غزہ جنگ کے خاتمہ کے لئے ٹرمپ کا 20 نکاتی امن منصوبہ، فلسطینی اتھارٹی اور عرب ممالک کی حمایت، اسلامی جہاد کی مخالفت

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجامن نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد غزہ کی جنگ ختم کرنے کے لئے 20 نکات پر مشتمل ایک امن منصوبہ پیش کیا ہے، جسے نیتن یاہو نے خیرمقدم کیا ہے۔
نئے منصوبے میں حماس کو غیر مسلح کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جسے مغربی کنارے میں حکمرانی کرنے والی فلسطینی اتھارٹی (پی اے) نے بھی قبول کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی خطے کے کئی عرب ممالک نے بھی اس منصوبے کی حمایت کی ہے۔
حماس کا کہنا ہے کہ وہ امریکی تجویز کا ’’نیک نیتی‘‘ سے مطالعہ کر رہی ہے، تاہم فلسطینی اسلامی جہاد (پی آئی جے) نے اس منصوبے کو ’’خطے کو تباہی کی طرف دھکیلنے کا نسخہ‘‘ قرار دیا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ ’’غزہ پر جنگ ختم کرنے کے لیے مخلص اور انتھک کوششوں کا خیر مقدم کرتی ہے اور ٹرمپ کی امن کی راہ تلاش کرنے کی صلاحیت پر اعتماد کا اظہار کرتی ہے۔‘‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پی اے ’’امریکہ، خطے کے ممالک اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر ایک جامع معاہدے کے ذریعے غزہ کی جنگ ختم کرنے کے لئے پُرعزم ہے، جس میں غزہ تک انسانی امداد کی فراہمی، یرغمالیوں اور قیدیوں کی رہائی کو یقینی بنایا جائے۔‘‘
پی اے نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ایسے میکانزم بنائے جائیں جو فلسطینی عوام کا تحفظ کریں، جنگ بندی کا احترام اور دونوں فریقوں کے لئے سلامتی کو یقینی بنائیں، زمین کے الحاق اور فلسطینیوں کی بے دخلی کو روکیں، بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی یکطرفہ کارروائیوں کو بند کریں، فلسطینی ٹیکس فنڈز جاری کریں، مکمل اسرائیلی انخلا کی راہ ہموار کریں اور فلسطینی سرزمین و اداروں کو غزہ اور مغربی کنارے بشمول مشرقی یروشلم میں متحد کریں۔‘
بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ اقدامات قبضے کے خاتمے اور دو ریاستی حل پر مبنی ایک منصفانہ امن کی راہ ہموار کریں گے، جس کے تحت آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست اسرائیل کے ساتھ امن، سلامتی اور اچھے ہمسائیگی کے اصولوں پر ساتھ ساتھ قائم ہوگی۔
دوسری جانب حماس کے ساتھ مل کر لڑنے والے فلسطینی گروپ اسلامی جہاد نے ٹرمپ کے منصوبے کو ’’فلسطینی عوام کے خلاف جارحیت کو جاری رکھنے کا نسخہ‘‘ قرار دیا۔ اس کے مطابق اسرائیل اس منصوبے کے ذریعے، امریکہ کی مدد سے، وہ سب حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو وہ جنگ کے ذریعہ حاصل نہ کر سکا۔
اسی دوران کئی مسلم ممالک مصر، انڈونیشیا، اردن، پاکستان، قطر، سعودی عرب، ترکی اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے، جس میں ٹرمپ کی ’’غزہ میں جنگ ختم کرنے کی مخلصانہ کوششوں‘‘ کا خیر مقدم کیا گیا اور ان کی امن کی راہ تلاش کرنے کی صلاحیت پر اعتماد کا اظہار کیا گیا۔
بیان میں کہا گیا کہ ان ممالک نے صدر ٹرمپ کی اس تجویز کا خیر مقدم کیا ہے جس میں جنگ کے خاتمے، غزہ کی دوبارہ تعمیر، فلسطینی عوام کی بے دخلی کو روکنے، جامع امن کو آگے بڑھانے اور مغربی کنارے کے الحاق کو نہ ہونے دینے کا اشارہ دیا گیا ہے۔
مزید کہا گیا کہ یہ ممالک امریکہ کے ساتھ مل کر غزہ کی جنگ کو ایک جامع معاہدے کے ذریعے ختم کرنے کے لیے تیار ہیں، جس میں غزہ تک بلا روک ٹوک انسانی امداد کی ترسیل، فلسطینیوں کی بے دخلی نہ ہونا، یرغمالیوں کی رہائی، ایک ایسا سکیورٹی میکنزم جو تمام فریقوں کے لئے سلامتی کی ضمانت دے، مکمل اسرائیلی انخلا، غزہ کی تعمیر نو اور دو ریاستی حل کی بنیاد پر ایک منصفانہ امن کی راہ بنانا شامل ہے، جس کے تحت غزہ کو مغربی کنارے کے ساتھ ایک فلسطینی ریاست میں ضم کیا جائے گا۔ یہ علاقائی استحکام اور سلامتی کے لیے کلیدی عنصر ہوگا۔