم بتیاں جلتی رہیں

کہیں ستر برس کی بوڑھی

قدموں تلے روندی گئی

ہاں

دونوں کے دکھ ایک جیسے

نہ رادھا بچی

نہ رعنا

یہ یونان و مصر نہیں

جہاں گوشت و پوست کو

بت بنا کر

ذلت کی نذر کیا گیا

جہاں حسن و جمال

تجارت کی شے ٹھہرے

یہ میرے ہند کی مٹی ہے

جس کی خوشبو کی بشارت

رسولِ عربی ﷺ نے دی

یہ وہ دھرتی ہے

جہاں بیٹی

خدیجہؓ، عائشہؓ، فاطمہؓ کا اظہار

اور

لکشمی، سرسوتی، درگا کا اوتار ہے

تم —

چند کروڑ نہیں

ایک ذہن ہو

ایک صدیوں پر پھیلا ہوا

مردانہ خول

اور ہم —

کسی مردم شماری کا ہندسہ نہیں

بلکہ

زندگی کی کثرت

تخلیق کا تسلسل

رحم کی زبان

بقا کی علامت

تم

طاقت کے وہ چند ہاتھ ہو

جو کرسی

قانون

اور لاٹھی تھامے کھڑے ہیں

اور ہم

چار سمتوں میں پھیلی ہوئی

وہ صدا

جو جنم دیتی ہے

جو سنبھالتی ہے

جو زندہ رکھتی ہے

یاد رکھو

اقتدار

تمہاری تعداد سے نہیں

ہماری نسبت سے جنم لیتا ہے

ہمارے بغیر

نہ تمہارا وجود ہے

نہ عدم

زندگی ہم سے شروع

ہم پر ختم

ہر سانس

ہماری عنایت

زندگانی کا ہر لمس

ہماری رفاقت

لازم تھی

تعظیمِ نسوانیت

مگر تم

مرتکب ہوئے

توہینِ نسوانیت کے

اگر باز نہ آئے

تو سن لو

 

یہ انکارِ کمزوری نہیں

اعلانِ اختیار ہے

نہ رادھا بچی

نہ رعنا

 

اگر تم

اپنے خول سے

باز نہ آئے

تو سن لو—

یہ محض دھمکی نہیں

یہ جنون نہیں

یہ اعلانِ شعور ہے

ہم

تمہیں جنم دینے سے

انکار کریں گی

یہ انکار

زندگی کے خلاف نہیں

ذلت کے خلاف ہوگا

نہ رادھا بچی

نہ رعنا

متعلقہ خبریں

Back to top button