مضامین

غیر اسلامی رسومات سے اجتناب اور سال کے آغاز کا اسلامی تصور

از:مفتی محمد عبدالحمید شاکر قاسمی

توپران ضلع میدک تلنگانہ

اسلام محض چند عبادات، مخصوص اذکار یا چند ظاہری اعمال کا نام نہیں، بلکہ ایک ہمہ گیر، جامع اور آفاقی نظامِ حیات ہے جو انسان کی فکری ساخت، قلبی کیفیات، اخلاقی سانچے اور معاشرتی رویّوں کو یکساں طور پر سنوارتا اور منضبط کرتا ہے۔ اسلام انسان کو صرف یہ نہیں بتاتا کہ وہ سجدہ کیسے کرے، بلکہ یہ بھی سکھاتا ہے کہ وہ وقت کو کیسے سمجھے، خوشی کو کیسے منائے، غم کو کیسے برداشت کرے اور زندگی کے بدلتے ہوئے ایّام میں اپنے ایمانی تشخص کو کیسے محفوظ رکھے۔

 

یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو ایک منفرد پہچان عطا کی ہے، جو ایمان، وقار، حیا، اعتدال، مقصدیت اور شعورِ آخرت سے عبارت ہے۔ جب کوئی امت اس تشخص سے غافل ہو جاتی ہے تو وہ آہستہ آہستہ دوسروں کے رنگ میں رنگنے لگتی ہے، یہاں تک کہ اس کی خوشیاں بھی مستعار ہو جاتی ہیں اور اس کے غم بھی بیگانہ فکر کے تابع ہو جاتے ہیں۔زمانہ گواہ ہے کہ نئے سال کا آغاز، جو محض وقت کے ایک مرحلے کی تبدیلی ہے، آج ایک منظم فکری یلغار کی صورت اختیار کر چکا ہے۔

 

اس موقع پر لہو و لعب، بے حیائی، اختلاط، موسیقی، آتش بازی اور گناہوں کو خوشی، ترقی اور جدیدیت کے دل فریب عنوانات کے تحت پیش کیا جاتا ہے، حالانکہ حقیقت میں یہ سب انسان کو غفلت، قلبی قساوت اور اخلاقی زوال کی طرف دھکیلنے کا ذریعہ ہیں۔ اسلام ایسے ہر رویّے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے جو انسان کو مقصدِ تخلیق سے غافل کر دے، کیونکہ قرآنِ کریم صاف اعلان کرتا ہے:

وَالْعَصْرِ، إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ۔

 

 

یہ آیت محض تلاوت کے لیے نہیں بلکہ فکر و تدبر کے لیے ہے۔ وقت اللہ تعالیٰ کی وہ امانت ہے جو خاموشی سے انسان کی عمر کو گھٹاتی رہتی ہے، اور ہر گزرتا لمحہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ انسان نے اسے اللہ کی اطاعت میں صرف کیا یا نفس کی پیروی میں ضائع کر دیا۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن بندے کے قدم اس وقت تک نہیں ہل سکیں گے جب تک اس سے اس کی عمر کے بارے میں سوال نہ کر لیا جائے کہ اس نے اسے کہاں صرف کیا۔ یہ حدیث انسان کو جھنجھوڑ دیتی ہے کہ سال کا آغاز کوئی جشن نہیں بلکہ ایک سوال ہے، ایک احتساب ہے، ایک خاموش تنبیہ ہے کہ زندگی کی ایک اور قسط ختم ہو گئی۔ افسوس کہ آج اسی لمحۂ احتساب کو غفلت کی محفل بنا دیا گیا ہے، اور وہ رات جو رب کے حضور جھکنے کی تھی، نفس کے سامنے جھکنے میں گزار دی جاتی ہے۔

 

اسلامی تقویم کا آغاز کسی بادشاہ کی تاج پوشی، کسی سلطنت کی فتح یا کسی رنگین جشن سے نہیں ہوا، بلکہ ہجرت جیسے عظیم واقعے سے ہوا، جو قربانی، استقامت اور وفاداری دین کی روشن علامت ہے۔ ہجرت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ حق کی خاطر وطن چھوڑنا بھی عبادت ہے، باطل نظام سے الگ ہونا بھی ایمان ہے اور دین کی حفاظت کے لیے تکلیف اٹھانا ہی اصل کامیابی ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے جب ہجری تقویم کا اجرا فرمایا تو گویا امت کو یہ پیغام دیا کہ مسلمان کا سال غفلت سے نہیں بلکہ ذمہ داری سے شروع ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تصور میں سال کا آغاز توبہ، محاسبہ اور تجدیدِ عہد کا موقع ہے، نہ کہ نفس پرستی اور گناہوں کی آزادی کا اعلان۔

 

نئے سال کی غیر اسلامی رسومات دراصل ایک تہذیبی منصوبے کا حصہ ہیں، جن کے ذریعے آہستہ آہستہ ایمان کی حرارت کو سرد کیا جاتا ہے اور حیا، غیرت اور دینی حمیت کو دقیانوسیت کا نام دے کر دلوں سے نکال دیا جاتا ہے۔ قرآنِ کریم اس فکری لغزش سے یوں خبردار کرتا ہے: وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ، إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ۔ شیطان کبھی کھلے کفر سے آغاز نہیں کرتا بلکہ تہوار، ثقافت اور تفریح کے نام پر قدم بہ قدم انسان کو اس راستے پر لے جاتا ہے جہاں گناہ معمول اور اطاعت اجنبی بن جاتی ہے۔

 

نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے: مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ۔ یہ حدیث محض لباس یا ظاہری مشابہت تک محدود نہیں بلکہ فکر، تہذیب، رسم و رواج اور خوشی و غم کے طریقوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرمایا کرتے تھے کہ جو قوموں کے تہوار مناتا ہے، اس کا دل آہستہ آہستہ انہی کی طرف جھک جاتا ہے۔ اکابر امت نے واضح کیا ہے کہ تشبّہ پہلے عمل میں داخل ہوتا ہے، پھر دل میں جگہ بناتا ہے اور آخرکار عقیدے کو کمزور کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیر اسلامی رسومات محض ایک رات کا مسئلہ نہیں بلکہ ایمان کے لیے ایک خاموش خطرہ ہیں۔

 

اسلام خوشی کا منکر نہیں، مگر وہ خوشی کو حدودِ شریعت کا پابند بناتا ہے۔ قرآن کہتا ہے: قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا۔ یعنی خوشی ہونی چاہیے، مگر اللہ کے فضل اور رحمت پر، نہ کہ اس کی نافرمانی پر۔ نبی ﷺ کی خوشی عبادت کے بعد ہوتی تھی، کسی گمراہ کے ہدایت پانے پر ہوتی تھی، کسی گناہگار کی توبہ پر ہوتی تھی۔ یہ وہ خوشی تھی جو دل کو نرم کرتی تھی، آنکھوں کو نم کرتی تھی اور انسان کو اللہ کے قریب لے جاتی تھی۔

 

سال کے آغاز پر ایک مومن کے دل میں سب سے پہلا سوال یہ ہونا چاہیے کہ گزشتہ سال میں میں اللہ کے کتنا قریب ہوا، میرے اخلاق میں کیا بہتری آئی، میری نماز، میرے معاملات اور میرے کردار نے مجھے جنت کے قریب کیا یا جہنم کے۔ حضرت عمرؓ کا قول ہے کہ اپنا حساب خود لے لو اس سے پہلے کہ تم سے حساب لیا جائے، اور حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ مومن اپنے نفس پر سب سے زیادہ سخت ہوتا ہے۔ یہی اسلامی فکر ہے، یہی سالِ نو کا اصل پیغام ہے۔

 

آج امتِ مسلمہ کا سب سے بڑا بحران عسکری یا معاشی نہیں بلکہ فکری اور تہذیبی ہے۔ جب مسلمان اپنی شناخت پر فخر کے بجائے احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جائے تو وہ دوسروں کے تہواروں کو ترقی اور اپنے دین کو رکاوٹ سمجھنے لگتا ہے، حالانکہ قرآن کا اعلان ہے: وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ۔ عزت اطاعت میں ہے، نقالی میں نہیں۔

 

ہر نیا سال دراصل ایک خاموش اعلان ہے کہ زندگی کم ہو رہی ہے، قبر قریب آ رہی ہے اور مہلت گھٹتی جا رہی ہے۔ عقل مند وہی ہے جو اس اعلان کو سن لے، اور باشعور مسلمان وہی ہے جو غیر اسلامی رسومات سے اجتناب کرتے ہوئے ہر نئے سال کو اللہ سے قرب کا ذریعہ بنائے، نہ کہ اس سے دوری کا سبب۔ اللہ تعالیٰ ہمیں وقت کی قدر، ایمان کی حفاظت اور اپنی تہذیبی شناخت پر استقامت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

متعلقہ خبریں

Back to top button