بہار اسمبلی نتائج: کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

تحریر:سید سرفراز احمد
آخر کار چانکیہ نتیش کمار نے بطور وزیر اعلیٰ کا دسویں مرتبہ حلف لے لیا ہے۔ ویسے نتیش کمار کی سیاسی قسمت کہیئے یا ان کی اپنی چانکیہ گری کہیئے کبھی ان کے سیاسی ستارے گردش میں نہیں رہے۔اس بات کو اس طرح بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ نتیش کمار اگر عظیم اتحاد کا حصہ ہوتے تب بھی وزیر اعلیٰ کا منصب مل جاتا جیسے این ڈی اے میں مل چکا ہے۔یہی تو ان کی سیاسی قسمت ہے۔ ہر حال میں انھیں وزیر اعلیٰ کا عہدہ مل ہی جاتا ہے۔یوں کہا بھی جاۓ تو غلط نہ ہوگا کہ نتیش کمار کے اس وقت پانچ انگلیاں اصلی گھی میں ہے
۔ایک طرف مرکز میں بھاجپا کی بے ساکھی بن کر دولت کی بوریاں سمیٹ رہے ہیں۔دوسری طرف اپنی ریاست کے خود راجہ بھی بنے بیٹھے ہیں۔ تو نتیش کمار بہار کی خواتین کو دس دس ہزار کیوں نہیں ڈالیں گے۔ویسے بہار کی عوام کو نتیش کمار سے بہتر کوئی جان بھی کیسے سکتا۔دو دہائیوں کا جو تجربہ ہے۔ یہی نتیش کا چانکیہ پن بھی ہے جو موقع مناسبت سے سیاسی پینترے بدلتے رہتے ہیں۔شائد بھاجپا نتیش کی تعداد کو کم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ورنہ کھیل پھر پلٹ سکتا تھا۔ویسے آئندہ ایک سال میں یہ سیاسی کھیل کہاں تک چل پاۓ گا یہ تو آنے والا وقت طئے کرے گا۔
بہار اسمبلی انتخابات کے نتائج نے پورے ملک کو چونکا دیا ہے۔کیوں کہ بھاجپا ایک سو ایک امیدواروں میں سے 89 نشستیں جیت جاتی ہے۔اور جے ڈی یو بھی ایک سو ایک نشستوں میں سے 85 جیت جاتی ہے۔اگر تھوڑا اور زور لگایا جاتا تو شائد تمام نشستیں بھی نکل جاتی۔خیر مختلیف قابل و تجربہ کار تجزیہ نگاروں و زمینی سطح پر پہنچ کر سروے کرنے والوں کے تمام اندازے نہ صرف غلط ثابت ہوۓ بلکہ بری طرح سے غلط ثابت ہوۓ۔گودی میڈیا و دیگر سروے ادارے جو شب و روز بھاجپا کی گودی میں جھولا جھولتے ہیں وہ خود بھی این ڈی اے کو مجموعی طور پر 120 سے 140 تک محدود کرکے دکھایا۔لیکن نتائج نے ایسا دھماکہ کردیا کہ این ڈی اے بناء نعرہ لگاۓ "اب کی بار دو سو پار کر گئی”۔اور انڈیا اتحاد کو بری طرح شکست سے ہاتھ دھونا پڑا۔نتائج نے آر جے ڈی اور کانگریس کو وینٹی لیٹر سے بدتر حالت پر لاکر چھوڑ دیا ہے۔کانگریس جیسی قدیم پارٹی مجلس کے شانہ بہ شانہ آچکی ہے۔یہ نتائج نے انڈیا اتحاد کو ہی نہیں بلکہ عوام کو بھی تذبذب میں مبتلاء کر رکھا ہے۔اور اب بہار نتائج کے بعد کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔اور کئی انکشافات بھی ہورہے ہیں۔
بہار اسمبلی نتائج کے بعد اپوزیشن پوزیشن میں آچکا ہے۔اپوزیشن جماعتیں اپنی شکست کی وجوہات اور سازشوں کو جانچنے میں مگن ہے۔اپوزیشن بہار کے ایک طرفہ نتائج کو الیکشن کمیشن پر ایس آئی آر اور ووٹ چوری کرانے کا الزام لگارہی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا واقعی بہار انتخابات میں ایس آئی آر اور ووٹ چوری کا اہم رول رہا ہے؟ان سازشوں کو سمجھنے کے لیئے الیکشن کمیشن کے رویہ کو دیکھنا ہوگا۔ان کا رویہ خود بتادے گا کہ کیا واقعی بہار میں ایس آئی آر اور ووٹ چوری نے اپوزیشن کا کھیل بگاڑا ہے؟پہلی چیز تو بہار کی ایک کروڑ سے زائد خواتین میں ضابطہ اخلاق کے نفاذ کے عین موقع پر دس دس ہزار ان کے بینک کھاتوں میں ڈالے گئے۔جس پر الیکشن کمیشن کی جانب سے کاروائی تو دور کی بات ہے بلکہ اس کے خلاف زبان تک نہ کھولی۔بیش تر تجزیہ نگار اس دس دس ہزار جو خواتین کے کھاتوں میں ڈالے گئے اسی کو بہار کے نتائج کا اہم موڑ بتارہے ہیں۔
دوسری چیز ایس آئی آر کے ذریعہ 65 لاکھ راۓ دہندوں کو فہرست راۓ دہندہ گان سے حذف کرنا ان نتائج کا اہم کھیل سمجھا جارہا ہے۔کیوں کہ تجزیہ نگار بتارہے ہیں کہ یہی 65 لاکھ راۓ دہندہ گان کے حذف ہونے کی وجہ سے بہار کی کل 123 اسمبلی نشستوں کا اپوزیشن کو نقصان اٹھانا پڑا۔اس بات کو مختلیف پارٹیوں کو ملنے والی راۓ دہی کے تناسب سے سمجھا جاسکتا ہے۔بھاجپا نے 89 اراکین اسمبلی کی جیت کل راۓ دہی کے تناسب میں سے 20.08 فیصد ووٹ حاصل کی۔جے ڈی یو نے 85 اسمبلی نشستیں جیت کر محض 19.25 راۓ دہی کا تناسب حاصل کیا۔جب کہ آر جے ڈی کے صرف 25 امیدوار جیت درج کراتے ہیں جب کہ راۓ دہی کا تناسب سب سے ذیادہ 23 فیصد ہوتا ہے۔اسی طرح این ڈی اے اتحاد کے پاسوان 19 اسمبلی نشستیں جیت درج کراتے ہیں جس کا راۓ دہی تناسب 4.99 ملتا ہے۔وہیں پر کانگریس صرف 6 نشستیں جیت درج کراتی ہے اور راۓ دہی کا تناسب 8.71 ہوتا ہے۔ مزید اس کے علاوہ ایس آئی آر مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے بہار کی حتمی فہرست جو جاری کی گئی اس فہرست میں کل 21 لاکھ 53 لاکھ نئے راۓ دہندہ گان کا اندراج کیا گیا۔اب سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ 21 لاکھ 56 ہزار نئے راۓ دہندوں میں کیا تمام حقیقی تھے یا اس میں فرضی بھی شامل تھے؟الیکشن کمیشن پر اس طرح کے سوالات کا کھڑے ہونے کی بنیادی وجہ بہار میں جس طرز پر ایس آئی آر کرایا گیا یہی چیز شکوک و شبہات کو مزید تقویت پہنچارہی ہے۔
تیسری چیز الیکشن کمیشن فرضی راۓ دہندگان کو بہار کی راۓ دہی فہرست میں شامل کرنے کی سازشوں میں ملوث ہونے کا ایک جھول سامنے آرہا ہے۔جس میں خود چیف الیکشن کمیشن بری طرح جال میں پھنستے نظر آرہے ہیں۔جب بہار میں ایس آئی آر سروے مکمل ہوچکا تھا۔تب خود الیکشن کمیشن نے بتایا کہ بہار میں اب کل 7 کروڑ 42 لاکھ راۓ دہندے بہار کی راۓ دہی میں حصہ لیں گے۔جب دوسرے مرحلے کی راۓ دہی مکمل ہوچکی تھی۔اچانک الیکشن کمیشن نے 7 کروڑ 42 راۓ دہندوں سے 7 کروڑ 45 لاکھ کردیا۔اور بتایا کہ 3 لاکھ راۓ دہندے کا اضافہ ہوا ہے۔سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ یہ 3 لاکھ راۓ دہندے اچانک کہاں سے آگئے؟ اگر واقعی مزید 3 لاکھ راۓ دہندے اس راۓ دہی فہرست میں شامل ہوۓ ہوں تو الیکشن کمیشن نے پہلے مرحلے سے قبل کیوں نہیں بتایا؟ الیکشن کمیشن نے اس تین لاکھ اضافی ووٹرس کا پختہ ثبوت اپوزیشن جماعتوں کو فراہم کردیا ہے۔
بتایا جارہا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اس ثبوت کے ساتھ سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کی تیاری کر رہی ہے۔اور پارلیمنٹ میں تحریک عدم تعاون بھی لانے کی پیش رفت میں ہے۔اسی سے متعلق پپو یادو نے کہا کہ گیانیش کمار نے سازش کرتے ہوۓ این ڈی اے کو جتایا۔اور دعویٰ کیا کہ بہت جلد گیانیش کمار جیل کی سلاخوں کے پیچھے جائیں گے۔انھوں نے کہا کہ 21 لاکھ 53 ہزار ووٹرس کے اندراج،دوسرے مرحلے کی راۓ دہی کے بعد تین لاکھ اضافی ووٹرس کو دکھانا، 65 لاکھ ووٹرس کو حذف کرنا اور انتخابی ضابطہ اخلاق کے نفاذ کے وقت خواتین کو دس دس ہزار بینک کھاتوں میں ڈالنا یہی سب چیزیں گیانیش کمار کو جیل بھیجنے کا کام کرے گی۔
اپوزیشن جماعتیں بالخصوص کانگریس نے بہار نتائج کے بعد ٹھوس شواہد کی بناء پر سپریم کورٹ جانے کا ارادہ کرلیا ہے۔جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اب چیف الیکشن کمیشن گیانیش کمار کی پریشانیوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اسی معاملہ کو لے کر ابھی تک راہل گاندھی مختلیف مقامات کے ووٹ چوری کیسس کو عوام کے سامنے منظر عام پر لایا ہے۔پھر بھی الیکشن کمیشن اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔لیکن اب بہار نتائج کے بعد قوی امکان ہے کہ الیکشن کمیشن کے خلاف ایک بڑی عوامی تحریک کا بھی آغاز کیا جاسکتا۔جس کی ایک جھلک بنگال اور ٹامل ناڈو میں دیکھنے کو ملی ہے۔ایک بڑا سوال پورے ملک کی عوام کو کھاۓ جارہا ہے کہ آخر الیکشن کمیشن کے پیچھے وہ کونسی طاقت کام کررہی ہے جو جمہوریت کی دھجیاں اڑاتے ہوۓ جانب داری کی روش پر قائم ہے؟ بہار کی انتخابی ریالیوں میں نریندر مودی اور امیت شاہ کے وہ بیانات جس میں راہل گاندھی اور تیجسوی کا بہار سے صفایا کرنے کی بات کر رہے ہیں۔آخر انھیں پہلے سے اس بات کا کیسے علم ہوگیا؟
اپوزیشن پارٹیوں کی جانب سے ایک خبر یہ بھی سامنے آئی تھی کہ وہ اپنے جیتے ہوۓ اراکین اسمبلی کے ساتھ استعفیٰ پیش کرتے ہوۓ احتجاج درج کروائیں گے۔اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو اپوزیشن کی یہ بچکانہ حرکت ہی کہلاۓ گی۔ کیوں کہ اگر یہی کام کرنا تھا تو ایس آئی آر کے وقت ہی بہار انتخابات کا مکمل بائی کاٹ کردیتے۔لیکن اب بہت دیر ہوچکی ہے۔اب وقت ہے زمینی سطح پر جدوجہد کرنے کا، منظم انداز میں قانونی لڑائی لڑنے کا،کیوں جس برق رفتاری اور جرات کے ساتھ الیکشن کمیشن اپنے قدم آگے بڑھا رہا ہے اس سے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ نہ ممتا بنرجی کی سننے والا ہے نہ اسٹالن کی۔بلکہ ایسا لگ رہا ہے کہ وہ اپنے مقاصد کو پاۓ تکمیل تک پہنچا کر ہی دم لے گا۔لہذا اپوزیشن جماعتیں پورے عزم اور مستقل جدوجہد کے ساتھ جمہوریت کو بچانے کی لڑائی لرتے رہیں
اگر واقعی اس ملک میں ووٹ چوری ہوئی ہے اور ایس آئی آر کے ذریعہ وہ کسی اور کو ناجائز اہداف کی تکمیل کرانے میں جدوجہد کر رہے ہیں یا فرضی راۓ دہندوں کو شامل کر رہے ہیں تو ایسے بہت سے پردے اس ملک کی عوام کے سامنے بے نقاب ہوسکتے ہیں۔کیوں سو جھوٹوں کی کہانی پر ایک سچی کہانی کو کسی بھی حال میں برتری حاصل ہونا طئے ہے۔اور جس طرح سے الیکشن کمیشن کے جو تیور ہیں اس سے بھی یہ اندازہ مل رہا ہے کہ بہار اسمبلی انتخابات میں ضرور کچھ تو ہوا ہے جس کا پردہ ایک دن ضرور چاک ہوگا۔



