جذبہ اتباع و اطاعتِ رسول ﷺ – آج بھی کیوں ہمارے لیے بہترین نمونہ ہیں؟حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد کے اجتماع سے مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب

جذبہ اتباع و اطاعتِ رسول ﷺ – آج بھی کیوں ہمارے لیے بہترین نمونہ ہیں؟حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد کے اجتماع سے مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب
حیدرآباد 12ستمبر (پریس ریلیز ) خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے آج وہ ابنے خطاب کرتےہوئے بتلایا کہ ایک اہم سوال جو ہر مومن کے ذہن میں ابھرتا ہے، وہ یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کو بطورِ نمونہ کیوں اپنایا جاتا ہے؟ کیوں پندرہ صدیوں کے بعد بھی ہم ان کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں، ان کی اطاعت کرتے ہیں اور ان سے بے پناہ محبت و تعظیم کا رشتہ رکھتے ہیں؟اس سوال کا جواب بہت واضح ہے: کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ چار خاص رشتے ہر مومن پر فرض کیے ہیں تاکہ ایمان مکمل اور پختہ ہو:
1. محبتِ رسول ﷺ
قرآن مجید میں ارشاد ہے: "النبی أولى بالمؤمنین من أنفسهم” (الأحزاب: 6)، یعنی مومن کی فطری ذمہ داری ہے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی جان سے بھی بڑھ کر محبت کرے۔ یہ محبت ان کی شخصیت کی بلندی، اخلاقی کمالات، علم کی گہرائی اور عملی زندگی کی روشنی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ مومن تب تک کسی سے سچی محبت نہیں کر سکتا جب تک کہ اس کی شخصیت ہر لحاظ سے دل کو موہ لینے والی نہ ہو۔
2. اطاعتِ رسول ﷺ
قرآنِ مجید میں فرمایا گیا ہے: "من یطع الرسول فقد أطاع الله” (النساء: 80)، یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کا مطلب صرف ان کی باتوں کو ماننا نہیں بلکہ اس بات پر مکمل یقین کے ساتھ عمل کرنا ہے کہ جو حکم یا نصیحت آپ نے دی تھی، آج بھی وہی حق کی نمائندگی کرتی ہے۔ زمانہ کتنا ہی آگے کیوں نہ بڑھ جائے، حضور ﷺ کی ہدایات سچائی کا سرچشمہ بن کر باقی رہتی ہیں۔ آج بھی وہی تعلیمات ہمارے لیے عملی رہنمائی ہیں۔
3. اتباعِ رسول ﷺ
جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا: "قل إن كنتم تحبون الله فاتبعونی” (آل عمران: 31)، یعنی اگر ہم واقعی اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کو اپنانا اور ان کے نقش قدم پر چلنا ضروری ہے۔ صرف کلامی محبت کافی نہیں، بلکہ عملی زندگی میں ان کے طریقے کو اپنانا لازم ہے۔
4. تعظیمِ رسول ﷺ
قرآن نے واضح فرمایا: "فالذین آمنوا به وغزروه”، یعنی مومن حضرات کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ اقدس کے سامنے بے پناہ ادب، تکریم اور احترام کا رشتہ قائم رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کے بعد کسی بھی شخصیت کی اتنی تعظیم مناسب نہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کے ساتھ ہو۔
یہ چار بنیادی اصول ہمارے ایمان کی مکمل تصویر کشی کرتے ہیں۔ اگر محبت میں کمی ہو، اطاعت میں کوتاہی ہو، اتباع میں سستی ہو یا تعظیم میں غفلت برتی جائے، تو ایمان کا معیار پورا نہیں ہوگا۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا جذبہ اتباع اس بات میں دیکھا جا سکتا ہے کہ آپ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر بات کو دل و جان سے اپنایا اور نہ صرف ان کی بات کو مانا بلکہ ہر حکم پر بلا چون و چرا عمل کیا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت کا ارشاد فرمایا، آپ نے فوراً اپنی جان و مال سب کچھ قربان کر کے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ دیا۔
2. حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ
آپ رضی اللہ عنہ نے ہمیشہ اپنی زندگی کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے مطابق ڈھالا۔ آپ کا عدل و انصاف اور سختی بھی اسی سیرت کی عملی مثال ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے آپ نے اسلام کی ریاست کی مضبوطی کے لیے بے شمار قربانیاں دیں۔
3. حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ
آپ رضی اللہ عنہ کی زندگی بھی جذبہ اتباع کی روشن مثال ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر فرمان کو اپنی زندگی کا اصول بنایا۔ جنگ بدر و احد میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہر میدان میں ان کی اطاعت میں پیش پیش رہے۔
آج بھی، پندرہ سو سال کے بعد، ہر مومن کی اولین ترجیح یہی ہے کہ وہ اپنی زندگی کو سیرتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں ڈھالے تاکہ دینِ اسلام کی حقیقی روح زندہ و جاوید رہے اور انسانیت کو سچائی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔