کیا ترقی کا راستہ ملبے سے ہو کر گزرتا ہے؟بنگلور میں انہدامی کارروائی اور انسانی بحران کی تلخ حقیقت

از : عبدالحلیم منصور

یہ جو دہشت کا سماں ہے، یہ جو سناٹا ہے
لوگ کہتے ہیں کہ اس شہر میں کچھ ہوا ہے
اندھیری رات کی خاموشی ابھی پوری طرح ٹوٹی بھی نہ تھی کہ بنگلور کے شمالی حصے میں واقع کوگیلو، فقیر کالونی اور وسیم لے آؤٹ میں ایک ایسا منظر رقم کر دیا گیا جو برسوں نہیں، دہائیوں تک اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑتا رہے گا۔ علی الصبح ہونے والی انہدامی کارروائی محض چند جھونپڑیوں یا مکانوں کو گرانے کا عمل نہیں تھی بلکہ یہ ایک منظم حکمتِ عملی کے تحت انسانوں کو بے بس کرنے، انہیں قانونی چارہ جوئی کے حق سے محروم رکھنے اور شدید سرد موسم میں اجتماعی سزا دینے کی ایک زندہ مثال بن چکی ہے۔
یہ محض اتفاق نہیں تھا کہ انہدامی کارروائی کے لیے وہ وقت منتخب کیا گیا جب عدالتوں کی تعطیلات جاری تھیں اور متاثرین کے لیے فوری قانونی راستے عملاً مسدود تھے۔ اس سے تین دن قبل ہی علاقے کی بجلی منقطع کر دی گئی تھی، گویا یہ سب کچھ ایک طے شدہ منصوبے کے تحت کیا گیا، تاکہ لوگوں کو پہلے ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی طور پر کمزور کیا جائے اور پھر ان سے ان کی چھت چھین لی جائے۔ علی الصبح پولیس کی بھاری نفری، بلڈوزروں اور جے سی بی مشینوں کے ساتھ کارروائی شروع ہوئی، اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک پوری بستی نقشۂ زمین سے مٹا دی گئی۔
یہ وہ لوگ نہیں تھے جن کے پاس محض عارضی یا غیر معتبر کاغذات ہوں۔ ان کے گھروں میں بجلی کے باقاعدہ کنکشن تھے، پانی کے نل لگے تھے، ایل پی جی گیس سلنڈر فراہم کیے گئے تھے، آدھار کارڈ، راشن کارڈ اور ووٹر شناختی کارڈ موجود تھے۔ ان کے بچے سرکاری اور نجی اسکولوں میں زیرِ تعلیم تھے، ان کے پتے سرکاری ریکارڈ میں درج تھے اور وہ برسوں سے ووٹ ڈال کر جمہوری عمل کا حصہ بنتے آ رہے تھے۔ اس کے باوجود جس بے رحمی اور عجلت کے ساتھ انہیں علی الصبح جگایا گیا، وہ کسی بھی مہذب، آئینی اور جمہوری ریاست کے شایانِ شان نہیں کہا جا سکتا۔
مکینوں کے مطابق کمسن بچے ابھی گہری نیند میں تھے کہ پولیس اہلکار پہنچے اور بس اتنا کہا گیا کہ گیس سلنڈر باہر نکال لو۔ جیسے ہی سلنڈر باہر رکھے گئے، بلڈوزر اور جے سی بی مشینوں نے دیواروں، چھتوں اور کمروں کو کچلنا شروع کر دیا۔ نہ کسی تحریری نوٹس کا حوالہ دیا گیا، نہ عدالت کے کسی حکم کی کاپی دکھائی گئی، نہ ہی انسانی ہمدردی کا کوئی مظاہرہ سامنے آیا۔
یہ وہ آشیانے تھے جنہیں ان غریب خاندانوں نے برسوں کی محنت مزدوری، دن رات کی مشقت اور بھاری سود پر لیے گئے قرضوں کے بوجھ تلے دبا کر تعمیر کیا تھا۔ کسی نے زیور بیچ کر گھر بنایا تھا، کسی نے موٹر سائیکل فروخت کی، کسی نے قرض پر قرض لے کر اینٹیں جوڑی تھیں۔ چند لمحوں میں یہ سب ملبے میں بدل گیا۔ نہ سامان نکالنے کا وقت دیا گیا، نہ کپڑے، نہ برتن، نہ کتابیں اور نہ ہی اہم دستاویزات سنبھالنے کا موقع۔ کئی خاندانوں کے شناختی کاغذات، بچوں کے تعلیمی سرٹیفکیٹس اور دیگر اہم دستاویزات ملبے تلے دب گئیں، جن کے بغیر اب نہ تعلیم کا سلسلہ آسان ہے اور نہ ہی روزگار کے امکانات۔
انہدام کے بعد کی صورتِ حال اس سے بھی زیادہ دل دہلا دینے والی ہے۔ دسمبر کی شدید سرد راتوں میں، جب درجۂ حرارت دس ڈگری یا اس سے بھی کم ہو جاتا ہے، سینکڑوں مرد، عورتیں، بچے اور ضعیف العمر بزرگ کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں۔ نہ مناسب خوراک میسر ہے، نہ صاف پانی، نہ بیت الخلا کی سہولت۔ خواتین بتاتی ہیں کہ بیت الخلا نہ ہونے کے باعث وہ پانی پینے سے بھی گھبرا رہی ہیں۔ حاملہ اور زچہ خواتین طبی سہولتوں سے محروم ہیں، نومولود بچے سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے ماں کی گود میں سسک رہے ہیں اور بزرگ لرزتے ہاتھوں سے ملبے میں اپنی بکھری ہوئی زندگی تلاش کر رہے ہیں۔
اس انہدامی کارروائی نے بچوں کی تعلیم پر بھی کاری ضرب لگائی ہے۔ سینکڑوں بچوں کی کتابیں، یونیفارم، اسکول بیگ اور تعلیمی اسناد ملبے تلے دب چکی ہیں۔ کئی بچے امتحانات کے قریب تھے، مگر اب ان کے پاس نہ پڑھنے کا سامان ہے اور نہ ہی ذہنی سکون۔ ایک طرف حکومت تعلیمی ترقی اور اسکول ڈراپ آؤٹ کم کرنے کے دعوے کرتی ہے، اور دوسری طرف ایسے اقدامات کیے جاتے ہیں جو براہِ راست بچوں کے مستقبل کو تاریک کر دیتے ہیں۔
باشعور شہریوں اور سماجی کارکنوں کا سوال نہایت بنیادی، آئینی اور اخلاقی ہے۔ اگر یہ لوگ واقعی غیر قانونی طور پر مقیم تھے تو برسوں تک انہیں بجلی، پانی اور گیس کنکشن کیوں فراہم کیے گئے؟ انہیں آدھار اور ووٹر شناختی کارڈ کس بنیاد پر دیے گئے؟ ان کے نام راشن فہرستوں میں کیسے شامل ہوئے؟ اور اگر تجاوزات تھیں بھی تو کیا ریاست کی ذمہ داری نہیں تھی کہ قانون کے مطابق پہلے تحریری نوٹس جاری کیے جاتے، عدالت سے رجوع کیا جاتا اور بے دخلی سے قبل متبادل رہائش اور بازآبادکاری کا بندوبست کیا جاتا؟ اس کے برعکس جس عجلت، سختی اور بے رحمی کا مظاہرہ کیا گیا، وہ قانون کی عمل داری سے زیادہ طاقت کے بے لگام استعمال کی علامت ہے۔
یہ حقیقت بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ ان بستیوں کی اکثریت پسماندہ طبقات، خصوصاً مسلمانوں درویش اور دیگر کمزور برادریوں پر مشتمل تھی، جو پہلے ہی سماجی، معاشی اور سیاسی محرومی کا شکار ہیں۔ ان کے لیے گھر محض اینٹ اور سیمنٹ کی دیواریں نہیں بلکہ شناخت، تحفظ اور عزت کی علامت ہوتا ہے۔ جب یہی چھت چھین لی جائے تو انسان خود کو مکمل طور پر بے یارو مددگار محسوس کرتا ہے۔
اس سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس انسانی المیے پر مسلم قیادت اور مسلمانوں کی نمائندہ تنظیموں کی خاموشی کھل کر سامنے آئی۔ چند رسمی دورے، چند رسمی بیانات، مگر کوئی مضبوط، متحد اور فیصلہ کن احتجاج نہیں۔ یہ بے حسی محض سیاسی کمزوری نہیں بلکہ ایک گہری اخلاقی ناکامی بھی ہے، جو آنے والے وقت میں خود مسلم سماج کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔
ترقی کے نام پر گریٹر بنگلورو اتھارٹی کے ذریعے جاری ایسی انہدامی کارروائیاں موجودہ کانگریس حکومت کے لیے بھی سیاسی طور پر نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ وہی غریب، دلت، اقلیتی اور پسماندہ طبقات جنہوں نے اتحاد کا مظاہرہ کر کے کانگریس کو اقتدار تک پہنچایا، اگر خود کو مسلسل ناانصافی، بے حسی اور امتیازی سلوک کا شکار سمجھنے لگیں تو سیاسی ردعمل ناگزیر ہے۔ آنے والے مجوزہ جی بی اے انتخابات میں یہ ناراضی ووٹ کے ذریعے اپنا اظہار کر سکتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ غریبوں کی آہ، خصوصاً بے گھر کیے گئے انسانوں کی آہ و بکا، بڑے سے بڑے اقتدار کو بھی لے ڈوبتی ہے۔
کوگیلو، فقیر کالونی اور وسیم لے آؤٹ آج محض چند علاقوں کے نام نہیں رہے بلکہ ایک علامت بن چکے ہیں—اس ترقی کی علامت جو کمزوروں کو روند کر آگے بڑھتی ہے، اور اس نظام کی علامت جو طاقتور کے لیے نرم اور غریب کے لیے بے رحم ہے۔ جب تک اس طرزِ عمل پر سنجیدہ نظرِ ثانی نہیں کی جاتی، یہ ملبہ ہماری اجتماعی ناکامی کی گواہی دیتا رہے گا، اور یہ سوال بار بار اٹھتا رہے گا کہ کیا ہندوستان میں ترقی کی قیمت ہمیشہ غریب ہی کیوں ادا کرتا ہے؟۔

دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو، صبحِ بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا
haleemmansoor@gmail.com
(مضمون نگار معروف صحافی و تجزیہ نگار ہیں)



