تلنگانہ

جہاں جہاں ممکن ہو اراضیات پر قبضہ کیا جائے۔کے کویتا کا جارحانہ موقف

حصول تلنگانہ کے باوجود ایک اور تحریک ناگزیر

جہد کاروں کے لئے انقلابی سرزمین کریم نگر سے زمینی جدوجہد کا آغاز

وظیفہ، فلاحی بورڈ اور 250 گز اراضی کی فراہمی کا پرزور مطالبہ

شہدائے تلنگانہ کے ساتھ انصاف وقت کا تقاضا۔ وعدوں کی عدم تکمیل پر کانگریس پر تنقید

جہاں جہاں ممکن ہو اراضیات پر قبضہ کیا جائے۔کے کویتا کا جارحانہ موقف

 

صدر تلنگانہ جاگروتی کلواکنٹلہ کویتا نے کہا کہ تلنگانہ ریاست حاصل ہونے کے باوجود آج ایک مرتبہ پھر تحریک کی نوبت آ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کریم نگر کی سرزمین پر جو بھی جدوجہد شروع ہوتی ہے وہ کامیاب ہو کر رہتی ہے اور آج تحریک کے کارکنوں کے لئے شروع کی گئی یہ زمینی جدوجہد بھی یقینی طور پر کامیاب ہوگی

 

۔کلواکنٹلہ کویتا نے واضح کیا کہ صرف کریم نگر ہی نہیں بلکہ ریاست کے تمام اضلاع میں اس وقت تک جدوجہد جاری رکھی جائے گی جب تک حکومت تحریک کے کارکنوں کو وعدے کے مطابق 250 گز اراضی فراہم نہیں کرتی۔ انہوں نے کہا کہ حیدرآباد اور رنگا ریڈی اضلاع میں قیمتی اراضیات موجود ہیں اور حکومت وہاں زمینیں فروخت کرنے کی کوشش کر رہی ہے،

 

مگر اس بات کو فراموش کر چکی ہے کہ تلنگانہ جہدکاروں کی جدوجہد اور قربانیوں کے ذریعے ہی ریاست حاصل ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ تلنگانہ بھوک، مشقت اور قربانیوں کے نتیجہ میں حاصل ہوا، کسی اور کی لڑائی سے نہیں۔ کارکنوں نے بونم، بتکماں، سڑکوں پر پکوان جیسی تحریکوں سمیت گاؤں گاؤں جا کر عوامی تحریک کو زندہ رکھا۔ ریاست کے قیام کے بعد بھی کارکنوں نے صبر کا مظاہرہ کیا، لیکن کانگریس پارٹی نے اقتدار کے حصول کے لئے کارکنوں سے وعدے کئے

 

، جن میں پنشن، فلاحی بورڈ اور 250 گز زمین شامل ہیں، مگر ان میں سے کسی ایک وعدے پر بھی عمل نہیں ہوا۔انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نہ تو تحریک کے کارکنوں کو عزت دی گئی اور نہ ہی شال پوشی کے ذریعہ تکریم کی گئی۔ شہیدان تحریک کے خاندانوں سے بڑے وعدے کئے گئے تھے، لیکن بارہ سو شہداء میں سے صرف 540 خاندانوں کو فائدہ پہنچایا گیا۔ قومی و ریاستی تقاریب جیسے 2 جون، 15 اگست اور 26 جنوری کو بھی شہداء کے خاندانوں کو یاد نہیں کیا گیا۔

 

کویتا نے کہا کہ اب تحریک کے کارکن متحد ہو چکے ہیں اور اپنی یکجہتی کا مظاہرہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم صرف خودداری کے ساتھ اپنا جائز حق مانگ رہے ہیں، یعنی پنشن، فلاحی بورڈ اور 250 گز زمین۔ گزشتہ بارہ برسوں میں کئی جہد کار انتقال کر گئے، بیمار ہونے پر بھی انہیں کوئی مدد فراہم نہیں کی گئی اور ان کے خاندانوں نے نہایت کٹھن حالات کا سامنا کیا۔انہوں نے الزام عائد کیا کہ تلنگانہ مخالف عناصر تحریک کی پارٹی میں شامل ہو کر کارکنوں پر بالادستی قائم کرتے ہوئے جھوٹے مقدمات درج کرواتے رہے۔ یہاں تک کہ سکریٹریٹ جانے پر کارکنوں کو ذلیل کیا گیا اور دھمکیاں دی گئیں۔

 

کانگریس پارٹی نے تحریک کے کارکنوں کو فائدہ پہنچانے کے وعدے پر اقتدار حاصل کیا، مگر تاحال ان وعدوں پر ایک بھی واضح اعلان سامنے نہیں آیا۔انہوں نے کہا کہ صرف درخواستیں طلب کی جا رہی ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ جہدکاروں پر مقدمات ہیں، حالانکہ ہر کارکن پر کیس ہونا ممکن نہیں۔ جس گاؤں اور ضلع میں جائیں، وہاں کے عوام بخوبی جانتے ہیں کہ حقیقی تحریک کے جہد کار کون ہیں۔

 

حکومت کو چاہئے کہ عوام کی نشاندہی کے مطابق ہی وعدے پورے کرے۔کویتا نے واضح الفاظ میں کہا کہ نئی کمیٹیوں کے نام پر وقت گزاری قبول نہیں کی جائے گی۔ تحریک کے جہد کاروں کے فورم کی فراہم کردہ فہرست کے مطابق ہی شناخت کی جائے اور اسی ڈیٹا کو وزیر اعلیٰ کے دفتر کے سامنے رکھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جب جدوجہد کے ذریعہ تلنگانہ حاصل کیا جا سکتا ہے تو پانچ ایکڑ زمین حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں

 

۔انہوں نے اعلان کیا کہ حکومت کے جھکنے تک جدوجہد جاری رہے گی اور یہ ایک پرامن تحریک ہوگی۔ ساتھ ہی انہوں نے تحریک کے کارکنوں سے اپیل کی کہ جہاں جہاں ممکن ہو، زمینوں پر قبضہ کرتے ہوئے جدوجہد کو آگے بڑھائیں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ارباب مجاز اس مسئلہ کا حل پیش نہیں کرتے، یہ تحریک جاری رہے گی۔

متعلقہ خبریں

Back to top button