جنگ بندی پر ایران کا رد عمل

نئی دہلی: امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان گزشتہ 12 دنوں سے جاری جنگ اب اختتام کو پہنچنے والی ہے تاہم اس اعلان پر تہران کے رد عمل نے
تمام کو حیرت میں ڈال دیا۔ ایران نے ابتدائی طور پر کسی بھی قسم کے معاہدے سے انکار کیا مگر بعد میں جنگ بندی کے لیے آمادگی کا عندیہ دیا جو قابل غور ہے۔
ٹرمپ کی جنگ بندی سے متعلق سوشل میڈیا پوسٹ کے چند گھنٹوں بعد ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے منگل کے روز لگاتار دو مختلف پیغامات جاری کیے۔پہلے بیان میں انہوں نے کہا: "یہ
اسرائیل ہی تھا جس نے پہلے ہم پر جنگ مسلط کی۔ ہم پہلے ہی یہ بات واضح کر چکے ہیں۔ فی الحال جنگ بندی یا فوجی کارروائیوں کے خاتمے پر کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ البتہ ہم نے تل ابیب کو
خبردار کیا ہے کہ وہ منگل کی صبح 4 بجے (تہران وقت کے مطابق) تک ہمارے شہریوں پر مظالم بند کرے۔ ہمارا جنگ جاری رکھنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اپنی فوجی کارروائیوں کے خاتمے پر ہم بعد میں حتمی فیصلہ کریں گے۔”
کچھ دیر بعد عباس عراقچی نے ایک اور بیان جاری کیا جس سے یہ تاثر ملا کہ تہران کی جانب سے تل ابیب پر فوجی کارروائیاں ختم کر دی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایران کی مسلح افواج نے
اسرائیلی جارحیت کے خلاف آخر تک بھرپور مزاحمت کی۔ اس موقع پر انہوں نے ان دستوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے ملک کے دفاع میں دشمن کے حملوں کا آخری لمحے
تک مقابلہ کیا۔اس طرح ایران نے اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کے لیے آمادگی کے اشارے دے دیے۔ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ’ٹروتھ سوشل‘ پر اعلان کیا کہ
ایران اور اسرائیل مکمل جنگ بندی پر رضامند ہو چکے ہیں اور آئندہ 12 گھنٹوں میں جنگ کا باضابطہ خاتمہ ہو جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگ بندی کے لیے پہلے ایران نے ہی رضامندی ظاہر
کی تھی جس سے 12 دن کی جنگ کا خاتمہ ممکن ہو رہا ہے۔تاہم تہران کے بیانات ٹرمپ کے دعوے سے مختلف اور متضاد دکھائی دیتے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے اس بارے میں تاحال کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا ہے۔