بزنس

جی ایس ٹی کے تحت اگلے سلسلے کی اصلاحات صحیح وقت پر صحیح اصلاحات

از قلم: سنجے کمار اگروال

چیئرمین مرکزی بورڈ آف ڈائریکٹ ٹیکسز اینڈ کسٹمز (سی بی آئی سی)

79ویں یومِ آزادی کے موقع پر محترم وزیرِ اعظم نے جہاں اشیا اور خدمات ٹیکس (جی ایس ٹی) کے نفاذ کی اہمیت پر روشنی ڈالی، وہیں اس بات پر بھی زور دیا کہ عام آدمی، کسان، متوسط طبقہ اور ایم ایس ایم ای کے مفادات کو مدِنظر رکھتے ہوئے جی ایس ٹی میں اگلے سلسلے کی اصلاحات ناگزیر ہیں۔ حال ہی میں 56ویں جی ایس ٹی کونسل کی منظوری سے یہ اصلاحات بھارت کے بالواسطہ ٹیکس نظام میں تبدیلی کی تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔

اس مضمون کے ذریعے، میں ان اصلاحات کے پس منظر میں موجود بنیادی اصولوں، ان کے خاکے اور اس وژن کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہا ہوں جس کی بنیاد پر ایک زیادہ مستحکم، منصفانہ اور ترقی پر مبنی ٹیکس نظام تشکیل پائے گا۔ جی ایس ٹی اصلاحات کا یہ عمل تین آپس میں جڑے ہوئےستونوں پر قائم ہے: ساختی اصلاحات، شرحوں کی معقولیت، اور ٹیکس دہندگان کے لیے زندگی کو آسان بنانا۔

بنیادی اصلاحات کو مرتب کرتے وقت اس بات پر خاص توجہ دی گئی کہ شرحوں کے زمرے کی تعداد کم کی جائے تاکہ ٹیکس سے متعلق غیر یقینی صورتحال ختم ہو۔ اصولی طور پر اشیاء اور خدمات پر ایک معیاری شرح سے ٹیکس عائد ہونا چاہیے، جبکہ عام آدمی کی روزمرہ ضروریات پوری کرنے والی بعض اشیاء پر کم "مراعاتی” ٹیکس لگایا جائے۔ اسی طرح "مضر” سمجھی جانے والی اشیاء یا پرتعیش سامان پر زیادہ "خصوصی” شرح سے ٹیکس عائد کیا جانا چاہیے۔

ماضی کے تنازعات کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی کہ زیادہ تر تنازعات درجہ بندی اور شرح کے معاملے میں خوراک کے شعبے اور آٹو موبائل پرزہ جات سے متعلق تھے۔ خوراک کی اشیاء کی درجہ بندی ایک مشکل پہلو ہے کیونکہ مارکیٹ میں ایک ہی نوعیت کی کئی ملتی جلتی اشیاء موجود ہیں۔ کیرملائزڈ اور نمکین پاپ کارن کے تنازعے سے لے کر مالابار پراٹھا، مختلف ذائقے کے دودھ، رَوَہ اِڈلی مکس، فرائمز اور پاپڑ جیسے معاملات تک، یہ شعبہ ٹیکس کے ابہام سے بھرا رہا ہے۔

ایک مثال بکلاوا کی ہے، جو تیزی سے مقبول ہورہا ہے۔ اسے کوئی "شوگر کنفیکشنری” مان سکتا ہے تو کوئی "بیکری پروڈکٹ” — یہ اس بات پر منحصر ہے کی اس غذائی شئے کو کس نظر سے دیکھا جائے۔ لہٰذا ان اصلاحات کا مقصد خوراک کے شعبے کے لیے ایک ہی ٹیکس شرح متعارف کرانا ہے تاکہ شبہات ختم ہوں اورمعاملات واضح ہوں۔

گاڑیوں کے شعبے میں بھی تنازعات دیکھنے کو ملے ہیں، خاص طور پر آٹو پارٹس کی درجہ بندی کے معاملے میں۔ اکثر یہ تنازعات سپریم کورٹ تک پہنچے، لیکن اس کے باوجود ان کی درجہ بندی میں ابہام برقرار رہا۔ اس شعبے میں ایک یکساں شرح متعارف کرانے سے صنعت کو بہت بڑی راحت ملے گی، صنعت کا اعتماد بڑھے گا اور مقدمہ بازی میں کمی آئے گی۔

ایک مستقل مسئلہ انورٹیڈ ٹیکس کا نظام ہے، جس میں خام مال پر ٹیکس کی شرح تیار شدہ اشیاء سے زیادہ ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں "ان پٹ ٹیکس کریڈٹ” جمع ہوتا رہتا ہے۔ بعض اوقات یہ بالواسطہ ٹیکس کا یہ ڈھانچہ ناگزیر ہوتا ہے کیونکہ تیار شدہ مصنوعات اپنی نوعیت یا استعمال کی وجہ سے معیاری شرح کے بجائے مراعاتی شرح پر ٹیکس کے دائرے میں آتی ہیں ، جبکہ خام مال ایسی نوعیت کا ہوتا ہے کہ وہ صنعت کے کئی شعبوں میں استعمال ہوسکتا ہے۔ ایسے خام مال پر مراعاتی شرح نافذ کر کے ٹیکس کے اس ڈھانچے کو درست کرنے میں اپنی پیچیدگیاں ہیں۔

تاہم جہاں ممکن ہوا، ٹیکس کے انورٹیڈ نظام کو درست کر دیا گیا ہے — خاص طور پر ایسے معاملات میں جہاں خام مال زیادہ تر ایک ہی صنعت میں استعمال ہوتا ہے، جیسے کھاد کی صنعت ۔

ایسے شعبوں میں جہاں ایم ایس ایم ای کی بڑی موجودگی ہے، الٹے ڈیوٹی ڈھانچے کا اثر اور بھی زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ٹیکسٹائل صنعت، جو 4 کروڑ 50 لاکھ سے زیادہ افراد کو روزگار فراہم کرتی ہے، نہایت متنوع ہے — ہاتھ سے کاتا اور بُنا ہوا سامان بنانے سے لے کر بڑے کارخانوں تک۔ کپڑوں پر اپنی نوعیت کے لحاظ سے 5فیصد کی مراعاتی شرح لاگو ہوتی ہے۔ ٹیکسٹائل شعبے کے قدرتی ریشے والے حصے میں انورٹیڈ ٹیکس کا ڈھانچہ موجود نہیں ہے، تاہم مصنوعی ریشے والے حصے میں یہ ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔

پوری ویلیو چین میں ٹیکس کے انورٹیڈ ڈھانچے کو درست کرنا ممکن نہیں کیونکہ اس سے محصولات پر بڑے اثرات پڑ سکتے ہیں۔ البتہ یہ ضرور یقینی بنایا گیا ہے کہ انورٹیڈ ٹیکس ایسی سطح پر آئے جس سے ایم ایس ایم ای پر غیر ضروری بوجھ نہ پڑے اور اس محنت طلب شعبے میں روزگار اور نقدی کی فراہمی متاثر نہ ہو۔ توازن قائم کرنے کے لیے،انورٹیڈ ٹیکس کا مرحلہ وہاں رکھا گیا ہے جہاں مینوفیکچرنگ کا عمل کیمیکل/پیٹرو کیمیکل سیکٹر سے ٹیکسٹائل سیکٹر میں منتقل ہوتا ہے۔

مزید یہ کہ اس مرحلے پر بھی سہولت دینے کے لیے مرکزی ٹیکس انتظامیہ نے آئی ڈی ایس کے تحت رقم کی واپسی کے عمل کو بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دی ہے۔

جب شرحوں کی معقولیت پر غور کیا جا رہا تھا تو اسے عام آدمی اور متوسط طبقے کی امنگوں کا عکس سمجھا گیا۔ اسی کے تحت عوامی استعمال کی اشیاء اور ضروری سامان پر شرحیں کم کرکے انہیں "مراعاتی شرح” کے دائرے میں لایا گیا، تاکہ زیادہ سے زیادہ آبادی کے لیے یہ اشیاء سستی ہوں اور اس طرح انکی مانگ میں بھی اضافہ ہو۔

یہ تمام اصول مل کر شرحوں کی معقولیت کے عمل کی بنیاد فراہم کرتے ہیں اور اس اصلاحی اقدام کو جامع اور ترقی پر مبنی دوراندیش نظریہ کے ساتھ مضبوطی سے جوڑتے ہیں۔

ان اصلاحات کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ یہ بالواسطہ طور پر بھارتی معیشت کی مضبوطی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اس وقت بھی یہ اصلاحات بالکل موزوں ہیں کیونکہ حکومت کو اب وہ مالی گنجائش حاصل ہوگئی ہے جو مختلف اشیاء پر عائد "کمپنسیشن سیس” ختم ہونے کے بعد خالی ہوئی۔ جولائی 2022 کے بعد سے کمپنسیشن سیس کی وصولی ریاستوں کو منتقل نہیں ہو رہی بلکہ کووِڈ وبا کے دوران محصولات میں خسارہ پورا کرنے کے لیے لیے گئے قرض کی ادائیگی میں استعمال ہو رہی ہے۔ اب یہ ادائیگیاں تقریباً مکمل ہو چکی ہیں اور اس طرح ریاستوں اور مرکز دونوں کے لیے جی ایس ٹی محصولات بڑھانے کے لیے مالی گنجائش پیدا ہوگئی ہے۔

سیمنٹ پر ٹیکس کی شرح 28 فیصد سے کم کرکے 18 فیصد کرنے کا فیصلہ اس بات کی علامت ہے کہ اب صرف "محصولاتی فکر” پر مبنی فلسفے سے آگے بڑھ کر اصلاحات کی جا رہی ہیں۔ جی ایس ٹی کونسل کے لیے عام آدمی کے مفادات کو قلیل مدتی ٹیکس وصولیوں کے اعداد و شمار پر فوقیت دی گئی ہے۔ یہ اسی معاشی فلسفے کے مطابق ہے کہ عام آدمی کے ہاتھ میں پیسہ دینا تیز تر معاشی ترقی کا باعث بنتا ہے اور بالآخر ٹیکس کی مضبوط حصولیابی کی ضمانت بنتا ہے۔

تیسرا ستون اس رہنما اصول کے گرد گھومتا ہے کہ ٹیکس دہندگان کے جی ایس ٹی نظام کے ساتھ ہر مرحلے پر تعامل کو آسان بنایا جائے۔ اس دائرے کی اصلاحات کا ہدف رجسٹریشن اور ریفنڈ ہیں تاکہ ٹیکس دہندگان کو کم سے کم مسائل کا سامنا ہو اور ان کے سرمائے پر بلا وجہ دباؤ نہ پڑے۔

ایسی سہولت خاص طور پر ایم ایس ایم ای اور چھوٹے ٹیکس دہندگان کے لیے نہایت اہم ہے۔ طریقہ کار کو آسان بنا کر یہ اصلاحات ٹیکس دہندگان کو جی ایس ٹی نظام میں رضاکارانہ شمولیت کی ترغیب دیتی ہیں اور ٹیکس دہندگان اور انتظامیہ کے درمیان اعتماد کومستحکم کرتی ہیں۔

بھارت، جو پہلے ہی دنیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت ہے، آج مضبوط گھریلو طلب کے ثمرات حاصل کر رہا ہے۔ ایک متغیر اور غیر یقینی عالمی اقتصادی منظرنامے کے تناظر میں گھریلو سطح پر اقتصادی پائیداری کو مضبوط بنانا ناگزیر ہو گیا ہے۔ یہ اصلاحات بھارت کو بیرونی جھٹکوں سے بچانے، ترقی کی رفتار کو برقرار رکھنے اور دنیا کے ساتھ ایک مضبوط پوزیشن میں تعلق قائم کرنے کی صلاحیت کو مزید بڑھا سکتی ہیں۔

دراصل یہ اصلاحات بڑے قومی وژن آتم نربھر بھارت (خود کفیل بھارت) کی تعمیر میں رول ادا کرنے کی کوشش ہیں۔ ٹیکس کے عمل کو آسان بنانا، شرحوں کو معقول بنانا اور پالیسیوں میں استحکام لانایہ سب مل کر ایک ایسا ٹیکس نظام تشکیل دیتے ہیں جو جامع ، ترقی پر مبنی اور پائیدار ہے۔

یہ پالیسی سطح کی تبدیلیاں اہم شعبوں کو مضبوط کرنے اور معاشی سرگرمی کو فروغ دینے کے لیے وضع کی گئی ہیں۔

(مصنف کے خیالات ذاتی ہیں)

متعلقہ خبریں

Back to top button