سکوں کی جھنکار میں تو نہ ہو مست مگن!

واہ رے انسان تیری خود غرضی کا کیا کہنا، تیرے مکر و فریب کا کیا کہنا، تیرے نمائشی انداز کا کیا کہنا، تیری بے رخی اور بے وفائی کا کیا کہنا اور تیرے سخت لہجے و سنگدلی کا کیا کہنا لگتا ہے تجھے مرنا ہی نہیں ہے چند سکوں کی جھنکار میں اتنا مست مگن ہوگیا کہ رشتہ داروں کا بھی خیال نہیں، پڑوسیوں کا بھی خیال نہیں، سماج کا بھی خیال نہیں، یتیموں اور بیواؤں و مسکینوں کا بھی خیال نہیں تجھے شیخی بگھاڑ نے سے فرصت نہیں، اپنے منہ اپنی تعریف سے فرصت نہیں، خود کو برتر اور دوسروں کو کمتر سمجھنے لگا حج پر حج کرنے لگا، عمرے پر عمرہ کرنے لگا پڑوسی بھوکا سورہا ہے کوئی پرواہ نہیں، بہت سے گھروں کے چولہے میں آگ نہیں جلتی ہے کوئی پرواہ نہیں خود حاجی صاحب کا کار ڈرائیور غریب ہے، فاقہ کشی کے دہانے پر کھڑا ہے، بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ نہیں ہے، پیشانی پر غربت کی لکیریں نظر آتی ہیں، گھر کی چھت ٹپک رہی ہے، گھروبھر کے جسموں پر بوسیدہ کپڑے ہیں کسی سے مدد مانگنے کے لئے زبان نہیں کھلتی ہے، کسی کے سامنے دامن پسارنے کی ہمت نہیں ہوتی ہے کیونکہ ہر غریب ایک جیسا نہیں ہوتا کوئی لاؤڈ اسپیکر سے بھیک مانگتا ہے تو کوئی بے حیا اور بے شرم کچھ لوگوں کو پال کر ان سے بھیک منگواتا ہے یعنی بھیک مانگنے اور منگوانے کا کاروبار کرتا ہے رب کائنات غارت کرے ایسے منحوس انسان کو جو چھوٹے چھوٹے بچوں کے مستقبل کو تباہ کرتا ہے صبح میں گاڑی سے جگہ جگہ چھوڑتا ہے اور شام کو اٹھاتا ہے بھیک کی رقم کم ہونے پر ان بچوں اور نوجوانوں و بوڑھوں پر ظلم بھی ڈھاتا ہے ذرہ برابر بھی احساس نہیں ہوتا کہ کل میدان محشر میں رب کے سامنے کیا جواب دیں گے-



