اسرائیلی قیدیوں کی بازیابی کیلئے تل ابیب میں احتجاج

نئی دہلی ۔ قابض اسرائیل کے مختلف شہروں بالخصوص تل ابیب اور مقبوضہ بیت المقدس میں ہفتے کی شب ہزاروں صہیونی مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔ یہ احتجاج ان اسرائیلی قیدیوں کی بازیابی کے لیے کیا گیا جنہیں فلسطینی مزاحمتی تنظیموں نے غزہ میں قید کر رکھا ہے۔ عبرانی اخبار "ہارٹز” کے مطابق ان مظاہروں میں بڑے پیمانے پر شرکت دیکھی گئی۔
یہ احتجاج اس وقت دوبارہ شروع ہوا جب قابض اسرائیل کی جانب سے ایران پر بارہ روزہ فوجی حملہ مکمل ہوا جو 13 جون سنہ2025ء کو شروع ہوا تھا۔ اس دوران اسرائیل، امریکہ اور ایران کے مابین شدید جھڑپیں اور حملے دیکھے گئے۔ بالآخر 24 جون کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کا اعلان کیا۔
صہیونی مظاہروں کے دوران اس وقت ایک نئی بحث چھڑ گئی جب امریکی صدر نے جمعہ کے روز یہ عندیہ دیا کہ ممکنہ طور پر آئندہ ہفتے غزہ میں بھی جنگ بندی کا اعلان ہو سکتا ہے۔ امریکی بیان پر قابض اسرائیلی حکومت میں بے چینی پھیل گئی، اور صہیونی ذرائع ابلاغ کے مطابق، اسرائیلی حکام نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کے مؤقف میں کسی تبدیلی کے آثار نہیں ہیں۔
ادھر فلسطینی اسلامی تحریک حماس نے نہایت واضح اور دوٹوک مؤقف اختیار کیا ہے کہ وہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی پر مبنی ایک متوازن معاہدے کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ غزہ میں جاری نسل کشی ختم کی جائے، محاصرہ مکمل طور پر اٹھایا جائے، اور تمام فلسطینی اسیران کو رہا کیا جائے۔
مگر بنجمن نیتن یاھو اپنی سیاسی بقا کی خاطر مسلسل نئے مطالبات پیش کر رہا ہے جن میں فلسطینی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے جیسے ناقابل قبول شرائط شامل ہیں۔ صہیونی اپوزیشن نے نیتن یاھو کے اس طرز عمل کو کھلی چالاکی اور وقت حاصل کرنے کی سیاسی کوشش قرار دیا ہے۔
امریکہ کی جانب سے صدر کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے ایک تجویز پیش کی ہے جس کے تحت ابتدائی 60 دنوں کی جنگ بندی کے دوران نصف زندہ قیدی قتل ہونےوالے اسرائیلی قیدیوں کی نصف لاشیں واپس کی جائیں گے، اور اسی دوران مکمل جنگ بندی کے لیے مذاکرات جاری رہیں گے۔
ذرائع کے مطابق حماس نے اس تجویز کا جواب ثالثی کرنے والوں کو دے دیا ہے اور واضح کر دیا ہے کہ کسی بھی معاہدے میں مکمل جنگ بندی، غزہ سے مکمل انخلاء اور انسانی امداد کی فراہمی کی مکمل ضمانت لازمی ہونی چاہیے۔
قابض اسرائیل کے اندازوں کے مطابق اس وقت تقریباً 50 صہیونی قیدی غزہ میں موجود ہیں، جن میں سے 20 زندہ ہیں۔ جبکہ قابض اسرائیلی جیلوں میں اس وقت 10,400 سے زائد فلسطینی قید ہیں، جنہیں تشدد، بدسلوکی اور طبی غفلت جیسے وحشیانہ مظالم کا سامنا ہے۔ انہی وجوہات کی بنا پر کئی فلسطینی اسیران جام شہادت نوش کر چکے ہیں، جس کی تصدیق انسانی حقوق کی فلسطینی اور اسرائیلی تنظیموں نے بھی کی ہے۔
یہ سارا منظرنامہ اس جنگی جنون کا حصہ ہے جو قابض اسرائیل نے امریکہ کی پشت پناہی میں 7 اکتوبر سنہ2023ء سے غزہ پر مسلط کر رکھا ہے۔ اس نسل کشی میں اب تک 1,89,000 سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں۔ 11,000 سے زائد افراد لاپتا ہیں، ہزاروں خاندان بے گھر اور دربدر ہو چکے ہیں اور بھوک و افلاس سے سینکڑوں جانیں جا چکی ہیں۔
اس درندگی پر عالمی برادری، حتیٰ کہ بین الاقوامی عدالت انصاف کی طرف سے دیے گئے احکامات کو بھی مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔