میں نے انسان کو انساں نِگلتے دیکھا ہے _ صنف نازک پر بڑھتے جرائم کا ذمہ دار کون؟
سید سرفراز احمد،بھینسہ تلنگانہ
مغربی ممالک اپنی تہذیب کو دنیا بھر میں پھیلانے میں کامیاب ہوچکے ہیں ان کی اس کامیابی کے پیچھے دنیا کے موجودہ حکم رانوں کا ہاتھ ہے جو عزت دار سماج کو جہنم کی آگ میں ڈھکیل رہے ہیں دوسری طرف بے روزگاری نہ صرف ایک معاشی مسلئہ ہے بلکہ برائیوں کا جنم بھی یہیں سے ہوتا ہے کہا جاتا ہے خالی دماغ شیطان کی آماجگاہ بن جاتا ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ جتنا بےروزگاری میں اضافہ ہوتا رہے گا اتنی ہی برائیوں میں اضافہ ہوتا رہے گا یہ بات بھی طئے شدہ ہے کہ بے روزگاری سماجی برائیوں کو جنم دیتی ہے سماج میں اس وقت چاروں سمت برائیوں کی افرا تفری پھیلی ہوئی ہے ہر چھوٹی سی چھوٹی اور بڑی سے بڑی برائی اس سماج کا حصہ بن چکی ہے جس میں کسی بھی طرح کوئی بھی کمی آنے کے امکانات نظر نہیں آرہے ہیں۔
جب کہ برائی کا خاتمہ تو بہت دور کی بات ہے چوری سے لیکر قتل جوے سے لیکر گانجے کا نشہ جنسی ذیادتی سے لیکر عصمت ریزی یا پھر مسائل سے دلبرداشتہ ہوکر خودکشی کی راہ اپنانا یہ سب ہمارے ملک کی اہم برائیوں میں شامل ہوچکی ہیں خصوصیت کے ساتھ دیکھا جائے تو سماج میں خواتین کے ساتھ جرائم میں بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے جہیز کے مطالبات پر شوہر اور سسرال کا ظلم و ستم چھیڑ چھاڑ کے معاملات جبراً جنسی ذیادتی اجتماعی عصمت دری اور پھر قتل ملک میں درندگی کے حدود اتنے بڑھ چکے ہیں کہ چھوٹی چھوٹی نابالغ و کمسن لڑکیوں کو بھی نہیں بخشا جارہا ہے بلکہ معصوم لڑکیوں کا اغواہ کرتے ہوئے انھیں جنسی تسکین کا ذریعہ بنانا یہ سب ہمارے سماج میں روزمرہ کی زندگی کا ناسوربن گیا ہے۔
بنگال کے کولکتہ میں ٹرینی ڈاکٹر مومتا کی فلمی انداز میں عصمت دری اور وحشیانہ قتل نے سماج کے ضمیر کو جگانے کا کام کیا اور ملک بھر سے لوگ سڑکوں پر نکل آئے اس شرم سار واقعہ نے سال 2012 میں دہلی میں ہوئے نربھیا واقعہ کی یاد تازہ کروادی 20 اگسٹ کو مہاراشٹرا کے بدلا پور میں اسکول کی چار سالہ دو لڑکیوں کی عصمت ریزی مہاراشٹرا کی عوام کو سڑکوں پر لادیا ریلوئے اسٹیشن پر سینکڑوں افراد احتجاج میں حصہ لے رہے ہیں اترپردیش میں دلت لڑکی کی عصمت ریزی کی گئی ویسے اترپردیش خواتین کی عصمت کو اچھالنے میں ہمیشہ سب سے آگے رہا ہے۔
اسی طرح دھامی سرکار کے اتراکھنڈ کے ردر پور میں مسلم نرس تسلیم جہاں کی اجتماعی عصمت ریزی اور قتل اتنا سنگین تھا کہ زرائع سے پتہ چلا ہے کہ تسلیم جہاں کی نعش کے اعضاء کاٹ دیئے گئے اور سرکے بال نکال دیئے گئے شناخت مٹانے کیلئے جسم پر کیمکل بھی ڈالا گیا بدھ کے روز دہلی میں جینتی پارک میں ایک لڑکی کی اجتماعی عصمت ریزی کی گئی جسمیں لڑکی کا ایک دوست بھی شامل ہے تلنگانہ کے سدی پیٹ میں ایک درندہ صفت حیوان نے ایک تین سالہ معصوم لڑکی کی عصمت سے کھلواڑ کیا بتایا گیا کہ اس کا تعلق ریاست اترپردیش سے ہےسچ کہیں تو یہ واقعات اس ملک میں روز کا معمول بن چکے ہیں لیکن یہ سب واقعات منظر عام پر اس لیئے آرہے ہیں کہ سماج کا ضمیر ہر کچھ سال بعد ایک ایسے ہی درد ناک واقعہ پر اچانک جاگ اٹھتا ہے پھر وقت کے ساتھ سب حسب معمول پرآجاتا ہے جب کہ ایسے واقعات روز کا معمول بن چکے ہیں۔
بھارت میں ہر چوتھاجرم درج ہونے والا عصمت ریزی کا ہوتا ہےرپورٹ کے مطابق ہمارے ملک میں ہر پندرہ منٹ میں ایک عصمت ریزی کا کیس درج ہوتا ہے اس حساب سے چوبیس گھنٹے میں 86 عصمت ریزی کے کیسس درج ہوتے ہیں اور ناجانے ایسے کتنے کیسس ہونگے جو درج نہ ہونے والوں میں شامل ہیں ہم عصمت ریزی کیسس کی گذشتہ پانچ سال کی رپورٹس کاجائزہ لیں گے نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو کے مطابق ملک بھر میں سال 2018 میں 33 ہزار تین سو عصمت ریزی کے واقعات رونما ہوئے ہیں 2019 میں 32 ہراز سے زائد عصمت ریزی کے واقعات درج کیئے گئے سال 2020 چونکہ کورونا جیسی مہلک بیماری کے دور سے گذر رہا تھا اسی لیئے اس سال 28 ہزار سے کچھ زائد کیسس درج ہوئے۔
جسمیں عصمت ریزی کیسس کی شرح میں کمی واقع ہوئی حالانکہ ہونا تو یہ چاہیئے تھا اس دوران ایسے کوئی واقعات ہی رونما نہ ہوتے کیونکہ سخت لاک ڈاؤن پھر لوگوں کا ایکدوسرے سے ہاتھ ملانا بھی موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا تو اندازہ لگایئے ایسے حالات میں بھی عصمت ریزی کے واقعات کا تدارک نہیں ہوسکا تو عام دنوں میں کیسے ہوسکے گا سال 2021 میں 31 ہزار چھ سو سے زائد عصمت ریزی کے کیسس درج ہوئے سال 2022 میں 31 ہزار پانچ سو سے زائد کیسس درج ہوئے آپ کو یہ سن کر تعجب ہوگا کہ دی اکنامکس ٹائمز رپورٹ کے مطابق نیشنل کمیشن فار ومینس نے بتایا کہ سال 2023 میں خواتین کے جملہ 28 ہزار آٹھ سو سے زائد جرائم کیسس درج کیئے گئے جس میں 16 ہزار سے زائد کیسس کا تعلق ریاست اترپردیش سے ہے یعنی کل سو فیصد کا 55 فیصد تناسب اترپردیش سے ہے۔
جس میں سب سے زیادہ شکایات عزت سے چھیڑ چھاڑ کے زمرے میں موصول ہوئیں جس کے کل کیسس کی تعداد 8,540 ہے اس کے بعد گھریلو تشدد اور ہراساں کرنے کی 6,274 شکایات موصول ہوئیں جہیز کے لیے ہراساں کرنے کی شکایات 4,797، چھیڑ چھاڑ کی شکایات 2,349، خواتین کے خلاف پولیس کی بے حسی کی شکایات 1,618، اور عصمت دری اور زیادتی کی کوشش کی شکایات 1,537 تھیں مزید اس میں بتایا گیا کہ جنسی ہراسانی کے کل 805 کیسس، سائبر کرائم کے 605، خواتین کا تعاقب کرنے کے 472 اور اسکے علاوہ معمولی واقعات کے 409 شکایات درج کی گئیں۔
اگر ہم پچھلے دس سال میں عصمت ریزی کیسس میں سرفہرست ریاستوں کا مجموعی جائزہ لیں گےتو انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ بتاتی ہے کہ بھارت میں عصمت ریزی کے کل درج ہونے والے واقعات میں سےعصمت دری کا شکار ہونے والے پانچ میں سے چار کا تعلق ان دس ریاستوں سے ہوتا ہے جن میں اول نمبر پر راجستھان پھراترپردیش، مدھیہ پردیش، مہاراشٹرا، کیرالا، آسام، ہریانہ، جھارکھنڈ، اڈیشہ اور دہلی نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے تازہ ترین دستیاب اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ان دس ریاستوں میں عصمت ریزی کے کل درج ہونے والے واقعات کی تعداد پچھلے دس سالوں میں تقریباً دوگنی ہو گئی ہے یعنی سال 2009 میں 12,772کیسس سے بڑھ کر 2019 میں 23,173 ہو چکی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پچھلے پندرہ دنوں میں ملک کے الگ الگ مقامات پر 44 عصمت ریزی کے کیسس درج ہوئے بعض کیسس درج نہ ہونے پر مظلوم خواتین نے خودکشی کا راستہ اختیار کیا بعض مقامات پر مظلوم کو حق دلوانے اور عوام کے محافظ پولیس کو مجرمین کا ساتھ دیتے ہوئے دیکھا گیا انصاف کیلئے احتجاج کرنے والے احتجاجیوں کو گرفتار کیا گیا اور ان پر لاٹھیاں برسائی گیئں لیکن وزیراعظم نے ہمیشہ کی طرح اپنی زبان کو خاموش رکھنے میں ہی عافیت سمجھی سال 2015 میں نریندر مودی حکومت نےبیٹی پڑھاؤ بیٹی بچاؤ کا نعرہ لگایا تھا نو سال عرصہ ہوگیا لیکن ان نو سالوں میں نہ ہی خواتین کا ظلم کم ہوا نہ ہی عصمت ریزی۔
بلکہ ڈبل انجن سرکار ریاستوں میں بھی عصمت ریزی کے واقعات میں اضافہ ہی دیکھا گیا کہاں ہے سمرتی ایرانی جو چیخ چیخ کر پارلیمنٹ کی در و دیوار کو ہلادیتی تھی کہاں ہے بھاجپا کی پوسٹرل گرل کنگنا رناؤت آج کیوں ان کی زبانیں بند ہوگئی ہیں جو خواتین کے حقوق کیلئے آسمان سر پر اٹھالیتی تھیں کیوں آج اپنی ہی حکومت سے سوال کرنے کی ہمت نہیں کرپارہی ہیں؟جس بلڈوزر کلچر کو بھاجپا نے فروغ دیا تھا آج ان تمام مجرمین کے گھروں پر کیوں بلڈوزر نہیں چلایا جارہا ہے؟جس کا جواب تو یہی ہوسکتا جس ملک میں انتہا درجے کے درندہ صفت مجرمین کو جیل سے رہائی کے بعد پھول مالا ڈال کر استقبال کیا جاتا ہو ایسی حکمرانی سے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ خواتین و لڑکیوں کے ساتھ ہورہے عصمت ریزی و قتل کا اصل زمہ دار کون ہے؟مختلیف زرائع سے اس کی تین وجوہات سامنے آرہی ہیں ایک تو یہ کہ مغربی تہذیب نے خواتین کی آزادی کے نام پر ہمارے ملک میں عریانیت کی تہذیب کو فروغ دیا گیا جس کے بعد خواتین کا جنسی استحصال اور عصمت ریزی روز کا معمول بن گیا ورنہ ایک وقت تھا ہندوستانی تہذیب ایک مہذب سماج کا حصہ کہلاتا تھا خواہ وہ کسی بھی مذہب سے ہو لیکن جوں جوں ترقی کے نام پر اس ملک میں فحاشی و عریانیت کو فروغ دیا گیا ویسے ویسے والدین اپنی والاد کومغربی کلچر کی طرف مائل کرتے چلے گئے آج والدین اپنی لڑکیوں کو مغربی طرز کے لباس پہنانے پر مرد و زن کے اختلاط پر فخر محسوس کرتے ہیں حالانکہ موجودہ صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ شہر ہو یا مواضعات کہیں بھی ہندوستانی تہذیب کا نام و نشان تک نہیں پایا جاتا بس جو کچھ بھی باقی ہے تو سب عمر رسیدہ افراد تک ہی سمٹ کر رہ گیا ہے۔
سب سے اہم شعبہ تعلیم ہےجس میں بھی مغربی کلچر کو فروغ حاصل ہوا جس سے لڑکا اور لڑکی میں اختلاط بڑھتا چلا گیا وقفہ قفہ سے کالجس اور یونیورسٹی و ہاسٹلس میں موج مستی شراب ڈانس اور رات دیر گئے تک مختلیف فحش تقاریب منانایہی سب کلچر کو اپنانے سے ایسے شرم ناک وعبرت ناک عصمت ریزی کے واقعات سامنے آرہے ہیں زرائع سے پتہ چلا ہے کہ ڈاکٹر مومتا کا واقعہ بھی اسی پس منظر کے تیئں پیش آیا ہے حالانکہ وہ ایسی سرگرمیوں کے سخت خلاف تھی جس سے اسی کے کیمپس کے ساتھی اس کے خلاف تھے لیکن اس کی یہی اچھائی نے اس کو درد ناک موت کے گھات اتاردیا بھلا جب ایک لڑکی پراگندہ ماحول کو برداشت نہیں کرسکتی تو اس کے ساتھ یہی ہوتا ہے چاہے وہ کیمپس میں ہو یا باہر کی جگہ سماج کے ہر شعبہ میں مغربی کلچر کو عروج حاصل ہےجب تک اس مغربی کلچر کو ختم نہیں کیا جائے گا ایسے واقعات میں کوئی کمی نہیں آئے گی مغربی تہذیب سے لایا گیا لیو ان ریلیشن شپ کو بھی بھارت سرکار نے منظوری دی ہے جس کے درجنوں کیسس سامنے آچکے ہیں حتی کے لیو ان ریلیشن شپ کے کئی ایک نقصانات سامنے آچکے ہیں کسی نے قتل کرکے نعش کے ٹکڑے ٹکڑے کرتے ہوئے فریج میں رکھاہے تو کسی نے سوٹ کیس میں نعش کے اعضاء کوبھر کر کوڑا کرکٹ میں پھینکا ہے سوال یہ ہے کہ یہ آزادی کس نے دے رکھی ہے؟
خواتین و لڑکیوں کی عصمت ریزی میں اضافہ کا دوسرا سب سے اہم سبب سماج میں بڑھتی بیروز گاری ہے بے روزگار اور روزگار سے منسلک انسان میں جو فرق ہے وہ یہ کہ روزگار سے منسلک انسان جلد ہی شادی شدہ ہوجاتا ہے وہ اپنی مصروفیت کو اپنے کام کاج اور بچوں کی پرورش میں لگاتا رہتا ہے اس پر گھر کی زمہ داریوں کا بوجھ عائد ہوتا ہے جس کو کبھی یہ فرصت ہی نہیں ملتی کہ وہ شیطانی کام انجام دے سکیں کنزیومر پیرامڈس ہاؤس سروے کے مطابق ہمارے ملک میں جون 2024 تک بے روزگاری کی شرح میں 9.2 فیصد اضافہ ہوا ہے جو مئی 2024 میں7 فیصد تھی جب کہ اس سے قبل بھی بے روزگاری کی شرح فیصد انتہائی کم درجہ پر تھی جیسے اوپر بیان کیا گیا کہ بے روزگاری سماجی برائیوں کو جنم دیتی ہے اس کیلئے مرکزی حکومت بھی زمہ دار ہے پچھلے دس سالوں میں ملک میں بے روزگاری میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا گیا دو کروڑ نوکری دینے والی حکومت نے صرف زبانی جمع خرچ کے مترادف کام کیا۔
تیسری اور سب سے بڑی وجہ عصمت ریزی کے مجرمین کو کیفرکردار تک نہیں پہنچانا ہے بلکہ ایسے مجرمین کی بعض دفعہ پشت پناہی بھی کی جاتی رہی موجودہ مرکزی حکومت غیر ضروری قوانین کو منظوری دیتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ ظلم کا رویہ اختیار کررہی ہے لیکن ملک میں خواتین پر بڑھتے طرح طرح کے جرائم کے تدارک کیلئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھا رہی ہے اگر ان جرائم کے خلاف حکومت کوئی عبرت ناک قانون بنائے گی تو شائد بہت ممکن ہے کہ ایسے گھناؤنے جرائم میں بہت سی کمی آسکتی ہے اور ملزم انتہا درجے کی درندگی کرنے سے پہلے وہ سو بار سوچنے پر مجبور ہوجائے گاتو وہ ایسے جرم کے قریب بھی نہیں بھنبھنائے گا۔
سوال یوگی سرکار سے بھی ہے یوگی سرکار کا دعوی ہے کہ انکی حکومت میں مافیا راج غنڈہ گردی گانجہ اور خواتین کے جرائم میں بڑی حد تک کمی آئی ہے لیکن سروے رپورٹ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ سال 2023 میں ملک میں خواتین کے خلاف جملہ اندراج ہونے والےجرائم کیسس میں سے 55 فیصد جرائم کے کیسس اترپردیش سے ہیں اس رپورٹ نے یوگی سرکار کی اصل قلعی کھول دی ہے حکومت کے پاس ابھی موقع ہے کہ وہ خواتین پر ہونے والی ذیادیتوں اور گھناؤنے جرائم کے خلاف فوری ردعمل دکھا کر ایک نئے قانون کو متعارف کروائیں تاکہ ملک کی خواتین و لڑکیوں کی عزت تار تار ہونے سے محفوظ رہ سکیں۔ کسی نامعلوم شاعر نے کیا خوب کہا؎
*درندے اب نہیں رہتے جنگلوں میں*
*میں نے انسان کو انساں نِگلتے دیکھا ہے*