الیکشن کمیشن کے بڑھتے قدم ملک بھر میں”ایس آئی آر” کی تیاری اور راہول گاندھی کا ہائیڈورجن بم

تحریر:سید سرفراز احمد
ملک کی سب سے باوقار عدلیہ، عدالت اعظمیٰ ہوتی ہے۔اگر کوئی عدالت اعظمیٰ کے حکم نامہ یا اس کی ہدایت کو ٹال دیتا ہے۔یا پھر ان سنا کردیتا ہے تو اس کا شمار ملک کی عظیم عدلیہ کے حکم کی توہین کرنے کے مترادف کہلاتا ہے۔اسی طرح اگر کوئی عدلیہ کی ہدایت کو بار بار رد کرتے ہوۓ اپنی روش پر قائم رہتا ہے تو بالآخر عدلیہ کو”شرم تم کو مگر نہیں آتی”کے مترادف سرزنش کرنا پڑتا ہے۔کبھی کبھی تو عدالت اعظمیٰ کی اتنی ڈانٹ ڈپٹ سننی پڑتی ہے کہ مبصرین یا تجزیہ نگار کو غالب کے شعر کے مصرعہ ثانی "بہت بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے” لکھنے پر مجبور کردیتا ہے۔عدالت اعظمیٰ میں ایسی سب سے ذیادہ تذلیل ملک کی مین اسٹریم میڈیا عرف "گودی میڈیا ” کو کو بارہا سامنا کرنا پڑا۔لیکن انھیں اپنی عزت نفس کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔شائد یہ اپنے ‘آقاؤں کی غلامی’ میں اتنے اندھے بن گئے ہیں جو "اچھے”اور "برے” کی تمیز کرنے سے بھی قاصر ہوگئے۔اور "بے شرمی” کی حد یہ تھی کہ بار بار عدلیہ نے اتنا ڈانٹا پھر بھی وہ اپنی حرکت سے باز نہیں آۓ۔
ایسے ہی جب سے بہار میں الیکشن کمیشن کی جانب سے ‘ایس آئی آر’ کا آغاز کیا گیا۔اور بہار کی عوام سے جس طرح کے دستاویزات طلب کیئے گئے۔اس کو لے کر اپوزیشن جماعتوں و دیگر دانش واران نے عدالت اعظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔پھر اسی دوران راہل گاندھی نے”ووٹ چوری” کا بھانڈا پھوڑا۔جس سے الیکشن کمیشن تلملا اٹھا۔بجاۓ اس سنگین الزامات کے ٹھوس جوابات دینے کے وہ قائد اپوزیشن سے "حلف نامہ” داخل کرنے کا مطالبہ کیا۔لیکن جب ‘ایس آئی آر’ کے معاملے میں عدالت اعظمیٰ نے بار بار الیکشن کمیشن سے استفسار کیا کہ ‘آدھار کارڈ’ ‘راشن کارڈ’ اور ‘شناختی کارڈ’ جو اہم دستاویزات مانے جاتے ہیں۔اگر ان کو قبول نہیں کیا جاۓ گا تو یہ کس کام کے لیئے ہے؟عدالت اعظمیٰ ان تین دستاویزات کو ‘ایس آئی آر’ میں شامل کرنے کی تجویز دی تو الیکشن کمیشن کی کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔پھر عدالت اعظمیٰ نے 8 ستمبر کو سخت انداز میں الیکشن کمیشن کو تنبیہ کرتے ہوۓ ہدایت دی کہ ‘ایس آئی آر’میں ‘آدھار کارڈ’ کو بارویں دستاویز کی حیثیت سے قبول کرنا ہی ہوگا۔اور عدالت نے حذف شدہ راۓ دہندہ گان کو دستاویزات جمع کروانے کے لیئے وقت میں مزید مہلت بھی دی۔
لیکن الیکشن کمیشن کا رویہ ہر بار مایوس کن رہا۔چونکہ عدالت کی بار بار ہدایت کو بھی نظر انداز کیا گیا۔لیکن اس بار عدلیہ نے سخت لہجہ میں کہا کہ ‘آدھار کارڈ’ کو قبول کرنا ہی ہوگا۔اب اس کے بعد الیکشن کمیشن کی کیا پیش رفت ہوگی ابھی کچھ واضح نہیں ہے۔لیکن یہ تو صاف کہا جاسکتا ہے کہ الیکشن کمیشن کا رویہ اس گودی میڈیا سے کچھ کم نہیں ہے۔کہ عدلیہ کو بار بار ٹوکنے کی نوبت پیش آرہی ہے۔اور الیکشن کمیشن اپنی ہٹ دھرمی سے باز آنے کو تیار ہی نہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن ایک جمہوری ادارے کے ساتھ ساتھ خود مختار ادارہ ہے۔پھر آخر الیکشن کمیشن عدالت اعظمیٰ کی بار بار ہدایت کو کیوں ٹال مٹول کررہا ہے؟سوال یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ الیکشن کمیشن عدلیہ کے احکامات کو پس پشت ڈال کر کس کے احکامات کی پابندی کررہا ہے؟ظاہر ہے اگر الیکشن کمیشن شفاف طریقے سے اپنا کام کرتا تو معاملہ عدالت اعظمیٰ تک پہنچتا ہی نہیں۔
بہار میں ‘ایس آئی آر’ کے بعد جس طرح تنازع پیدا ہوا۔اس کے بعد بھی الیکشن کمیشن بجاۓ اپنے پیر پیچھے لینے کے مزید اپنے قدموں کو آگے بڑھا رہا ہے۔کیوں کہ الیکشن کمیشن پورے ملک میں ‘ایس آئی آر’ کرانے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔اسی ضمن میں الیکشن کمیشن نے 10 ستمبر کو ریاستی الیکشن کمیشنرس و چیف الکٹرول عہدیداروں کے ساتھ ایک اہم اجلاس منعقد کیا۔اس اجلاس میں ملک بھر میں ‘ایس آئی آر’ کے آغاز کرنے کے متعلق تمام تر تیاریوں کا جائزہ لیا گیا۔جو اس بات کا غماز ہے کہ الیکشن کمیشن ملک بھر میں ‘ایس آئی’ کراکر ہی رہے گا۔اس پیش رفت کا اہم مقصد یہی ہے کہ آئندہ سال مغربی بنگال، آسام، تامل ناڈو، کیرالہ اور پڈوچیری جیسی اہم ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ممکن ہے کہ بہار کی طرز پر ملک کی مختلیف ریاستوں کے ‘راۓ دہندہ گان’ کو ‘راۓ دہی’ کی فہرست سے بڑے پیمانے پر حذف کرنے کا کام کیا جاسکتا ہے۔بلکہ یہ کام مرحلہ وار طور پر بھی ہوسکتا ہے۔
چوں کہ آئندہ سال جن ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں وہاں سب سے پہلے ‘ایس آئی آر’ کرایا جاسکتا ہے۔پھر بعد میں ملک کی دیگر ریاستوں میں کرایا جاسکتا ہے۔لیکن الیکشن کمیشن کو تین ریاستوں’مغربی بنگال’ ‘ٹامل ناڈو’ اور’کیرالا’ میں ‘ایس آئی آر’کرانا دشوار کن ثابت ہوسکتا ہے۔کیوں کہ ممتا دیدی نے صاف طور پر کہہ دیا کہ وہ اپنی ریاست میں ‘ایس آئی آر’ہونے نہیں دیں گی۔اب ‘ایس آئی آر’ مہم ایک سیاسی جنگ میں تبدیل ہوچکی ہے۔جس کی وجہ سے حکمراں طبقہ اور اپوزیشن پارٹیوں کے درمیان پھر سے سیاسی جنگ چھڑنے کا امکان ہے۔الیکشن کمیشن بیک وقت ملک بھر میں ‘ایس آئی آر’ کرانے کے موقف میں ہے۔لیکن یہ نا ممکن ہے۔پھر بھی الیکشن کمیشن ملک بھر میں ‘ایس آئی آر’ کرانے کے لیئے جتنی تیزی سے اپنے قدم آگے بڑھا رہا ہے۔اس سے یہ اندیشہ ظاہر کیا جاسکتا ہے کہ ان کا اصل ہدف ‘آسام’ اور ‘مغربی بنگال’ ہے۔جہاں پر ‘بنگالی مسلمانوں’ کے نام کا استعمال کرتے ہوۓ بڑے پیمانے پر ‘راۓ دہندہ گان’ کو ‘راۓ دہی فہرست’ سے حذف کرنے کا کام کیا جاسکتا ہے۔
‘ایس آئی آر’ کے خلاف راہل گاندھی اور تیجسوی یادو نے مل کر بہار میں سولہ دن کی "ووٹ ادھیکار یاترا” چلائی۔اور اس یاترا کو پورے بہار میں سراہا گیا۔اس یاترا کا سب سے اہم آخری دن پٹنہ میں ہونے والا جلسہ عام تھا۔اس روز راہل گاندھی نے "ایٹم بم” کے بعد اب "ہایئڈروجن بم” پھوڑنے کا اعلان کیا۔راہل گاندھی کا یہ اعلان معمولی نہیں بلکہ غیر معمولی تھا۔کہا جاتا ہے جو سچ اور حق پر ہوتا ہے۔وہ کسی سے نہیں ڈرتا۔ایسے ہی راہل گاندھی کا یہ اعلان موجودہ سرکار اور الیکشن کمیشن کی نیندیں آڑا دینے والا ہے۔”ووٹ چوری” کو لے کر راہل گاندھی نے پہلے ہی جو انکشافات کیئے ان الزامات کو الیکشن کمیشن نے آج تک بھی غلط ثابت کرکے نہیں دکھایا۔جس سے راہل گاندھی اور حزب اختلا ف جماعتوں کے حوصلوں کو مزید تقویت ملی ہے۔راہل گاندھی کے "ہائیڈروجن بم” والے اعلان سے ایک دھندلی تصویر صاف ہورہی ہے کہ وہ کرناٹک کی اسمبلی نشست کی طرح کسی رکن پارلیمان کی نشت کا گھیراؤ کر رہے ہیں۔جہاں سے”ووٹ چوری” ہوئی ہوگی۔
بیش تر مبصرین کی یہ راۓ ہے کہ "ہائیڈروجن بم” کی نسبت "ووٹ چوری” کے متعلق ہی ہوگی۔جس وقت راہل گاندھی نے "ووٹ چوری” کے متعلق "ہائیڈروجن بم” پھوڑنے کا اعلان کیاتھا۔راقم الحروف کا بھی فوری خیال وارانسی پارلیمانی حلقہ کی طرف گیا۔ شائد ممکن ہے کہ راہل گاندھی اترپردیش کے وارانسی حلقہ پارلیمنٹ کے بارے میں انکشاف کریں گے یا مہاراشٹر کا، یہ تو عوام کے لیئے ایک سرپرائیز کی طرح ہوگا۔لیکن راہل گاندھی نے کہا تھا کہ "ایٹم بم” سے ذیادہ”ہائیڈروجن بم” خطرناک ہوتا ہے۔ان کا یہ بیان اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ضرور وہ نشست وارانسی ہی ہوگی۔جہاں سے ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی رکن پارلیمان منتخب ہوکر جیتے ہیں۔جنھیں سال 2024 میں 6 لاکھ 12 ہزار ووٹ حاصل ہوۓ تھے۔اور ان کے حریف کانگریسی امیدوار اجے راۓ کو 4 لاکھ59 ہزار ووٹ حاصل ہوۓ تھے۔جس پر نریندر مودی کو قریب قریب ایک لاکھ 53 ہزار ووٹوں کی سبقت برقرار ہے۔دل چسپ بات یہاں یہ تھی کہ راۓ دہی کے دن دو سے زائد بار کانگریسی امیدوار نریندر مودی کو پیچھے چھوڑ چکے تھے۔پھر قطعی نتائج میں نریندر مودی نے جیت درج کرلی تھی۔
اگر وارانسی کا سابقہ ریکارڈ دیکھا جاۓ تو نریندر مودی نے سال 2014 اور 2019 میں 4 لاکھ سے زائد ووٹوں سے جیت درج کروائی تھی۔اور سال 2024 میں اجے راۓ کا ساڑھے چار لاکھ ووٹ حاصل کرنے کو غیر معمولی مقام سمجھا جاتا ہے۔ایک تو نریندر مودی کا اتنی کم سبقت سے جیت درج کروانا ان کمزور ہوتی ‘مودی لہر’ کو پیش کرتا ہے۔دوسرا وارانسی جیسے علاقے میں نریندر مودی کی مقبولیت کا گھٹنا خود ان کی شخصیت کو ‘متاثر’ کرتا ہے۔تیسرا ان کے حریف کا نریندر مودی کے مد مقابل اس قدر ووٹ حاصل کرنا ‘غیر معمولی’ کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔اگر راہل گاندھی وارانسی پارلیمانی حلقے پر اپنا "ہائیڈروجن بم” پھوڑتے ہیں تو”ووٹ چوری” کے معاملے میں اسے بہت بڑی جرات سے "تشبیہ” دی جاسکتی ہے۔اور یہ جرات صرف راہل گاندھی ہی کرسکتے ہیں۔اگر راہل گاندھی ایسا کرتے ہیں تو الیکشن کمیشن پھر سے بری طرح پھنس جاۓ گا۔اور الیکشن کمیشن کا کیا رد عمل سامنے آۓ گا۔یہ تو وہ وقت ہی بتا سکتا ہے۔
اگر راہل گاندھی وارانسی پارلیمانی نشست پر اپنا "ہائیڈروجن بم” پھوڑتے ہیں تو بہت سے سوالات کھڑے ہوسکتے ہیں۔خود ہمارے وزیر اعظم جس عہدے پر براجمان ہیں کیا وہ بھی مشکوک دائرے میں نہیں آجاۓ گا؟کیا اگر ایسا انکشاف ہوگا تو مبینہ” ووٹ چوری” جمہوریت پر "شب خون” مارنے کے مترادف نہیں کہلاۓ گا؟دوسری طرف الیکشن کمیشن "ووٹ چوری”کے معاملے میں کیا جواب دے گا؟ یا پھر ایسے ہی مضحکہ خیز باتیں کرے گا جیسے "ایٹم بم” پھوڑنے کے بعد بوکھلاہٹ میں دیا ہے؟دیکھنا یہ ہے کہ آگے آگے کیا ہوتا ہے۔لیکن الیکشن کمیشن کا موجودہ طرز عمل بتا رہا ہے کہ وہ "ووٹ چوری الزامات” اور "ثبوتوں” کے پیش کرنے کے بعد بھی وہ اپنی حیثیت اور آئینی بقاء کو یقینی بنانے کے بجاۓ اس کے متضاد راستے کو اختیار کیا ہوا ہے۔جس سے الیکشن کمیشن کے آمرانہ رویہ کو دیکھ کر کیا یہ شبہ نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اس کے پیچھے ایک بڑی لابی کام کر رہی ہے؟
جس کو یوں سمجھا جاسکتا ہے جب الیکشن کمیشن پر راہل گاندھی نے الزامات عائد کیئے۔تب الیکشن کمیشن سے ذیادہ موجودہ سرکار میں بیٹھے سیاست داں تذبذب میں نظر آۓ۔بلکہ الیکشن کمیشن کا بھر پور دفاع بھی کررہے تھے۔جب کہ الیکشن کمیشن کا سیاست اور سیاسی قائدین سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔پھر بھی بھاجپا کے قائدین کے بیانات میں دونوں کا بھر پور تعلق نظر آرہا تھا۔اب دیکھنا یہ دل چسپ ہوگا کہ الیکشن کمیشن ‘ایس آئی آر’ کو کیا ملک بھر میں ایک وقت میں کرایا جاۓ گا؟ یا اس سے قبل راہل گاندھی کا "ہائیڈروجن بم” پھٹے گا۔اور یہ بھی دیکھنا دل چسپ رہے گا کہ "ہائیڈروجن بم” کیسی ہل چل مچاتا ہے۔یہی ہل چل آگے کی سیاست کا صحیح راستہ طئے کرے گی۔اور امید ہے کہ راہل گاندھی کا”ہائیڈروجن بم” بہار اسمبلی انتخابات سے قبل ہی پھٹے گا۔تاکہ انھیں "ووٹ چوری” کا بھر پور فائدہ حاصل ہو۔



