اور بھی دورِ فلک ہیں ابھی آنے والے – مودی حکومت کے گیارہ سال بے مثال یا بدحال؟

تحریر:سید سرفراز احمد
کسی بھی فرد، جماعت،یا تنظیم میں خوبیوں اور خامیوں کا پایا جانا عام سی بات ہے۔اگر چہ آپ میں خوبیاں ہوں تو ظاہر ہے کہ کوئی بھی آپ کی طرف انگلی اٹھانے سے پہلے سو بار سوچے گا۔اگر اس کے برعکس خامیاں ہوں تو آپ کو تنقید کا نشانہ بنایا جاۓ گا۔یا آپ کی خامیوں کو دور کرنے کی غرض سے اصلاح کی جاۓ گی۔اگر چہ کہ آپ اس کے لیئے تیار ہوں۔لیکن اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کی صرف خوبیوں کو ہی سراہا جاۓ اور خامیوں کو درکنار کیا جاۓ تو دنیا آپ کو خوشامد پسند انسان کی نگاہ سے دیکھے گی۔خامیاں تب ہی اچھی لگتی ہے جب فرد یا جماعت اپنے آپ کا جائزہ یا احتساب کرنے پر رضا مند ہوجاۓ۔اگر ہم سیاسی جماعتوں کی بات کریں گے تو ایک ایسی حقیقت سامنے آۓ گی کہ یہاں ہر کوئی خوبیوں کو گنوانا چاہتا ہے۔اور اپنی خامیوں کو دور کرنا تو بہت دور کی بات ہے بلکہ وہ اپنی خامیوں کا اقرار بھی کرنا نہیں چاہتا۔اگر اس سے آگے بڑھ کر دیکھیں تو سیاست ہی وہ واحد شعبہ ہے جہاں غرور و تکبر کا نشہ سر چڑھ کر بولتا ہے۔لیکن یہی سیاست جب منہ کے بل گراتی ہے تو اٹھنا تو دور سنبھلنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔
ان دنوں مودی سرکار کے گیارہ سال مکمل ہونے پر بھاجپا کے گلیاروں میں جشن کا ماحول ہے۔اہم سوال یہ ہے کہ دس سال مکمل ہونے پر جتنا جشن نہیں منایا گیا وہ گیارہ سال مکمل ہونے پر کیوں منایا جارہا ہے؟اور پھر گیارہ سال مکمل ہونے کے بڑے بڑے اشتہارات ہورڈنگس کیوں لگاۓ جارہے ہیں؟جس پر حسب معمول صرف اور صرف نریندر مودی کی تصویریں موجود ہیں۔پہلے ہم اس جشن کی لابی کو سمجھتے ہیں اور پھر مودی سرکار کے گیارہ سال کے دورانیہ پر گفتگو کرتے ہیں۔اس جشن کو سمجھنے کے لیئے یہاں تین باتوں کا تذکرہ لازمی ہے۔ایک تو آئندہ تین یا چار ماہ کے اندر بہار اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔بھاجپا چاہتی ہے کہ ایکناتھ شنڈے کی طرح نتیش کمار کا بہار سے صفایا کرتے ہوۓ بہار کی کرسی حاصل کی جاۓ۔تب ہی نریندر مودی سرخیوں میں رہنا چاہتے ہیں۔اسی لیئے انھوں نے بہار میں سندور کو سیاسی ہدف بنا رکھا ہے۔پتہ نہیں سرخ آنکھ رکھنے والے ہمارے وزیراعظم کا جسم آخر کس چیز سے بنا ہوا ہے۔کیونکہ ان کی رگوں میں وقفہ وقفہ سے لہو کے علاوہ طرح طرح کی چیزیں دوڑتی رہی۔جو انھوں نے خود اپنی زبان سے مختلیف سیاسی جلسوں میں کہا۔اب نریندر مودی کی رگوں میں گرم سندور دوڑ رہا ہے۔پہل گام حملے میں خواتین کے بکھرنے والے سندور کو بھاجپا بہار کی خواتین میں تقسیم کرتے ہوۓ اپنی سیاسی طاقت کو مضبوط بنانا چاہتی تھی۔لیکن آپ اپنے دام میں صیاد آگیا۔
دوسرا نکتہ بھاجپا کے قومی صدر کو کے کر آر ایس ایس اور بھاجپا میں رسہ کشی جاری ہے۔بھاجپا کی مربی تنظیم چاہتی ہے کہ ہماری منشاء کے مطابق قومی صدر بنے۔اس سے متعلق سنگھ نے واضح کردیا کہ سنجے جوشی کو قومی صدر بنایا جاۓ۔لیکن گجراتی جوڑی سنجے جوشی کو لانا نہیں چاہتی۔وہ اس لیئے کہ سنجے جوشی اگر بھاجپا کے قومی صدر بنتے ہیں تو گجراتی جوڑی کا کہیں بھی نام و نشان باقی نہیں رہے گا۔کیونکہ سنجے جوشی ایک زخمی کھلاڑی کی طرح ہیں جنھیں اس گجراتی جوڑی نے مختلیف سازشوں کے ذریعہ انھیں پارٹی سے دور رکھا تھا۔ایسے میں سوال یہ بھی ہے کہ سنگھ کے اصولوں کے مطابق مودی اپنی معیاد بھی مکمل کرنے جارہے ہیں۔جن کے پیروں تلے زمین کھسکنے لگی ہے۔تب ہی نریندر مودی نے دو ماہ قبل آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر پہنچ کر موہن بھاگوت سے ملاقات کی تھی۔نریندر مودی کا اپنی دور حکومت میں یہ پہلا دورہ تھا۔آئندہ دنوں میں یہ سب واضح ہوجاۓ گا کہ کون کہاں ہوگا۔لیکن ان سب مسائل سے مودی اور شاہ کی جوڑی پریشان حال ہے۔تیسرا نکتہ پہل گام حملے کو لے کر ہے۔دہشت گرد حملے کے بعد آپریشن سندور کیا گیا۔اور اتنی ہی جلدی جنگ بندی بھی کردی گئی۔لیکن اس آپریشن سندور کی آڑ میں سرکار سکیورٹی چونک کی ناکامی کو عوام سے اوجھل رکھنا چاہی۔جس کا درباری میڈیا نے بھی بھر پور تعاون کیا۔لیکن عوام نے اپنی عقلوں کو دوڑاتے ہوۓ کھرے اور کھوٹے کا فرق سمجھنے لگی۔اور یہ سوال عوام کے زہنوں میں آج بھی سوال بن کر رہ گیا کہ کیا حقیقی دہشت گردوں کو ان کے کیئے سزا ملی بھی یا نہیں؟
مودی سرکار کے دور حکمرانی کے گیارہ سال مکمل ہوچکے ہیں۔دہلی میں بھاجپا ہیڈ کوارٹر پر تقریب منعقد کی گئی۔جہاں جے پی نڈا نریندر مودی نے اپنی دور حکمرانی کے گیارہ سالوں کو ترقی کا نام دیا۔ملک کے ایک سو چالیس کروڑ باشندوں کو اس دور حکمرانی میں آسانیاں فراہم کرنے کا ڈھنڈورا پیٹا گیا۔سب کا ساتھ سب کا وکاس سب کا وشواس کے جھوٹے دعوے کیئے گئے۔نظم و ضبط کی پابندی پر بھی فریب کی ریوڑیاں تقسیم کی گئی۔اور ملک کے مستقبل کے لیئے پر امید اعتماد اور عزائم کے ساتھ آگے بڑھنے کا جھانسہ دیا گیا۔دوسری طرف کانگریس پارٹی کے قومی صدر ملیکا رجن کھرگے نے اس دور حکمرانی کو ناکام اور آئنی ڈھانچے کو ذک پہنچانے والے دور سے تعبیر کیا۔ان گیارہ برسوں میں مودی حکومت نے جمہوریت، معیشت اور سماجی تانے بانے کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔انھوں نے کہا کہ بی جے پی آر ایس ایس نے ہر آئینی ادارے کو کمزور کر کے ان کی خودمختاری پر شدید حملہ کیا ہے۔مختلیف سازشوں کے تحت ریاستی حکومتیں گرائی گئی۔ملک میں نفرت، آمریت اور خوف کا ماحول پھیلانے کی کوشش مسلسل جاری ہے۔ دلت، قبائلی، پسماندہ، اقلیتی اور کمزور طبقات کا استحصال مسلسل بڑھا ہے۔ انھیں تحفظات اور مساوات کے حقوق سے محروم رکھنے کی سازش آج بھی جاری ہے۔
منی پور کا نہ رکنے والا تشدد بی جے پی کی انتظامی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس نے ملک کی جی ڈی پی ترقی کی شرح کو۶-۵ فیصد تک محدود کر دیا۔ سالانہ دو کروڑ نوکریوں کا وعدہ صرف ایک فریب تھا۔بلکہ اس کے برعکس نوجوانوں سے کروڑوں نوکریاں چھین لی گئیں۔ مہنگائی عروج پر ہے۔نوٹ بندی، غلط جی ایس ٹی، غیر منصوبہ بند لاک ڈاؤن اور غیر منظم شعبے پر ہتھوڑا چلا کر کروڑوں نوجوانوں کا مستقبل تباہ کیا گیا۔ میک ان انڈیا، اسٹارٹ اپ انڈیا، اسٹینڈ اپ انڈیا، ڈیجیٹل انڈیا، سو اسمارٹ شہر، سب ناکام ہوئے۔ ریلوے کا بیڑا غرق کیا گیا۔کھرگے نے یہاں تک کہہ دیا کہ میئں نے اپنے سیاسی کیرئیر میں اتنا جھوٹ بولنے والا وزیراعظم کبھی نہیں دیکھا۔آپریشن سندور کے بعد حزب اختلاف کے قائدین نے پارلیمانی سیشن چلانے کا دباؤ بنایا۔جس پر کرن رجیجو نے اعلان کیا کہ مانسون بجٹ سیشن21 جولائی سے12 اگسٹ تک چلے گا۔مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ بجٹ سیشن بہت اہمیت کا حامل رہے گا۔اپوزیشن اہم ایجنڈوں پر بحث کرنے والی ہے۔اصل بات یہ ہے کہ مودی سرکار نے ان گیارہ سالوں میں جتنے فیصلے لیئے ہیں وہ ہندوتوا کو نظر میں رکھتے ہوۓ لیئے گئے۔نہ ہی ملک کے مستقبل کو سامنے رکھا گیا اور نہ ہی عوامی مفادات کو ملحوظ رکھا گیا۔مودی سرکار کا صرف ایک ہی نشانہ تھا کہ ہر حال میں اس وطن عزیز کی زمین مسلمانوں پر تنگ کی جاۓ۔اسی کو مد نظر رکھتے ہوۓ آرٹیکل 370 کو ہٹایا گیا۔تین طلاق کا قانون،سی اے اے،این آر سی،یکساں سول کوڈ،اور اب وقف ترمیمی قانون کو لایا گیا۔
مودی دور حکومت کے ان گیارہ سالوں میں درجنوں ہجومی تشدد کے واقعات پیش آۓ۔جو مودی سرکار کی ہی دین ہے کہ جیسے ہی یہ برسر اقتدار میں آتے ہیں اچانک ہجومی تشدد کے واقعات رونما ہونے لگے۔کیونکہ اس کے پیچھے ان ہی سیاسی سودا گروں کا ہاتھ تھا جو شب و روز نفرت پھیلارہے تھے۔تعجب خیز بات یہ بھی ہے کہ آج تک بھی ہجومی تشدد کے واقعات میں کوئی کمی نہیں آئی۔مطلب صاف ہے کہ سرکار ان دہشت پھیلانے والوں کو کھلی چھوٹ دینا چاہتی ہے۔کیا اس کو ملک کی ترقی سمجھا جاۓ گا؟مزید غور طلب باتیں یہ بھی ہیں کہ یہ وہی گیارہ سالہ دور ہے جس میں بلڈوزر کلچر کو فروغ دیا گیا۔غریب بستیوں کو خاص طور پر مسلم بستوں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔کیا وزیراعظم اس بات کا جواب دے سکتے کہ بلڈوزر کلچر سے اس ملک کی ترقی آخر کیسے ہوئی؟یہ وہی گیارہ سالہ دور ہے جہاں دھرم سنسد جگہ جگہ منعقد کرتے ہوۓ مسلمانوں کی نسل کشی کرنے کے مجرمانہ بیانات دیئے گئے۔
یہ وہی گیارہ سالہ دور اقتدار ہے جس میں بارہا نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتے ہوۓ مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی۔لیکن کبھی سرکار نے کوئی مناسب کاروائی نہیں کی۔ بلکہ ان مجرموں کو ہر بار پشت پناہی حاصل رہی۔اسی لیئے نبیۖ کی شان میں گستاخیوں کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔یہ وہی گیارہ سالہ دور ہے جس میں بلقیس بانو کے مجرمین کی رہائی پر بھاجپا کے قائدین نے پھول مالا پہنا کر شان دار استقبال کیا۔یہ وہی گیارہ سال دور ہے دہلی کے منصوبہ بند فسادات کی سازش کی گئی۔جس میں مسلم طبقہ کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اسکالرس کو جھوٹے مقدمات درج کرتے ہوۓ جیلوں میں ٹھونسا گیا۔جو آج بھی پچھلے پانچ سالوں سے جیل کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔اگر ان گیارہ سالہ اقتدار کے ایک ایک روز کا حساب کیا جاۓ تو مودی سرکار کو کہیں سے بھی ایک کامیاب سرکار نہیں کہا جاسکتا۔بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ انھیں گیارہ سالہ دور اقتدار کا جشن منانے کا کوئی حق بھی نہیں پہنچتا۔
ملک کی عوام کے سامنے دنیا کی تیسری بڑی معیشت کا جھوٹا ڈوھونگ پیش کیا جاتا ہے۔اور وشو گروہ بننے کا خواب دکھایا جاتا ہے۔لیکن مہنگائی اور بے روزگاری نے ان سب کی قلعی کھول دی۔بھوک مری میں بھارت سرفہرست مقام پر پہنچ گیا ہے۔امریکہ نے بھارتی شہریوں کو ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں جکڑ کر بھارت بھیجا۔کیا اسے ہی وشو گروہ کہا جاۓ گا؟لیکن تعجب یہ تھا کہ ہمارے وزیراعظم جو سرخ آنکھیں رکھتے ہیں۔جو وشو گروہ بننے کا خواب رکھتے ہیں۔لیکن وشو گروہ کی ہمت نہیں ہوسکی کہ وہ امریکہ سے سوال کرے۔ان گیارہ سالہ دور اقتدار میں عالمی سطح کے اخبارات و اداروں نے کئی بار بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ہورہے نفرت و ظلم کے حیران کن انکشافات بھی کیئے۔ابھی تین روز قبل بی بی سی ایک رپورٹ نے بھاجپا اور یوگی کی مشکلوں میں اضافہ کردیا ہے۔مہاکمبھ میں بھگدڑ واقعہ میں یوپی سرکار نے بتایا تھا کہ اس بھگدڑ میں 37 افراد کی موت ہوئی۔لیکن بی بی سی کی رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ 82 افراد کی موت ہوئی۔بھاجپا سرکاریں چاہے وہ ریاستی حکومتیں ہوں یا مرکزی ہر محاذ پر ناکام ہوئی ہیں۔جس کی اہم وجہ یہی ہے کہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کو ستایا جانا ہے۔لیکن کبھی بھی اس سرکار نے نہ اپنی کاکردگی کا جائزہ لیا ہے نہ ہی احتساب کیا ہے۔جب کہ یہ گیارہ سالہ جشن ملک کی عوام کو صرف ایک جھانسہ دینے کے مترادف ہے۔تاکہ اس جشن سے عوام کا اعتماد حاصل کرتے ہوۓ اپنا سیاسی مستقبل برقرار رکھا جاسکے۔لیکن ہمیں امید ہے کہ بہت جلد یہ ظلم کا دور بھی تاریکی کی نذر ہوجاۓ گا۔اور ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔ان شاء اللہ بقول اکبر الہ آبادی؎
اور بھی دورِ فلک ہیں ابھی آنے والے
ناز اتنا نہ کریں ہم کو ستانے والے