انٹر نیشنل

غزہ کے ہزاروں جبری گمشدگان کو کہاں رکھا گیا ہے؟

نئی دہلی: کلب برائے اسیران نے بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں اور اداروں سے فوری اور ہنگامی بنیادوں پر متحرک ہونے، غیر جانبدار فیلڈ انکوائری کمیٹیاں تشکیل دینے، قابض اسرائیل کے حراستی کیمپوں کے دروازے عالمی

 

 

نگرانی کے لئے کھولنے اور غزہ کے ہزاروں اسیران کے انجام کو منظر عام پر لانے کا مطالبہ کیا ہے۔کلب برائے اسیران نے کہا کہ جبری گمشدگی، جسمانی تصفیہ اور اذیت دے کر ہلاکت جیسے اقدامات کھلے عام جنگی جرائم ہیں اور اگر

 

 

عالمی برادری کا یہ پراسرار خاموش تماشائی پن جاری رہا تو یہ پوری انسانیت کے ماتھے پر بدنما داغ ہوگا۔قانونی اور انسانی اعداد و شمار کے مطابق قابض اسرائیل نے سات اکتوبر سے اب تک غزہ کے ہزاروں اسیران کو جبری گمشدگی

 

 

کی پالیسی کے تحت رکھا ہے۔ یہ پالیسی ایک منظم حربہ ہے تاکہ ان کے خلاف کی گئی اجتماعی قتل و غارت گری اور میدانی پھانسیوں پر پردہ ڈالا جا سکے۔ بالخصوص ان پر جو مزاحمتی کارروائیوں میں شامل تھے یا اس دن سرحد پار کر گئے تھے۔

 

 

یہ حکمت عملی دراصل اسی قانونِ اعدامِ اسیران کی عملی شکل ہے جس کا مطالبہ قابض حکومت کے انتہا پسند وزراء کرتے رہے ہیں۔ اگرچہ یہ قانون باضابطہ طور پر کنیست سے منظور نہیں ہوا مگر حقیقت میں قابض فوج اسے نافذ العمل کر

 

 

چکی ہے۔ اس کے تحت درجنوں اسیران کو شہید کیا گیا اور ان کا سراغ جان بوجھ کر چھپا دیا گیا تاکہ قانونی جواب دہی سے بچ سکیں۔اب تک قابض اسرائیل نے غزہ کے اسیران کی درست تعداد، ان کی حالت یا مقاماتِ حراست کے بارے میں

 

 

کوئی واضح معلومات فراہم نہیں کیں۔ صرف جزوی اعتراف کیا ہے کہ تقریباً 2800 فلسطینی "غیر قانونی جنگجو” کے استثنائی قانون کے تحت قید ہیں، جو کسی بھی عام شہری کو بغیر کسی الزام یا مقدمے کے غیر معینہ مدت تک قید رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔

 

 

تاہم قابض اسرائیل شعوری طور پر ناموں اور حالات کو چھپاتا ہے اور اس کے گرد سخت راز داری قائم رکھتا ہے تاکہ جسمانی تصفیہ، سست رفتار قتل اور اذیت ناک اذیتیں بے روک ٹوک جاری رکھی جا سکیں۔

 

 

یہ منظم اندھیرا واضح کرتا ہے کہ غزہ کے اسیران ایک طرف میدانی اعدام کے ہتھوڑے تلے پس رہے ہیں، جو گرفتاری اور ہتھکڑی لگتے ہی عمل میں آ جاتا ہے، اور دوسری طرف فوجی کیمپوں جیسے "سدی تیمان” کی اذیت گاہوں میں بدترین

 

 

وحشیانہ تشدد سہہ رہے ہیں، جہاں تفتیش کے دوران اموات بھی ہو جاتی ہیں اور اکثر ان کا اعتراف بھی نہیں کیا جاتا۔ جو بچ نکلتے ہیں وہ بھی اذیت کے بدترین مراحل سے گزرتے ہیں: حساس حصوں پر بجلی کے جھٹکے، پولیس کتوں کے

 

 

ذریعے حملے، گھنٹوں تیز دھوپ میں باندھ کر رکھنا، غسل اور نمازوں سے محرومی، بھوک پر مجبور کرنا اور جسم و سر پر بدترین تشدد۔یہ مظالم یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ قابض صہیونی فوجیوں نے اسیران کے ساتھ جنسی زیادتی کی اور اس

 

 

پر عبرانی میڈیا میں کھلے عام فخر بھی کیا۔ یہ سب عالمی قوانین اور انسانی اقدار کی کھلی پامالی ہے جس میں بچوں اور بڑوں کے درمیان کوئی امتیاز نہیں کیا گیا۔اس وحشیانہ پالیسی کے نتیجے میں سات اکتوبر سے اب تک کم از کم 46

 

 

غزہ کے اسیران اپنی شناخت کے ساتھ شہید ہو چکے ہیں۔ ان کی شہادت اذیت، طبی غفلت اور قید و بند کی بدترین حالتوں کے باعث ہوئی۔ خدشہ ہے کہ مزید سینکڑوں اسیران اب بھی جبری گمشدگی کی تاریک دیواروں کے پیچھے زندگی اور موت کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں۔

 

متعلقہ خبریں

Back to top button