معاشرے میں بڑھتا ہوا تکبر: اخلاقی بگاڑ کی جڑ، اصلاحِ کردار کی ضرورت،حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد کے اجتماع سے مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب
معاشرے میں بڑھتا ہوا تکبر: اخلاقی بگاڑ کی جڑ، اصلاحِ کردار کی ضرورت،حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد کے اجتماع سے مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب
حیدرآباد 17اکٹوبر(پریس ریلیز) خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے آج وہ اپنے خطاب میں بتلایا کہ شہر و دیہات میں روزمرہ زندگی کا مشاہدہ اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ معاشرے میں غرور و تکبر کی کیفیت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ دولت، عہدہ، تعلیم اور خاندانی حیثیت پر فخر کا اظہار عام ہوتا جا رہا ہے۔ دفتر ہو یا بازار، شادی بیاہ ہو یا مذہبی اجتماع—لوگوں کے رویوں میں تفاخر، خود پسندی اور دوسرے کو حقیر سمجھنے کا رجحان بڑھ چکا ہے۔علماء کرام اور دینی اداروں کی جانب سے اس روش پر گہری تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تکبر و غرور دراصل ایمان کی کمزوری اور اخلاقی زوال کی علامت ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’اور زمین پر اکڑ کر مت چل، بے شک اللہ ہر متکبّر، اِترا کر چلنے والے کو ناپسند فرماتا ہے۔‘‘(سورۃ لقمان: 18)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جس کے دل میں ذرّہ برابر تکبر ہوگا، وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔‘‘
(صحیح مسلم)اسلام نے انسان کو عاجزی، انکساری اور برابری کا درس دیا ہے۔
رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا:’’جو اللہ کے آگے جھکتا ہے، اللہ اسے بلند کرتا ہے، اور جو تکبر کرتا ہے، اللہ اسے نیچا کر دیتا ہے۔‘‘(مشکوٰۃ المصابیح، بیہقی)
علماء کے مطابق آج معاشرتی رویے اس بات کے گواہ ہیں کہ دولت مندوں کے لیے احترام اور غریبوں کے لیے تحقیر کا چلن عام ہے۔ یہی طرزِ عمل اسلامی مساوات اور اخلاقی توازن کے منافی ہے۔ دینی رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ہمیں اپنے رویوں میں عاجزی پیدا کرنی چاہیے، نہ کہ فخر و غرور۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’جو شخص غرور و تکبر سے اپنا کپڑا گھسیٹے گا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس پر نظرِ رحمت نہیں فرمائے گا۔‘(بخاری و مسلم) مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے مذید بتلایا کہ
’’اور (خدائے) رحمان کے (مقبول) بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل (اکھڑ) لوگ (ناپسندیدہ) بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے (ہوئے الگ ہو جاتے) ہیں۔‘‘
عاجزی و انکساری انسان کی شخصیت کا بہت ہی خوبصورت وصف ہے اور یہ وصف اس وقت پروان چڑھتا ہے جب انسان اپنے دل میں اللہ کی عظمت کا احساس اجاگر کرلیتا ہے۔ اس سوچ کے نتیجے میں انسان میں احساسِ برتری، احساسِ عاجزی میں بدل جاتا ہے۔ معرفتِ الہٰی انسان کو عاجزی وانکساری کا پیکر بناتی ہے۔
اس حقیقت میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ معرفت و قربت الہٰی میں بڑا بلند و بالا مرتبہ و مقام صرف اور صرف رسول اللہ ﷺ کو حاصل ہے۔ اسی بنا پر اللہ کی بارگاہ میں مقامِ بندگی اور مقامِ انکساری کا جو قرب و اعزاز آپ ﷺ کو حاصل ہے، کوئی اور فرد بشر اس میں شریک نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ اعلیٰ و ارفع مقامات پر فائز تھے، اس کے باوجود آپ ﷺ ساری حیات میں عجز و انکساری کا پیکر بن کر رہے۔ آپ ﷺ نے تکبر و رعونت اور مطلق العنان احساسِ برتری سے اپنے کردار کو مبرا و منزہ رکھا ہے۔ اسی لیے آپ ﷺ نے اپنی امت کو تواضع و انکساری اور عاجزی کی تعلیم دیتے ہوئے اشاد فرمایا:جو اپنے مسلمان بھائی کے لیے عاجزی کرتا ہے باری تعالیٰ اسے سربلند کرتا ہے اور جو اس پر اپنی برتری جتاتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے پست کرتا ہے۔عظمت و کبریائی اور سروری فقط رب کو زیبا ہے۔ بندے کی بندگی کا زیور عاجزی و انکساری ہے۔ حدیث قدسی ہے:
’’کبریائی میری چادر ہے۔ ‘‘(مسند احمد بن حنبل، ج: 2، ص: 248، الرقم: 7376)
عاجزی و انکساری میں انسانی عظمت مضمر ہے جبکہ تکبر و استکبار میں انسان کی تباہی و بربادی پوشیدہ ہے۔ سفرِ زیست میں جب بھی انسان تفوق اور استکبار کا شکار ہونے لگے تو اسے چاہیے کہ اپنی زندگی کو صحیح سمت دینے کے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی اور سیرت سے راہنمائی حاصل کرے۔انسانی زندگی میں کچھ عوامل اور اسباب پیش ایسے آتے ہیں جو انسان سے عاجزی اور انکساری کا وصف چھین لیتے ہیں اور اس میں تکبر و استکبار اور غرور و رعونت پیدا کردیتے ہیں۔ ذیل میں ان ہی میں سے چند عوامل کا تذکرہ کیا جارہا ہے:عاجزی و انکساری کی راہ میں سب سے بڑا عامل انسان کا خوشحال ہوجانا ہے۔ یہ خوشحالی انسان سے عاجزی و انکساری کا وصف چھین لیتی ہے۔ مگر ہمارے سامنے رسول اللہ ﷺ کی وہ حیات ہے جو ہمیں زندگی کے ہر حال اور زندگی کے ہر موڑ پر سنبھالتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے شاہی زندگی پر عجز و انکسار کی زندگی کو ترجیح دی ہے۔ اگر آپ ﷺ اپنی زندگی کو خوشحال ہی خوشحال بنانا چاہتے تو اس کا عالم یہ ہوتا کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں:
’’اگر میں چاہوں تو میرے ساتھ سونے کے پہاڑ چلیں۔‘‘اسی طرح رسول اللہ ﷺ کو باری تعالیٰ نے نبوت کے ساتھ ساتھ بادشاہت کی دنیوی نعمت اختیار کرنے کا موقع بھی دیا تو آپ ﷺ نے بادشاہت پر اللہ کی بندگی اور عبدیت کو ترجیح دی۔ آپ ﷺ سے فرمایا گیا:’’اگر آپ چاہیں تو نبی عبد بنیں اور اگر آپ چاہیں تو بادشاہ نبی بنیں۔ تو اس سوال اور اختیار کے جواب میں آپ ﷺ نے عرض کیا: اے میرے رب میں نبی عبد (بندگی والا نبی) بنوں گا۔‘‘جب ہم رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس میں عجزو انکسار کے یہ مظاہر اور نمونے دیکھتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ جوں جوں باری تعالیٰ کی نوازشات کی رم جھم بڑھتی ہے توں توں آپ ﷺ کی عاجزی و انکساری میں بھی مزید اضافہ ہونے لگتا ہے۔ واقعہ معراج میں باری تعالیٰ نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ میں آپ ﷺ کو کس لقب سے مشرف کروں؟ تو آپ ﷺ نے عرض کیا:
’’مولا مجھے اپنی ذات سے نسبتِ عبدیت کے ساتھ منسوب کر۔‘‘
اب کائناتِ انسانی کا اس سے بڑا منصب، مقام اور رتبہ و اعزاز نہ ہوسکتا ہے اور نہ ہے۔ واقعہ معراج کے موقع پر جس لفظ کو معراج دی گئی، وہ لفظِ عبدیت ہے۔ مقامِ عبدیت کا کمال اور عروج سراپا عاجزی اور انکساری ہے۔
(2) فتح و کامیابی
دوسرا بڑا عامل جو ہمارے وجود میں پنپنے والی عاجزی و انکساری پر حملہ آور ہوتا ہے، وہ فتح و کامرانی کی منزل کو پالینے کے بعد کا روّیہ ہے جس کے بعد بندہ اپنے ماتحتوں اور کمزوروں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھاتا ہے۔ انسان عام حالات میں عجزو انکسار ی اختیار کررہا ہوتا ہے مگر دشمن پر فتح و کامیابی اس کی سوچ پر اثر انداز ہوتی ہے اور ایسے موقع پر وہ عاجزی و انکساری کا راستہ چھوڑ کر تکبر و رعونت اور طاقت و قوت کی راہ پر چل پڑتا ہے۔ اپنے دشمن اور فریقِ مخالف پر ظلم و سرکشی کی انتہا کردیتا ہے۔ قرآن حکیم انسان کے اس شاہانہ اور حاکمانہ مزاج اور رویے کا اظہار یوں کرتا ہے:
’’ بے شک جب بادشاہ کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اُسے تباہ و برباد کر دیتے ہیں اور وہاں کے باعزت لوگوں کو ذلیل و رسوا کر ڈالتے ہیں اور یہ (لوگ بھی) اسی طرح کریں گے۔ ‘‘
انسانی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ بادشاہوں نے فتح و کامرانی کے نشے میں لوگوں کے سروں کے مینار بنائے ہیں، قتل و غارت گری کی انتہا کردی اور ہر طرف لاشوں کے ڈھیر لگائے مگر رسول اللہ ﷺ کی سیرت و اسوہ نے اس موقع پر بھی انسانوں کو عاجزی و انکساری کا پیغام دیا ہے کہ فتح و کامرانی پر بھی اللہ کے حضور شکر گزار بنو، نہ کہ انسانوں پر اظہارِ فخر کرکے ان کا جینا دوبھر کردو۔ اس لیے کہ شکر گزاری سے انسانی طبیعت میں عجزو انکسار آتا ہے۔ فتح و کامرانی انسانی زندگی میں وہ موقع ہوتا ہے جب انسان تکبر و استکبار کی رو میں بہہ جاتا ہے اور وہ دوسرے انسانوں پر ظلم و ستم شروع کردیتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی سیرت کا یہ گوشہ بھی ہماری شخصیت کو سنوارتا ہے کہ جب باری تعالیٰ نے آپ ﷺ کو فتح مکہ کے موقع پر کامیابی و کامرانی سے نوازا اور اپنے دشمن پر غلبہ و تفوق دیا تو آپ ﷺ ایک فاتح کی حیثیت سے مکۃ المکرمہ میں داخل ہوئے لیکن آپ ﷺ کا رویہ فاتح بادشاہوں اور فاتح حکمرانوں کا نہ تھا بلکہ اللہ کے شکر گزار بندوں کا تھا۔ غرور و تکبر کا دور دور تک نشان بھی نہ تھا۔ آپ ﷺ سراپا پیکرِ عجزو انکساری اور اللہ کی بارگاہ میں ہر لحظہ اور ہر لمحہ شکر گزار بنے ہوئے تھے۔ اس شکر گزاری کے آثار آپ ﷺ کے وجودِ اقدس پر بڑے ہی نمایاں تھے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رسول اللہ ﷺ کے مکہ معظمہ میں داخلے کی منظر کشی یوں کی ہے:
جب آپ ﷺ نے مکہ کے فتح ہونے کا منظر اور عزت و شان دیکھ لی توبلاشبہ رسول اللہ ﷺ کا سر انور عاجزی و انکساری کے ساتھ اللہ کے حضور اس قدر جھکا ہوا تھا کہ قریب تھا کہ آپ ﷺ کی ریش مبارک کے بال کجاوے کو چھولیں۔ ‘‘
رسول اللہ ﷺ کی سیرت کا یہ پہلو ہمیں راہنمائی دیتا ہے کہ ہماری زندگی میں جب بھی کامیابی و کامرانی کے لمحات آئیں تو ہم اپنی انسانیت کو گم نہ کریں۔ ہمارے اندر کا حیوان بے قابو نہ ہوجائے، ہم اپنی خوشی میں دوسروں کو غم نہ دیں۔ دوسرے افراد کا جینا حرام نہ کریں، اپنی کامیابی میں اندھے نہ ہوں بلکہ ہم سیرت الرسول ﷺ سے پیغامِ حیات لیتے ہوئے اللہ کی بارگاہ میں شکر گزار بن جائیں تاکہ اس نعمت کے ذریعے اللہ کی مزید نعمتوں کے مستحق بن جائیں۔ اس لیے کہ اس کا وعدہ ہے کہ
’’اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا۔‘‘
انسانی وجود سے عاجزی اور انکساری کو چھیننے والی ایک اور چیز اندھی محبت و عقیدت بھی ہے۔ انسان کے کسی وصف کی بنا پر دوسرے انسان اس کو بے پناہ محبت اور بے مثال عقیدت دیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے انسان اپنے آپ کو قابلِ احترام اور مستحقِ تکریم سمجھنے لگتا ہے۔ اس کے برعکس جب کبھی اہلِ محبت اور اہلِ عقیدت کے علاوہ اس کا واسطہ دوسرے انسانوں سے پڑتا ہے تو وہ اس کی اس طرح قدر دانی نہیں کرتے اور اس طرح کی عقیدت و محبت
نہیں دیتے تو وہ بگڑ جاتا ہے۔ اس کا مزاج اب ان رویوں کو قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا ہے۔ ایسے انسان کی طبیعت کا معاملہ بھی بچے کی طبیعت جیسا ہوجاتا ہے۔ مگر انسانی معاشرے کا یہ عمومی مزاج، مروجہ اسلوبِ حیات اور عادتِ جاریہ بھی سیرت الرسول ﷺ کے سامنے سرنگوں ہوجاتی ہے۔
دنیائے محبت و عقیدت میں جس قدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رسول اللہ ﷺ کی عزت و تکریم کی ہے، جس قدر آپ ﷺ کی ذات سے عقیدت و محبت کی ہے اور جس قدر والہانہ عشق و وارفتگی کا تعلق آپ ﷺ سے رکھا ہے، دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رسول اللہ ﷺ کی ہر ادا پر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے آمادہ رہتے تھے اور اس عمل کو وہ اپنا کمال سمجھتے تھے۔ وہ ہر اس چیز پر اپنی عقیدتوں کے پھول نچھاور کرتے تھے جس کا ذرا سا بھی تعلق شاہ خوباں کے ساتھ ہوتا تھا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا آپ ﷺ کے ساتھ ادب و تعظیم اور عقیدت و محبت کا ایسا رشتہ قائم تھا کہ جس کی مثال اس وقت کی موجود دنیا میں نہ تھی حتی کہ ظہور اسلام کے بعد سے اب تک انسانی دنیا میں اس کی کوئی نظیر اور کوئی مثال قطعاً نہیں ملتی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضور نبی اکرم ﷺ کا اس حد تک ادب و احترام کرتے کہ جب آپ ﷺ اپنا لعابِ دہن پھینکتے تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اسے زمین پر نہ گرنے دیتے بلکہ اسے اپنے چہرے اور جسم پر مل لیتے، جب آپ ﷺ وضو کرتے تو آپ ﷺ کے وضو کا پانی حاصل کرنے کے لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے اور بے حد تعظیم کی وجہ سے آپ ﷺ کی طرف نظر بھر کر بھی نہیں دیکھتے تھے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ساری محبتیں اور عقیدتیں رسول اللہ ﷺ کی عاجزی اور انکساری میں اضافہ کرتی رہی ہیں۔ جس قدر آپ ﷺ کو اللہ کی نعمتیں اور اس کا فضل زیادہ سے زیادہ میسر آتا، اسی قدر آپ ﷺ کا عجزو انکسار اور آپ ﷺ کا عملِ شکر بڑھ جاتا تھا اور آپ ﷺ پہلے سے زیادہ اپنی عبادت میں اضافہ کردیتے اور ہر نعمت کو اللہ کی ذات کی طرف منسوب کرتے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہر موقع پر آپ ﷺ کے ساتھ اپنی محبتوں اور عقیدتوں کا اظہار کرتے تھے اور یوں وہ اپنے ایمان کو کامل اور اکمل کرتے رہتے تھے۔ ذیل میں چند واقعات درج کیے جاتے ہیں:غزوہ بدر کے موقع پر جب سفر شروع ہوا تو سواری کے لیے اونٹ کم تھے۔ ایک اونٹ پر باری باری تین تین افراد سوار ہوتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کے حصے میں جو دو افراد آئے، ان میں سے ایک حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور دوسرے حضرت ابولبابہ رضی اللہ عنہ تھے۔ اب باری باری سوار ہونے لگے تو جب رسول اللہ ﷺ کی باری پیدل چلنے کی آئی تو دونوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہما عرض گزار ہوئے: یارسول اللہ ﷺ ! ہمارے لیے سعادت ہے کہ آپ ﷺ سوار ہوں اور ہم دونوں پیدل چلیں گے۔
اب یہاں سیرت النبی ﷺ کے ذریعے کردارِ رہبر، کردارِ مذہبی پیشوا اور کردارِ حاکم و سربراہ متعین ہونا تھا، آپ ﷺ نے ان دونوں کی پیشکش کے جواب میں فرمایا:
’’تم دونوں چلنے میں مجھے سے زیادہ قوی و طاقتور نہیں ہو اور میں تم دونوں سے کم اجر کا حاجت مند بھی نہیں ہوں۔ ‘‘
ہمارے معاشرے کے تمام مسائل کا حل سیرت النبی ﷺ کے اس اسلوب کی پیروی میں ہے۔ ایک مذہبی راہنما اور سیاسی رہبر بھی یہ اسوۂ سیرت اختیار کرے۔ قوم کی نجات بہترین عمل میں ہے اور اس کائنات انسانی میں سب سے بہترین عمل رسول اللہ ﷺ کا ہے۔ اسی عمل اور کردار کو اپنانے کے لیے باری تعالیٰ نے ہمیں حکم دیاہے کہ
’’فی الحقیقت تمہارے لیے رسول الله (ﷺ کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے اپنی ذات اور شخصیت میں عاجزی و انکساری کی جو مثالیں قائم کی ہیں اور اس ضمن میں اپنا اسوۂ حسنہ امت کو دیا ہے، وہ قیامت تک انسانوں کی شخصیتوں کو خوبصورت، دلکش اور جاذب نظربناتا رہے گا۔ یہ آپ ﷺ کی عاجزی و انکساری ہی تو تھی کہ آپ ﷺ اپنے کام خود کرتے تھے اور گھریلو کام کرنے میں اپنی توہین نہ سمجھتے تھے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ مل کر کام کرنے کو کبھی احساسِ کمتری نہ سمجھتے تھے اور بلاتردد ان کے ساتھ ہر کام میں شریک ہوجاتے تھے۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ پھول ہر جگہ پھول ہوتا ہے، وہ جہاں ہوتاہے اس جگہ کو مہک دار اور خوبصورت بنادیتا ہے۔ آپ ﷺ کبھی انفرادی اور اجتماعی کام کو سرانجام دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کرتے تھے اور معمولی کام کو کبھی منصب کے خلاف و منافی نہ سمجھتے تھے۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
’’رسول اللہ ﷺ گھر میں ہوتے ہوئے گھر کے کام کاج میں مصروف رہتے تھے جب نماز کا وقت ہوتا تو آپ نماز کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔ ‘‘
اب گھر کے کام کاج کی کچھ تفصیلات بھی ہمیں دوسری روایات میں میسر آتی ہیں کہ
’’رسول اللہ ﷺ اپنے نعلین خود درست کرلیتے تھے، اپنے کپڑوں کو پیوند لگالیتے، اپنے گھر میں ایسے ہی کام کرتے تھے جیسے تم اپنے گھروں میں کام کرتے ہو۔ ‘‘
یہ سارے امور رسول اللہ ﷺ کی شانِ عجز و انکسار کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان تمام کاموں کے لیے ازواج مطہرات، آپ ﷺ کے جانثار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین موجود تھے مگر آپ ﷺ یہ سارے کام از خود کرکے امت کو اپنی سنت سکھا رہے تھے اور اپنی سیرت بتارہے تھے اور قیامت تک آنے والی اپنی امت کو زیست کے اسلوب سمجھا رہے تھے۔



