ہیلت

ہندوستان میں دماغ و اعصابی امراض خطرناک حد تک بڑھ رہے ہیں — ہر چار منٹ میں ایک شخص اسٹروک سے جان گنوا رہا ہے

ہندوستان میں دماغ و اعصابی امراض خطرناک حد تک بڑھ رہے ہیں — ہر چار منٹ میں ایک شخص اسٹروک سے جان گنوا رہا ہے

 

دل کے امراض، ذیابیطس اور کینسر کے بعد اب ہندوستان میں  دماغ و اعصابی نظام سے متعلق بیماریوں کا خطرہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کی گلوبل اسٹیٹس رپورٹ آن نیورولوجی 2025 کے مطابق گزشتہ تین دہائیوں میں ملک میں دماغ و اعصابی بیماریوں کے معاملات تقریباً دوگنے ہوگئے ہیں۔ ہر سال تقریباً 25 لاکھ ہندوستانی شہری اسٹروک کا شکار ہو رہے ہیں

 

جبکہ ذہنی تنزلی، مائگرین اور مرگی جیسے امراض میں بھی تیزی سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ تشویش ناک امر یہ ہے کہ ملک کے ہر تین گھروں میں سے ایک گھر کسی نہ کسی دماغی بیماری سے متاثر ہے۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر فوری پالیسی اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے دس برسوں میں اس طرح کے امراض ملک میں اموات اور مستقل معذوری کی سب سے بڑی وجہ بن سکتے ہیں۔

 

تازہ اعداد و شمار کے مطابق ہر چار منٹ میں ایک ہندوستانی شہری اسٹروک کے باعث دم توڑ رہا ہے۔ ملک میں تقریباً 80 لاکھ بزرگ شہری الزائمر اور دماغی کمزوری کے مرض میں مبتلا ہیں، اور یہ تعداد 2050 تک 3 کروڑ تک پہنچنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اندازوں کے مطابق 15 کروڑ  ہندوستانی جن میں اکثریت خواتین کی ہے  دیرینہ یا بار بار ہونے والی شدید سر درد اور مائگرین کا سامنا کر رہے ہیں۔

 

ملک میں مرگی کے مریضوں کی تعداد بھی 1 کروڑ 20 لاکھ تک پہنچ چکی ہے لیکن ان میں نصف سے زیادہ مناسب علاج نہیں کرا رہے۔ شہروں میں پارکنسنز اور ذیابیطس سے پیدا ہونے والی نیوروپیتھی کے کیسز میں بھی تیزی سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

 

ڈاکٹروں کی قلت صورتِ حال کو مزید سنگین بنا رہی ہے۔ ملک میں ایک لاکھ آبادی کے مقابلے میں صرف 0.3 نیورولوجسٹس دستیاب ہیں، جبکہ نیشنل میڈیکل جرنل آف انڈیا کے مطابق ملک بھر میں نیورولوجسٹس کی تعداد تقریباً 35 ہزار ہے حالانکہ کم از کم 50 ہزار ماہرین کی ضرورت ہے۔ 70 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے

 

جہاں حالت اور زیادہ ابتر ہے  کئی بڑے اضلاع میں تو ایک بھی نیورولوجسٹ دستیاب نہیں۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ بھارت کے بڑے اسپتالوں میں صرف 20 فیصد میں اسٹروک یونٹس موجود ہیں جبکہ بحالی مراکز، بچوں کی نیورولوجی خدمات اور پیلی ایٹو کیئر زیادہ تر بڑے شہروں تک محدود ہیں۔ دیہی صحت کے اعداد و شمار 2024 کے مطابق ملک کے 600 سے زائد اضلاع میں دماغی امراض کی خصوصی علاج گاہیں موجود نہیں۔

 

ماہرین کا کہنا ہے کہ کروڑوں مریض ابتدائی علامات جیسے ذیابیطس کی پیچیدگیاں، ذہنی دباؤ یا عام سر درد کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں جس کے باعث علاج میں تاخیر ہو جاتی ہے اور مستقل معذوری یا موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

 

رپورٹ انتباہ کرتی ہے کہ دماغ و اعصابی امراض اب صرف طبّی نہیں بلکہ سماجی اور معاشی بحران بنتے جا رہے ہیں۔ اگر دماغی صحت کو قومی صحت پالیسی میں مرکزیت نہ دی گئی تو 2035 تک یہ ملک میں اموات اور معذوری کی سب سے بڑی وجہ بن سکتی ہے۔

 

رپورٹ کے مطابق اب وقت آ چکا ہے کہ دماغی صحت کو چند ماہرین کی تشویش نہیں بلکہ عوام کا بنیادی صحت کا حق سمجھتے ہوئے قومی ترجیح بنایا جائے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button