مضامین

60 + لوگ قوم کا بہترین سرمایہ۔ یہ کس طرح ایک تحریک برپا کرسکتے ہیں

ڈاکٹر علیم خان فلکی

سنسس رپورٹ جو گوگل پر دستیاب ہے، کہتی ہے کہ سوسائٹی میں 60+ لوگوں کا فیصد 18 ہے۔ یعنی اگر کسی شہر کی آبادی ایک کروڑ ہے تو ان میں 18 لاکھ لوگ 60+ ہیں۔ عام طور پر یہ لوگ ایک بوجھ تصوّر کئے جاتے ہیں بالخصوص جب وہ کمائی کے نہیں رہتے۔ لیکن اِن 18 لاکھ میں سے کم سے کم ایک لاکھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو قوم کا ایک بہترین سرمایہ بن سکتے ہیں۔جن کے پاس بہت قیمی وقت، تجربہ، تعلقات اور قومی جذبہ ہوتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ان کی خدمات حاصل کرنے کے لئے قوم میں کوئی منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ صرف مشورے دینے یا پھر اعتراضات کرنے کی حد محدود ہوجاتے ہیں۔ اور کئی ایسے ہوتے ہیں جو اپنی ملّت کے لئے تو کچھ نہیں کرتے لیکن بیٹوں اور دامادوں کے لئے مال جمع کرتے کرتے ایک دن مرجاتے ہیں۔ ہاں نمازیں، عمرے اور انفاق تو کرتے ہیں لیکن اپنی مِٹتی ہوئی قوم کی تہذیب، زبان، دین، ادب، اخلاقیات اور اکنامی،تاریخ، دعوت وغیرہ کے معاملے میں بالکل کورے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج پوری قوم جن سیاسی، سماجی اور معاشی حالات سے گزر رہی ہے اِس کا سب کو علم ہے۔ 60+ لوگ چاہے وہ امیر ہوں کہ غریب، شہری ہوں کہ دیہاتی، اگر یہ لوگ اپنی طاقت کا اندازہ لگالیں اور ارادہ کرلیں تو ایک انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔ یہ کس طرح ہوگا اِس کے لئے اپنے علاقے کے تمام 60+ لوگوں بلکہ 50+ لوگوں کو جمع کرکے ایک ورکشاپ کا انعقاد عمل میں لانا ضروری ہے جو کم سے کم چار گھنٹے کا ہوگا۔ اس سے کئی فائدے ہوں گے، سب سے پہلے تو یہ کہ لوگوں کے ذہنوں سے مایوسی اور دشمن سے خوف ختم ہوجائیگا، اور یہ احساس پیدا ہوگا کہ اگر کام کرنے کے لئے معاون مل جائیں تو ہر ہر شخص بہت کچھ کرسکتا ہے۔ اِس وقت اگرچہ کہ ہمارے گھر اور مسجدیں بُلڈوز کی جارہی ہیں، لیکن دشمن پھر بھی اتنا نقصان نہیں پہنچارہے ہیں جتنا نقصان یہ سوچ ہمیں پہنچارہی ہے کہ ”ہم پر ظلم ہورہا ہے، ہم کچھ نہیں کرسکتے، ہمارا کوئی لیڈر نہیں ہے، ہم میں اتحاد نہیں ہے“ وغیرہ وغیرہ۔ اِس سوچ کو ختم کرنا ہمارا سب سے بڑا ہدف ہے۔ ایک بار آدمی کو یہ یقین ہوجائے کہ وہ کچھ کرسکتا ہے تو پھر وہ بہت کچھ کرسکتا ہے، ورنہ آج کے بے شمار 50+ لوگوں کی طرح صرف مایوسی اور بزدلی کی باتیں کرتا رہتا ہے۔ ایک بات یاد رہے کہ یہ عمر زندگی کا آخری حصہ ہے۔ اب تک ہم نے ماں باپ بہن بھائیوں کے لئے، اولاد کے لئے، دامادوں کو خریدنے کے لئے بہت کچھ کیا۔ اب اِس عمر کا ایک ایک لمحہ امت کی امانت ہے۔ اگر اِس امانت کا حق ادا نہ کرسکے وہی حیلے بازیاں کرتے رہے جو جوانی سے آج تک کرتے آرہے ہیں تو بخدا یہ خیانت ہے اور ایک حدیث میں ہے کہ منافق کی پہچان یہ بھی ہے کہ وہ امانت میں خیانت کرتا ہے۔ ہم جن کے لئے پوری پوری عمر لگادیتے ہیں، کل وہ آپ کی قبر پر دعا پڑھنے بھی نہیں آئیں گے ہاں آپ کے چھوڑے ہوے مال سے فائدہ ضروراٹھاتے رہیں گے۔ یقین نہ آئے تو اپنے قریب کے کسی قبرستان جاکر دیکھ لیجئے کہ تمام قبریں انہی لوگوں کی ہیں جنہوں نے ہماری طرح اپنی پوری عمر اپنے خاندان کی ترقی کے لئے لگادی۔ ان کے لئے جھوٹ، رشوت، دھوکہ، سب کچھ کیا، لیکن کتنی قبروں پر اب ان کے خاندان والے آکر ایک بار بھی دعا کرتے ہیں؟ کل جب آپ کے اپنے اتنے خود خرض ہوجانے والے ہیں تو کیا اب آپ کو اپنی آخرت کے لئے سب سے خود غرض نہیں ہوجانا چاہئے؟ یوم یفرالمرءُ من اخیہ و بنیہ۔۔۔۔ اس آیت کی یہی تفسیر ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور بات یاد رکھنے کی ہے جو کہ مولانا سجاد نعمانی صاحب نے فرمائی ہے کہ ”اگرتم پچاس سال بھی تہجد، نماروں، روزوں، زکوٰۃ وخیرات اور عمروں کی ادائیگی کرتے رہے لیکن ملک کے حالات سے بے خبر رہے اور اپنی ذمہ داری کا نہ احساس کیا نہ اُسے پورا کرنے کی کبھی کوشش کی تو تمہاری دینداری کچھ کام نہیں آئیگی“۔

اب وقت آگیا ہے کہ ہم لوگ قوم کے حالات، اس کا ماضی، حال اور مستقبل کو اچھی طرح سمجھیں اور اپنی ذمہ داریاں جس حد تک بھی ہو نبھانے کا عزم کریں۔ ہمارے باپ دادا نے کبھی اس کا احساس نہیں کیا جس کے نتیجے میں آج سوائے چند ایک کہ ہماری اکثریت غربت افلاس اور اخلاقی گراوٹوں کے ساتھ ساتھ غیروں کے ہاتھوں ہر روز ذلت و ہزیمت کا شکار ہورہی ہے، کل ہماری نسلیں اس سے کہیں زیادہ شکار ہوں گی اور ہم کو کوسیں گی۔ ایک بات اچھی طرح یاد رہے کہ ہریجن سینکڑوں سال غلام رہے، اب وہ تعلیم یافتہ ہوچکے ہیں اور برہمن سے بغاوت کررہے ہیں۔ لیکن برہمن کے پاس بھی ہریجنوں کا متبادل تیار ہے۔ وہ مسلمانوں کو ہریجن کی جگہ لانے کی مکمل منصوبہ بندی کرچکا ہے، اسی لئے مسلمانوں کو تعلیم، روزگار، سرکاری ملازمتوں، اسمبلی، پارلیمنٹ، عدلیہ اور کاروبار ہر ہر جگہ سے دور کیا جارہا ہے۔ پوری قوم ڈرائیوروں، کلرکوں، سیلزمنیوں، مولویوں ملّاوں اور نشہ آوروں کی بنتی جارہی ہے۔ آپ کی قوم فحاشی، آوارہ گردی، جیلوں میں تعداد اور مختلف جرائم میں کتنی آگے جارہی ہے، آپ کو اس کا اچھی طرح اندازہ ہے۔ اگر ہم بھی اپنے باپ دادا کی طرح مجبور ہونے کا بہانہ کرکے سمجھتے ہیں کہ ہماری نسلیں آگے بڑھیں گی تو بہت بڑی غلط فہمی میں ہیں۔ کل ہماری نسلیں دوسرے یا تیسرے درجے کے شہریوں کی ہوگی۔ آج اگر آپ کچھ کرنے کے بیج بونے کے لئے آگے بڑھ سکتے ہیں تو کل ہماری نسلیں اس کی فصلیں کاٹیں گی ورنہ بقول علامہ اقبال

نہ سمجھوگے تو مٹ جاو گے ائے ہندوستاں والو

تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

اس ورکشاپ میں کئی اہم امور پر روشنی ڈالی جائیگی۔ اگر آپ لوگوں نے ساتھ دیا تو انشاء اللہ اگلی ورکشاپ میں عملی طور پر کس ظرح کام کرنا ہے اس پر کم سے کم تین روزہ پروگرام ہوگا۔ کئی اہم کام ہیں جو 60+ کرسکتے ہیں۔ ایسے کام جن کی قوم کو آج شدید ضرورت ہے۔ جیسے

1۔میں کیا کرسکتا ہوں؟

مشوروں، تبصروں، اعتراضات اور مایوسی کی باتوں کی عادت کو ختم کرکے کیسے مثبت کاموں میں لگایا جائے۔

2۔ جماعت یا حبل اللہ کیا ہے؟

ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی ایک ویڈیو ٹوٹیوب پر ضرور سماعت فرمایئے جس کا ٹائٹل ہے ”اس حدیث کو کیوں چھپایا گیا؟“۔ جماعت Mass strength کو کہتے ہیں۔ جس کے بارے میں امبیڈکر نے کہا تھا کہ Mass strength is the master-key for power۔ یہ کس طرح پیدا ہوتی ہے۔ اگر آپ کے ساتھ عوام نہ ہو تو سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر آپ کا کیا انجام ہوتا ہے؟ ان امور پر تفصیلی روشنی ڈالی جائیگی۔

3۔ ملک کی اکثریت سے تعلقات

کیا آپ اِس ملک میں اپنے دین اور اپنی شناخت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں؟ اگر چاہتے ہیں تو پھر اکثریت کے ساتھ آپ کو تعلقات مضبوط بنانے ہوں گے۔ ان تک دین پہنچانا بھی ضروری ہے، ان کو دین کا سیاسی، معاشی اور سماجی تصور بھی سمجھانا ناگزیر ہے۔ ورنہ ہوگا یہ کہ چند ایک لوگ اپنے ذاتی مفادات کی خاطر دشمنوں سے ہاتھ ملالیں گے، اور جن کو سیاسی شعور نہیں وہ پورے پِس جائیں گے۔ نہ شریعت باقی رہے گی نہ امت۔ اکثریت میں کام کرنے کیا طریقہ ہے؟

4۔اصلی دشمن کون ہے؟

اسلام اور مسلمانوں کا اصلی دشمن کون ہے جو ہمیں ہندوستان میں ختم کرنا چاہتا ہے؟ اس کی تاریخ کیا ہے، اس کے مستقبل کے کیا منصوبے ہیں؟

5۔چھوٹی چھوٹی آرگنائزیشنس کی کثرت

آج ہر شہر میں جماعتوں، آرگنائزیشنس، انجمنوں اور اداروں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ جو بھی ذرا سمجھدار اور تعلیم یافتہ ہوتا ہے یا ذرا مالدار ہوجاتا ہے، دو چار کارکنوں کو لے کر اپنی ایک آرگنائزیشن بنا کر خود شروع ہوجاتا ہے۔ہر ہر شخص خود ایک خودساختہ لیڈر، عالم، انٹلکچول اور مسیحا ہے۔ سارے امام بننا چاہتے ہیں، مقتدی کوئی نہیں۔ اس قوم کا انجام کا کیا ہوگا؟ اس رجحان کو کیسے ختم کیا جائے؟

6۔ شادیاں یا بربادیاں

آج فاشسٹ جتنا نقصان پہنچارہے ہیں اس سے کہیں زیادہ نقصان ہم لوگ خود شادیوں کے نام پر ایک دوسرے کو پہنچارہے ہیں۔ اس کے ذمہ دار سب سے پہلے مولوی ہیں۔ یوں تو سنّتوں سے محبت کے نام پر ہم لوگ مسجدیں الگ کرچکے ہیں۔ لیکن شادی کے معاملے میں ہم نے سنت کو مکمل فراموش کردیا ہے۔ مہر کی شرعی حیثیت واجب کی ہے، لیکن انتہائی چالاکی اور مکاری سے جہیز اور کھانوں کو ”خوشی سے“ جائز کرکے مہر کی اہمیت کو دفن کردیا۔اس کے نتیجے میں ایک عام آدمی اگر اپنی ایک دو بیٹیوں کی بھی شادی کرے تو کیا زندگی میں وہ کبھی ترقی کرسکتا ہے؟ ان شادیوں کو کیسے روکا جائے؟

7۔ مسجدوں کی انتظامی کمیٹیاں اور جمعہ کے خطبے

اسلام نے قوم کی تربیت کے لئے خطبہ کا ایک بہترین ٹول دیا تھا، لیکن ہماری کمیٹیوں نے اس ہتیار کو دفن کردیا اور منبر کو مسلکی اور جماعتی اکھاڑوں میں تبدیل کردیا۔ انتظامی کمیٹیوں کی اصلاح کیسے ہوسکتی ہے؟

8۔ طلاق و خلع اور وراثت کے جھگڑے

پارلیمنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق سوسائیٹی میں طلاق 1% ہیں لیکن شادی کے بعد کے جھگڑے 60% ہیں۔ اسی طرح وراثت کے جھگڑے ہیں۔ہر پانچواں گھر کسی نہ کسی کیس کا شکار ہے۔ انگریزوں نے قاضیوں کے Judicial powerختم کردیئے تھے، وہی قانون آج تک چلاآرہا ہے۔ جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی دولت پولیس، وکیل، عدالتوں اور غنڈوں کی نذر ہورہی ہے۔شادی سے پہلے Pre-marriage counselling نہ ہونے کے نتیجے میں کس طرح خاندان جھگڑوں میں مبتلا ہیں۔ ان کا تدارک کیسے ہوگا۔

9۔ کالجس کی کمی

سوائے چند شہروں کے کسی شہر یا دیہات میں ہماراکوئی کالج نہیں۔اگر ہیں بھی تو صرف انٹر تک۔ اس کے نتیجے میں مسلمان لڑکے اورلڑکیوں کی اکثریت شہروں کو کوچ کررہی ہے۔ شہروں میں حجاب کو ختم کرکے انہیں مکمل بے دین اور گمراہ بنایا جارہا ہے۔ دوسری طرف یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ شہر تو درکنار گاؤں اور دیہاتوں میں ایسے ایسے لوگ ہیں جو اپنے گھروں کی شادیوں پر کئی کئی لاکھ خرچ کرتے ہیں، لیکن اپنے علاقے میں ایک کالج نہیں بناتے۔ یہ اُن بے حِس امیروں کا قصور نہیں بلکہ ہمارا قصور ہے۔ ہمارے پاس ایسا کوئی منصوبہ نہیں جس کے ذریعے اُن میں ہم کالج قائم کرنے کا شعور بیدار کرسکیں۔ ہم یہ کام کس طرح کرسکتے ہیں؟

10۔ عورتوں میں سوچ کی تبدیلی

اگر غور کریں تو ہماری سوسائٹی میں عورتوں کی اکثریت کا مقصدِحیات شادی، بچے پیدا کرنا، ان کو بڑا کرنا، پھر ان کی شادیاں کرنا اور پھر ان کے بچوں کو دیکھنا۔ ہاں رسمی عبادتیں بھی ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ لیکن نہ وہ زندگی کے شعور سے واقف ہیں، نہ قومی حالات سے اور نہ صحیح دین سے۔ حیرت تو یہ ہے کہ کالج سے فراغ خواتین بھی اگرچہ ذرا اونچی سطح کی لائف اسٹائل ضرور رکھتی ہیں، لیکن ان کے پاس بھی کوئی شعورنہیں۔ پوری زندگی کپڑے، دعوتوں، زیور اور مال کی ہوس کے اطراف گھومتی ہے۔ ان میں حقیقی اسلام کی روح بیدارکرنا اور مجاہدوں کو پیدا کرنے والے شعور کو بیدار کرنے کی منصوبہ بندی کا ہمارے ہاں دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں۔ جس کے نتیجے میں آپ دیکھ رہے ہیں کہ غیرقوم کی عورتیں اپنے حقوق کی جنگ لڑنے میں مردوں کے شانہ بہ بشانہ چل رہی ہیں لیکن ہماری خواتین یوں تو بازار، اسکول، دواخانہ، کالج، یونیورسٹی، ٹرین، بس، ہوائی جہاز ہر جگہ تنہا بھی جاتی ہیں اور کئی کام کرتی ہیں لیکن جہاں قومی یا دینی کام آتے ہیں، وہاں بیچ میں پردہ آجاتا ہے جس کی وجہ سے عورتیں ملیّ تحریکوں سے بہت دور ہیں۔ہم نے خود عورتوں کو ملّت سے دور کیا ہے۔ ورکشاپ میں اس پر بہت تفصیلی گفتگو ہوگی۔

11۔ سوشیل میڈیا

دشمن صرف سوشیل میڈیا کے ہتیار کو استعمال کرکے لاکھوں بلکہ کروڑوں ذہنوں میں فاشزم بھرچکا ہے لیکن بہت افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے فارغ حضرات سوائے واٹس اپ فاورڈ کرنے کے اور کچھ نہیں کرتے۔ یہ لوگ چاہیں تو سوشیل میڈیا پر بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ اس کے لئے ایک الگ سے ورکشاپ کی بھی ضرورت پڑے گی۔

اس کے علاوہ بھی کئی کام ہیں جو ہم عمررسیدہ جہان دیدہ لوگ کرسکتے ہیں۔ ہر کام ہر ایک کے بس کا نہیں لیکن اپنے اپنے مزاجوں کے مطابق ہر شخص ایک ایک فیکلٹی میں داخل ہوکر اپنی سوچ اور اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے کام کرسکتا ہے۔ہم ورکشاپ میں Presentation دیں گے۔ اپنے خرچ پر آئیں گے اور اپنے خرچ پر ٹھہریں گے۔ ہاں جگہ، چائے سینڈوِچ کا انتظام آپ حضرات کو کرنا ہے۔ ساؤنڈ سسٹم اور ایک بڑے وائٹ بورڈ کا بھی انتظام ہونا لازمی ہے۔ اس کا خیال رکھا جائے کہ جو وقت طئے ہو لوگ اس کی پابندی کریں، کیونکہ دیر سے آنے کی بیماری ہماری قوم میں عام ہے۔ خصوصیت کے ساتھ یہ درخواست ہے کہ خواتین کو بھی مدعو کیا جائے کیونکہ ہمارا تجربہ ہے کہ ایک خاتون اگر کام کرنے کا عزم کرلے تو وہ چار مردوں کے برابر کام کرسکتی ہے۔

نوٹ: کم سے کم سو افراد اگر شرکت کرسکتے ہوں تو ورکشاپ منعقد کیجئے۔ یہ ناممکن نہیں اگر دو چار لوگ مل کر صحیح کام کریں۔ کوشش یہ ہو کہ زیادہ سے زیادہ وہ لوگ جو خدمتِ خلق، اصلاحِ معاشرہ، ایجوکیشن، گورنمنٹ سرویسس، تجارت یا صحافت سے تعلق رکھتے ہوں وہ شریک ہوں۔ اگر مدرسوں سے فارغ یا مسلکوں، عقیدوں یا دینی جماعتوں سے وابستہ افراد بھی شریک ہوں تو بہت خوش آئند بات ہے لیکن بدقسمتی سے ان کے ذہنوں میں پہلے سے اتنے تحفظات بلکہ قفل ڈال دیئے جاتے ہیں کہ یہ صرف اور صرف اپنے ہی گروہ کوعلی الحق سمجھتے ہیں۔ یہ اپنے اکابرین اور مرشدین کے درپردہ مفادات سے واقف نہیں ہوتے۔ جس طرح ہریجن صدیوں سے پنڈت ہی کے پیچھے چل رہا ہے، ہماری اکثریت بھی اپنے پنڈتوں کے پیچھے ہی چلنا چاہتی ہے۔ہمارا عقیدہ بھی یہی ہے کہ جو بھی کریں گے ہمارے بزرگ ہی اپنی دعاوں، وعظوں اور کرامات سے کریں گے، ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر آپ اپنے علاقے میں اس ورکشاپ کو منعقد کرنے کے خواہاں ہوں تو 9642571721 پر ہم سے رابطہ قائم فرمائیں۔

ڈاکٹر علیم خان فلکی

صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد

9642571721

 

 

متعلقہ خبریں

Back to top button