کرامت نہیں، اصلاح—یہی خواجہ رحہ کا پیغام تھا،مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب
کرامت نہیں، اصلاح—یہی خواجہ رحہ کا پیغام تھا،مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب
حیدرآباد، 26 دسمبر (پریس ریلیز)خطیب و امام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز، نامپلی حیدرآباد، مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے اپنے مؤثر اور فکر انگیز خطاب میں کہا کہ
اسلام اجنبی نہیں، ہم نے اپنے رویّوں سے اسے اجنبی بنا دیا ہے۔انہوں نے نہایت درد مندی کے ساتھ اس حقیقت کی نشاندہی کی کہ یہ ہمارے عہد کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ ہم نے اسلام کو مسجد کی دہلیز تک تو قابلِ احترام رکھا، مگر گھروں کی زندگی میں اسے مشکل، سخت اور غیر ضروری سمجھ لیا۔ شادی بیاہ کے مواقع ہوں تو شریعت بوجھ محسوس ہونے لگتی ہے، بچوں کی تربیت آئے تو دنیاوی کامیابی کو ترجیح دی جاتی ہے اور ایمان کی آبیاری پس منظر میں چلی جاتی ہے۔حالانکہ اسلام وہ دین ہے جو گھر کو سکون، خاندان کو وقار اور معاشرے کو اعتماد عطا کرتا ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ مسلمان اپنے بھائی کے لیے آسانی بنے، اس کا سہارا بنے، دھوکہ نہ دے اور معاف کر کے دلوں کو جوڑ دے۔انہوں نے عہدِ فاروقی کے ایک ایمان افروز واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ جب ایک مقروض شخص نے مہلت طلب کی تو ضمانت کے مطالبے پر ایک صحابیؓ بلا تردد ضامن بن گئے۔ مقررہ وقت پر قرض دار کی واپسی نے دیانت کی مثال قائم کی، اور قرض خواہ نے کشادہ دلی سے معاف کر کے اعلان کیا کہ ہم امتِ محمدیہ ﷺ ہیں، یہاں دل تنگ نہیں ہوتے۔یہ کوئی داستان نہیں، یہ اسلام کی عملی تفسیر ہے—کہ اصل دین عبادات کے ساتھ ساتھ کردار، امانت اور رحم کا نام ہے۔
اسی پیغام کی روشن جھلک ہمیں سرزمینِ ہند کے عظیم محسن حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی حیاتِ مبارکہ میں ملتی ہے۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی
آپ نے کبھی کرامت کے شور کو بزرگی کی علامت نہیں بنایا، بلکہ صاف فرمایا کہ سب سے بڑی کرامت انسان کی اصلاح ہے۔ بھوکے کو کھانا، مجبور کو سہارا، ٹوٹے دلوں کو جوڑنا—یہی آپ کے دین کی روح تھی۔ آپ کا پیغام آج بھی گونجتا ہے کہ اگر اسلام کو عام کرنا ہے تو لوگوں کے لیے آسانی بنو، اپنے اخلاق سے دین کا تعارف کراؤ۔
ہندوستان، جو صدیوں سے تہذیبوں کا سنگم رہا، اسلام کی آمد کے وقت مذہبی انتشار، ذات پات کی تفریق اور اخلاقی زوال کا شکار تھا۔ ایسے ماحول میں اولیاء اللہ نے تلوار کے بجائے اخلاق، محبت اور خدمتِ خلق سے دل فتح کیے۔ ان کی خانقاہیں روحانی تربیت کے ساتھ سماجی اصلاح کے مراکز بنیں۔ خصوصاً سلسلۂ چشتیہ نے رواداری، مساوات اور انسان دوستی کا پیغام عام کیا۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 537ھ/1142ء میں سجستان کے ایک علمی و روحانی گھرانے میں ہوئی۔ آپ نَجیبُ الطرفین سید تھے، اور تاریخ نے آپ کو معینُ الدین، غریب نواز، سلطانُ الہند اور عطائے رسول جیسے القابات سے یاد رکھا۔ تحصیلِ علم و فیض کے لیے آپ نے شام، بغداد اور دیگر مراکز کا سفر کیا؛ آپ کی نسبت اپنے پیر و مرشد
حضرت خواجہ عثمان ہارونی
اور پیرانِ پیر
شیخ عبدالقادر جیلانی
سے جڑی، جو آپ کے روحانی مقام کی دلیل ہے۔
زیارتِ حرمین کے بعد آپ کو ولایتِ ہند عطا ہوئی۔ اجمیر شریف کو مرکز بنا کر آپ نے دعوت و اصلاح کا وہ عظیم مشن شروع کیا جس نے تاریخ کا دھارا بدل دیا۔ لاکھوں انسان آپ کے اخلاق و کردار سے متاثر ہو کر اسلام کے نور میں داخل ہوئے۔ یہ محض ایک شخصیت کی آمد نہ تھی، بلکہ ایک روحانی و سماجی انقلاب تھا جس نے برِّ عظیم کے گوشے گوشے کو منور کیا۔
مؤرخین نے بھی آپ کی مساعی کا اعتراف کیا۔ پروفیسر
Thomas Walker Arnold
نے آپ کی تبلیغی خدمات کا ذکر کیا، جبکہ
ابوالفضل
نے
آئینِ اکبری
میں لکھا کہ آپ نے اجمیر میں رشد و ہدایت کے چراغ جلائے جن سے گروہ کے گروہ مستفید ہوئے۔ تصنیف و تالیف میں انیس الارواح، کشف الاسرار، گنج الاسرار اور دیوانِ معین آپ کے علمی و روحانی قد کا ثبوت ہیں۔
تقریباً پینتالیس برس کی بے لوث خدمت کے بعد 6 رجب 627ھ کو اجمیر شریف میں آپ کا وصال ہوا، مگر آپ کا فیض آج بھی جاری ہے۔ برِّ عظیم پاک و ہند میں ایمان و اسلام کی جو بہار نظر آتی ہے، اس کے پس منظر میں اسی محبت، خدمت اور اخلاق کی وہ خاموش مگر انقلابی جدوجہد کارفرما ہے۔
آخر میں مولانا صابر پاشاہ قادری نے سوال اٹھایا:
کیا ہمارے گھروں میں معافی کا مزاج ہے؟
کیا ہم بچوں کو سچائی اور دیانت سکھا رہے ہیں؟
کیا ہماری خوشیاں شریعت کے دائرے میں سانس لیتی ہیں؟
انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے اسلام کو صرف کتابوں اور خطبوں تک محدود رکھا تو اجنبیت بڑھے گی، اور اگر اسے کردار، تربیت اور خدمت میں ڈھال دیا تو یہی دین پھر سے زندگی بن جائے گا۔
اسلام اجنبی نہیں—اجنبیت ہمارے رویّوں میں آئی ہے۔
آئیے! دین کو پھر سے گھروں کی زینت، بچوں کی پہچان اور معاشرے کی بنیاد بنائیں—کہ یہی اصلاح ہے، اور یہی اصل کرامت۔



