مضامین

تنقید اور تجزیہ۔نظم ” نہ رادھا بچی نہ رعنا ” 

ڈاکٹر غوثیہ بانو 

وہمنس یونی ورسٹی

نظم ” نہ رادھا بچی نہ رعنا ”

 

یہ نظم “نہ رادھا بچی، نہ رعنا” عہدِ حاضر میں عورت کے اجتماعی کرب اور اس کے خلاف اٹھنے والی فکری مزاحمت کی علامت ہے۔ شاعرہ نے رادھا اور رعنا کو بطور دو نام نہیں، بلکہ دو تہذیبی شناختوں کے استعارے کے طور پر برتا ہے، جن کے دکھ میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔

 

یہ نظم مذہب، لباس اور تہذیب کے خانوں سے نکل کر عورت کو ایک مکمل انسانی وجود کے طور پر پیش کرتی ہے—ایسا وجود جو صرف مظلوم نہیں بلکہ تخلیق، بقا اور اختیار کی اصل قوت ہے۔یہ تخلیق محض ردِ عمل نہیں بلکہ اعلانِ شعور ہے، جہاں احتجاج جذباتی نعرہ بننے کے بجائے فکری موقف اختیار کرتا ہے۔ “جنم دینے سے انکار” جیسا مصرعہ حیاتیاتی نہیں بلکہ تہذیبی و اخلاقی احتجاج کی علامت ہے، جو نظم کو عصری نسوانی ادب میں ایک مضبوط اور یادگار مقام عطا کرتا ہے۔

 

② مختصر تنقیدی نوٹ (نسوانی ادب کے تناظر میں)

یہ نظم اردو کی معاصر نسوانی احتجاجی شاعری میں ایک اہم اضافہ ہے۔ اس کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ شاعرہ نے مظلومیت کے بیان پر اکتفا نہیں کیا بلکہ عورت کو تخلیق کی مقتدر قوت کے طور پر پیش کیا ہے۔رادھا اور رعنا علامتی کردار ہیں جو مذہبی شناختوں کو توڑ کر عورت کے مشترکہ المیے کو نمایاں کرتے ہیں۔ ردا اور نقاب، کچلی کلی، موم بتیاں اور عددی حوالے—سب علامتیں ہیں، اعداد نہیں۔ یہی علامتی ساخت نظم کو سطحی نعرہ بننے سے بچاتی ہے۔

 

نظم کا اختتام “جنم دینے سے انکار” پر ہوتا ہے جو تخریب نہیں بلکہ اخلاقی بغاوت ہے۔ یہ اعلان عورت کی کمزوری نہیں بلکہ اس کے اختیار اور شعور کی انتہا کو ظاہر کرتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ نظم جدید اردو نسوانی شعری بیانیے کی ایک توانا مثال ہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button