مضامین

چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے – نونیت رانا اور آر ایس ایس لیڈر دتاتریہ کے متنازعہ بیانات

تحریر:سید سرفراز احمد

اس وقت بھارت کے مسلمانوں کی حالت وہی ہورہی ہے جس کا منصوبہ سو سال پہلے تیار کیا گیا تھا۔ کہ اس ملک عزیز میں مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہوۓ ظلم و ذیادتی کی جاۓ۔یا تو اقلیتی مذاہب اس ملک کو چھوڑ کر کہیں چلے جائے یا پھر اس ملک میں دوسرے درجہ کے شہری بن کر زندگی گذاریں۔یہ وہ ہنوتوا کا نظریاتی ایجنڈہ رہا ہے جس کی خاطر وہ سو سال سے اس ملک میں کوشاں رہے ہیں۔حالاں کہ وطن عزیز کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جو ہندوتوا اس ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی راہ پر چل پڑے ہیں۔ وہ خود کبھی اس ملک کے لیئے اپنی ایک انگشت تک کٹانے کو گورا نہ سمجھا۔بلکہ آج جو یہ دیش بھکتی کا دکھاوا کر رہے ہیں وہ تو الٹا چور کوتوال کو ڈانٹنے کے مترادف ہے۔جنھوں نے اخیر دم تک انگریزوں کی مخبری کرتے ہوۓ دیش کی عوام سے غداری کی تھی۔بلکہ یہ وہی ہندوراشٹر کی تڑپ رکھنے والے قائدین تھے جنھوں نے انگریزوں کی غلامی کو تسلیم کرتے ہوۓ ان سے معافی بھی مانگی تھی۔اور آج ان ہی کے نظریاتی ایجنڈے پر چلنے والے اس ملک کو ہندوراشٹر بنانے کے لیئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔

 

آر ایس ایس جیسی ہندوتوا نظریاتی تنظیم کی گود میں پل رہی بھاجپا جیسے ہی دور اقتدار میں قدم رکھتی ہے پورے ملک میں ہر طرف ایک نئے دور کا آغاز ہوجاتا ہے۔ملک میں جو تبدیلیاں آج نظر آرہی ہے وہ سال 2014 کے بعد سے ہی نظر آنی شروع ہوئی۔چوں کہ ملک کے وزیراعظم کے طور پر بھاجپا نے نریندر مودی کو ملک کا چہرہ منتخب کیا۔ جو گجرات کےطوزیر اعلیٰ تھے۔ جن کے دور اقتدار میں سال 2002 کے گجرات فسادات رونما ہوۓ تھے۔جس سے وہ اکثریتی فرقہ جو ہندوتوا نظریہ پر یقین رکھتا ہے۔ وہ اس گروہ کے نزدیک چھاگئے۔یہ وہ گروہ ہے جن کو اقلیتوں پر ظلم کرنے میں بڑا مزہ آتا ہے۔یا تو وہ اقلیتوں پر ظلم کرنے کو نیکی سمجھتے ہیں۔ لیکن در حقیقت بھارتی سماج کا ایک بڑا حصہ اس پر یقین بھی نہیں رکھتا۔ اور نہ اس طرح کے نظریہ کو مانتا ہے۔ لیکن نریندر مودی کے اس دور حکمرانی نے کئی ایک ایسے سیکولر قائدین کی پول کھول کر رکھ دی جو اندرونی طور پر ہندوتوا ایجنڈے کے حامی تھے۔ایسی ہی پول اس گودی میڈیا کی بھی کھل گئی جو جانب داری یا اپنے ذاتی مفادات کو ترجیحات میں شامل کرتے۔ایسے میں وہ میڈیا کے نمائندے جو غیر جانب داری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانا چاہتے تھے انھوں نے گودی میڈیا کی طرح اپنے ضمیر کو فروخت نہیں کیا۔ بلکہ فروخت والی صحافت پر اقدار پر مبنی صحافت کو ترجیح دی۔

 

حکمران جماعت کو گودی میڈیا کا بھر پور تعاون نے ایسے ایسے سیاسی قائدین کو حوصلہ بخشنے کا کام کیا ہے جو نہ کبھی اچھی گفتگو کرسکتے تھے۔اور نہ ہی کبھی عوام میں مشہور ہوسکتے تھے۔لیکن ایسے ہندوتوا نے قائدین نفرت انگیزی کا سہارا لیتے ہوۓ اپنی اپنی مقبولیت میں اضافہ کرنے کا ذریعہ بنایا۔چوں کہ ان کے سامنے صرف یہی ایک راستہ بچا ہوا تھا کہ وہ اپنی شناخت کو سماج میں کیسے پھیلائیں۔کیوں کہ ان کے پاس اپنی شناخت کو بہتر بنانے کی کوئی مثبت صلاحیت موجود نہیں تھی۔ظاہر ہے وہ منفی راستے کے انتخاب کو ترجیح دیں گے۔تو ایسے ہی اس دور میں کئی ایک نفرتی پروانوں کا اضافہ ہوا ہے۔ جو مودی حکومت کی سرکار کے آڑ میں منہ سے زہر اگلنے سے بھی ہیچھے نہیں ہٹتے۔بس ہر وقت ایسے قائدین کے منہ سے آگ اور اس کے شعلے ہی برستے رہتے ہیں۔اور یہ آگ اور شعلے کی زد میں صرف اور صرف مسلمان ہی آتے ہیں۔حالاں کہ اس ملک میں نہ ہی مسلمان سیاسی طور پر مضبوط ہے اور نہ تعلیمی میدان میں، مسلمانوں کی حالت زار ایسی ہے کہ وہ تو اس ملک میں پچھڑے طبقات سے بھی پیچھے ہیں۔ پھر بھی انھیں ڈر ہے کہ مسلمان اپنی آبادی میں اضافہ کرتے ہوۓ اس ملک کو غزوہ ہند بنادیں گے۔

 

اس ملک کا ہر دن نفرتی بھاشنوں اور مسلمانوں کو یاد کیئے بناء نہیں گذرتا۔ ہندوتوا کے بڑے قائدین سے لے کر ہر گلی کے لیڈر کو دیکھ لیجئے وہ اپنی سیاست میں مسلمان کا ہی خون چوسنا پسند کرے گا۔حالاں کہ سب کچھ انہی کے پاس موجود ہے۔اب آپ دیکھئے مہاراشٹر کی سابق رکن پارلیمان نونیت رانا لوک سبھا انتخابات میں اپنے منہ سے آگ کا دریا بہا رہی تھی۔ بلکہ حیدرآباد بھی آکر مسلمانوں سے نفرت کے شعلے اچھال رہی تھی۔لیکن نونیت رانا کو اپنے ہی حلقہ پارلیمان میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔وہ سمجھ رہی تھی کہ میں پانچ سال کام نہ کرتے ہوۓ اخیر میں نفرت پھیلادوں اور ہندوؤں کے ووٹ بینک سے رکن پارلیمنٹ بن جاؤں۔لیکن ہر انسان کو پتہ ہے کہ نفرت کسی بھوکے پیٹ کی بھوک نہیں مٹاسکتی۔نفرت بے روزگار کو روزگار نہیں دے سکتی۔نفرت سماج کو مہذب سماج نہیں بناسکتی۔آج پھر سے یہی نونیت رانا جو سرخیوں میں رہنا پسند کرتی ہے تاکہ عوام انھیں کہیں بھول نہ جائیں۔ اسی لیئے پھر سے وہ مسلمانوں کو یاد کرنے لگ گئی۔ وہ کہتی ہیں”اگر مسلمان انیس بچوں کو پیدا کر رہے ہیں تو ہمیں بھارت میں تین سے چار بچوں کو پیدا کرنا چاہیئے۔کیوں کہ وہ بھارت کو پاکستان میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔”

 

نونیت رانا سے کیا یہ سوال نہیں پوچھا جانا چاہیئے کہ ملک کی آزادی سے لے کر اب تک کیا مسلمان اس ملک پر کبھی حکمرانی کی ہے؟ اور یہ بات بھی دل چسپ ہے کہ گیارہ سال سے خود بھاجپا سرکار میں موجود ہے اور یہ ہندوؤں کو مسلمانوں کا خوف دلا رہے ہیں۔جو اپنے آپ میں خود مضحکہ خیز ہے۔ لیکن ان کی اس سیاست سے ہر کوئی واقف ہوچکا ہے۔کہ اس ملک کو مسلمانوں سے کبھی خطرہ تھا اور نہ آئندہ رہے گا۔کیوں کہ نونیت رانا کے اس نفرتی بیان کے بعد کئی ایسے ہندو طبقہ کی عوام جو نونیت رانا کو کرارا جواب دے رہے ہیں۔ شیوسینا کی رکن پارلیمان پرینکا چتر ویدی نے کہا کہ "وہ پہلے اپنے پتی کو منا لیں پھر اپنے پڑوسیوں کو منالیں۔ جو اپنے پتی اور اپنے پڑوسیوں کو نہیں منا سکتی وہ دیش کی عورتوں کو گم راہ کرنا بند کریں”۔ایک اور ہندو شخص نے کہا کہ اس کے اپنے خود کے دو بچے ہیں اور وہ دوسروں کو گیان بانٹ رہی ہے۔ پہلے خود چار پر عمل کریں۔ایسے ہی سوشیل میڈیا پر نونیت رانا کی اس نفرتی اور اشتعال انگیزی پر کئی ہندوؤں نے رد عمل دیتے ہوۓ نونیت رانا کو نوٹنگی بند کرنے کا مشورہ دیا۔جس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ اس ملک کی اکثریتی آبادی بھی بناوٹی باتوں کو اچھی طرح سے سمجھ رہی ہے۔اور سب کو یہ بھی پتہ ہے کہ اس دور میں انیس بچے تو دور کی بات ہے چار بھی پیدا نہیں کر رہے ہیں۔ شرم آنی چاہیئے نونیت رانا کو کہ اس قسم کی گھٹیا باتیں کرنے سے پہلے کچھ سوچتی بھی ہیں یا نہیں؟ جو خود ایک خاتون ہے اور ایک خاتون کو تو قطعی بھی زیب نہیں دیتا کہ وہ ایسی گھناؤنی باتوں سے سماج کے ماحول کو خراب کریں۔لیکن اہم سوال ہے کہ نونیت رانا کو ذیادہ بچے پیدا کرنے سے آخر کس نے روکا؟

 

دوسری طرف آر ایس ایس کے جنرل سکریٹری دتاتریہ ہوسبالے نے مسلمانوں کو سورج ، درخت اور ندی کی پوجا کرنے کا مشورہ دیا۔سنگھ کے جنرل سکریٹری کا یہ متنازع بیان نہ صرف مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا کام کیا ہے۔ بلکہ اس ملک کے دستور کی دی جانے والی مذہبی آزادی پر بھی قدغن لگانے کا کام کر رہے ہیں۔ دتاتریہ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی دوسرے مذہب کو اپنے مذہب میں ڈھالنے کا کام کرے۔ دتاتریہ کے اس متنازعہ بیان کا مولانا محمود مدنی نے انتہائی سلیقے انداز میں جواب دیتے ہوۓ کہتے ہیں کہ "عقیدہ توحید پر ایمان رکھنے والے مسلمانوں کو درخت، ندی،اور سورج کی پوجا کی دعوت دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ آر ایس ایس نے محبوب اور معبود میں ابھی تک اس فرق کو سمجھنے اور سمجھانے میں ناکام رہا”۔مولانا محمود مدنی نے دتاتریہ کو انہی کے انداز میں ایک اچھا جواب دیا۔ سنگھ کی یہ بھاشا در اصل ان کے نظریہ کی عکاسی کر رہی ہے کہ سنگھ بھارت میں مسلمانوں کو بطور مسلمان تسلیم کرنا نہیں چاہتا۔ بلکہ سنگھ مسلمانوں کو اپنے آبا و اجداد کو ہندو دھرم سے بے بنیاد رشتہ بتاتا ہے۔ بلکہ سنگھ اس ملک کے ہر شہری کو ہندو مانتا ہے۔اسی نسبت سے وہ مسلمانوں کو اپنے کھوۓ ہوۓ ہندو مذہب میں آنے کی دعوت دیتا ہے۔جو اس کی سب سے بڑی غلط فہمی ہے۔ حالیہ ہوۓ مناظرے میں مفتی شمائل ندوی نے وجود خدا پر ایک اچھا پیغام عام کیا جس میں ایک حکمت یہ نظر آئی کہ مناظرہ ایک ملحد مسلم نام شخص بمقابلہ اسلامک اسکالر کے درمیان تھا۔جس سے گودی میڈیا اور ہندوتوا کو مرچ مسالہ لگانے کے لیئے کچھ ہاتھ نہ آیا۔ اگر یہی مناظرہ کسی ہندو دھرم کے سنت اور اسلامک اسکالر کے درمیان ہوتا تو اس ملک میں کہرام مچ جاتا۔ اسی لیئے اس مناظرے سے ایک بڑا فائدہ یہی ہوا کہ لاکھوں غیر مسلم کے ذہنوں میں وجود خدا کے متعلق سوالات پیدا ہونا شروع ہوۓ۔اور کئی ایک کو مفتی صاحب نے عقلی دلائل سے ثابت کر دکھایا۔

 

اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر مظالم اس ملک میں شب و روز کا تماشا بن چکے ہیں۔ ایک انسان جس کی شناخت مسلم انسان کی ہو۔ اس جان کو ہلکے میں لے کر پیٹ پیٹ کر قتل کردیا جاتا ہے۔ بلکہ گیارہ سال سے ہجومی تشدد کا سلسلہ اس ملک میں چل رہا ہے۔ ایک روز قبل بھی ایک نوجوان مسلم لڑکے کو پیٹ پیٹ کر ماردیا جاتا ہے۔ اور یہی اگر بنگلہ دیش میں ایک ہندو کو مارا جاتا ہے تو بھارت کی راج دھانی دہل جاتی ہے۔ ظلم تو آخر ظلم ہے چاہے کسی بھی طبقے کی طرف سے ہو۔ لیکن ایسا ہی اگر بھارت میں ہوتا ہے تو یہی سماج اٹھ کھڑا کیوں نہیں ہوتا؟ ابھی کرسمس کے موقع پر یہی ہندوتوا کے نفرتی پروانے عیسائی طبقے کو جگہ جگہ دھمکاتے نظر آۓ۔ یوگی کے پردیش میں چرچ کے سامنے ہنومان چالیسہ کا پاٹ پڑھا گیا۔تو کہیں چرچ میں گھس پر عیسائی طبقے پر ظلم و ذیادتی کی گئی۔جب کہ اس کے برعکس نریندر مودی نے خود دہلی میں گرجا گھر جاکر کرسمس تقریب میں نہ صرف شرکت کی بلکہ دعائیہ اجتماع میں بھی شرکت کی۔ کیا یہی نفرتی طبقہ نریندر مودی سے سوال پوچھے گا کہ آخر آپ ایک ہندوتوا نظریہ سے تعلق رکھتے ہوں تو اس کرسمس تقریب میں کیوں شرکت کی؟ ایک صحافی کرشنا کانت نے اتر پردیش کے بریلی میں چرچ کے سامنے ہنومان چالیسہ کے پاٹھ پر بڑی اچھی بات لکھی۔ “اگر مسلمانوں کا تہوار ہو تو مسجد کے سامنے ناچو، اگر عیسائیوں کا تہوار ہو تو چرچ کے سامنے۔۔۔یہی جاہلوں کا ہندوتوا ہے۔” بہر حال اس ملک میں ہندوتوا کی طرف سے ہر روز ظلم کا ڈنکا کہیں نہ کہیں بجتا رہتا ہے۔ اور ایسا بھی لگ رہا ہے کہ سرکاری ادارے ہو یا خانگی مشنری سب ہندوتوا کے آگے بے بس کھڑے ہیں۔ لیکن اس تو نہ ہی ہندوؤں کا فائدہ ہونے والا ہے نہ اس دیش کا بھلا ہوگا۔ یہ طوفان بد تمیزی ایک دن ضرور تھمے گا جب اس کا وقت آۓ گا۔ ابھی تو فی الحال فیض احمد فیض کا یہ شعر اس ملک کی صورت حال پر صادق آرہا ہے۔

نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں

چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے

متعلقہ خبریں

Back to top button