مضامین

انصاف کے منتظر ! وقف املاک پر لٹکتی تلوار برقرار 

تحریر:سید سرفراز احمد

 

وقف ترمیمی قانون پر 15 ستمبر کو سپریم کورٹ کی دو رکنی بنچ جن میں چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوائی اور جسٹس اے جارج مسیح نے عبوری فیصلہ سناتے ہوۓ اس متنازع قانون کو مکمل طور پر روک لگانے سے گریز کرتے ہوۓ اس کی کچھ شقوں یا یوں سمجھئے تین اہم شق پر روک لگانے کا فیصلہ دیا۔اس بنچ نےجن تین اہم دفعات پر روک لگائی۔ اس قانون میں ایک شرط یہ تھی کہ جو کوئی اپنی ملکیت وقف کرنا چاہتا ہے اس کو عملی طور پر پانچ سال تک مسلمان ہونے یا اسلام پر عمل پیرا ہونے کا ثبوت دینا تھا۔دوسری چیز یہ تھی کہ ضلع مجسٹریٹ کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ متنازع وقف جائیدادوں کا تعین کرے۔سپریم کورٹ نے اس پر بھی روک لگادی۔تیسری چیز یہ تھی کہ سرکار نے اس متنازع قانون میں ہندو طبقہ کے افراد کی اکثریت کو شامل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔جس میں مرکزی وقف کونسل کی جملہ تعداد 22 کے عوض غیر مسلم 12 اور ریاستی وقف بورڈ میں 11 منجملہ 7 اراکین رکھنا چاہتی تھی۔سپریم کورٹ نے اس کو تبدیل کرتے ہوۓ مرکزی وقف کونسل میں 4 غیر مسلم اور ریاستی وقف بورڈ میں 3 غیر مسلم کو شامل کرنے کا موقف اختیار کیا۔

 

اس متنازع قانون میں یہ بھی تھا وقف بورڈ کے سی ای او اور ارکان کو حکومت نامزد کرے گی۔اس پر سپریم کورٹ نے حکومت کو صرف تجویز کے طور پر کہا کہ وقف بورڈ چیف ایگزیکیٹیو آفیسر(سی ای او)مسلم طبقہ سے بنایا جاۓ۔لیکن ساتھ ہی فیصلہ کرنے کا حق حکومت کے اختیار میں دیا ہے۔اس متنازع قانون کی ایک اور اہم چیز جس پر سپریم کورٹ کی بنچ نے "وقف بذریعہ استعمال” (وقف بائی یوزر)جو وقف املاک کو بچانے کی "ریڑھ کی ہڈی” مانا جاتا ہے۔جس کو سپریم کورٹ نے بحال نہیں کیا۔سوال ہے وقف بائی یوزر کیا ہے؟وقف بائی یوزر (Waqf by user) سے مراد وہ جائیداد ہے جو کسی شخص کی طرف سے طویل عرصے سے مذہبی استعمال میں ہے، چاہے اس کے لیے کوئی تحریری وقف نامہ یا دستاویز موجود نہ ہو۔ یعنی جب کوئی شخص کسی جائیداد کو "اللہ” کے نام وقف کرنے کا اعلان کرتا ہے اور اسے معاشرے کے فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے۔لیکن وہ جائیداد اسی کے پاس رہتی ہے۔ تو اسے "وقف بائی یوزر” کہتے ہیں۔جس میں استعمال کرنے والا جائیداد کا قانونی مالک تو نہیں ہوتا لیکن اسے استعمال کرتا رہتا ہے، اور یہ جائیداد اب مسجد، مدرسہ، یا کسی خیراتی کام کے لیے وقف سمجھی جاتی ہے۔

 

اب اسے نئے قانون کے مطابق "وقف بائی یوزر” کو رجسٹریشن کرانا ہوگا۔اور اس کے لیئے ضروری دستاویزات بھی پیش کرنا ہوگا۔اگر وہ پیش کرنے سے قاصر رہا تب یہ جائیداد سرکاری ملکیت کہلائی جاۓ گی۔یہ معاملہ جب سابق چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی بنچ کے پاس تھا تب سنجیو کھنہ نے مسلم فریقین کے وکلاء سے پوچھا تھا کہ اگر آپ کو رجسٹریشن کرانا ہوتو اس میں دقت کیا ہے؟ اس سے تو ریکارڈ رکھنے میں کیا آسانی نہیں ہوگی؟ جس پر سینئیر وکیل کپل سبل نے جواب دیتے ہوۓ کہا تھا۔فرض کریں کہ میرے پاس ایک جائیداد ہے اور میں چاہتا ہوں کہ وہاں یتیم خانہ بنایا جائے تو اس میں حرج کیا ہے؟ میری زمین ہے اور میں اس پر بنوانا چاہتا ہوں۔ ایسے میں حکومت مجھ سے رجسٹریشن کروانے کے لیئے کیوں کہے گی؟جس پر جسٹس وشوناتھن نے جواب دیتے ہوۓ کہا کہ قانون کے مطابق فرضی دعووں سے بچنے کے لئے رجسٹریشن ضروری ہے۔ اس لیے وقف ڈیڈ بنوانا ہوگا۔ اس پر کپل سبل نے دلیل دیتے ہوۓ کہا کہ یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ وقف سینکڑوں سال پہلے سے بناۓ جارہے ہیں۔ حکومت تین سو سال پرانی جائیداد کا وقف ڈیڈ مانگے گی تو "وقف بائی یوزر”آخر کہاں سے لائیں گے؟ یہی پریشانی ہے۔جس پر سپریم کورٹ کی بنچ نے کہا کہ پھر تو یہ بڑا مسئلہ ہے۔

 

سابق چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ نے سالیسٹر جنرل تشار مہتا سے کہا تھاکہ ”یہ واضح ہونا چاہیے کہ جب ہندو اوقاف کی بات آتی ہے، تو یہ عام طور پر ہندوؤں کے انڈومنٹ ہوتے ہیں۔” سی جے آئی نے تشار مہتا سے کہا، ”وقف بائی یوزر "(waqf by user) کالعدم قرار دیا جاتا ہے، اگر وقف بائی یوزر پہلے سے ہی قائم ہے، تو کیا اسے غیر قانونی قرار دیا جائے گا یا یہ برقرار رہے گا؟ چیف جسٹس کھنہ نے کہا کہ کیا جامع مسجد سمیت تمام قدیم یادگاریں محفوظ رہیں گی؟۔”وقف بائی یوزر کو ختم کرنے سے مسائل پیدا ہوں گے”چیف جسٹس نے تشار مہتا سے کہا کہ ”اگر آپ وقف بائی یوزر جائیدادوں کو ڈی نوٹیفائی کریں گے، تو یہ ایک مسئلہ ہوگا۔سنجیو کھنہ نے کہا،آپ وقف بائی یوزر کا رجسٹریشن کیسے کریں گے؟ کیونکہ دستاویزات کی کمی ہو سکتی ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ "وقف بائی یوزر” کو ختم کرنے سے مسائل پیدا ہوں گے، تاہم، اس کا کچھ غلط استعمال بھی ہوا ہے۔لیکن مسائل تو پیدا ہونگے۔

 

ایسے ہی وقف میں ہندو طبقہ کے افراد کو شامل کرنے کے معاملے میں سابق چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے سالیسٹر تشار مہتا سے کہا تھا۔ "کیا ہندو وقف بورڈ میں مسلمانوں کو شامل کیا جائے گا؟سابق چیف جسٹس نے کہا تھا کہ "جب ہم یہاں فیصلہ لینے بیٹھتے ہیں، تو ہم اپنے مذہب کو ایک طرف رکھتے ہیں کیوں کہ ہم سیکولر ہیں، ہم ایک ایسے بورڈ کی بات کر رہے ہیں جو مذہبی امور کا انتظام کر رہا ہے۔” سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے پوچھا کہ کیا وہ مسلمانوں کو ہندو مذہبی ٹرسٹ کا حصہ بننے کی اجازت دینے کے لیے تیار ہے؟ کیا کسی غیر ہندو کو ہندو اوقاف میں شامل کیا جا سکتا ہے؟ کیا غیر ہندو، ہندو مذہبی بورڈ کا حصہ ہوں گے؟جس پر تشار مہتا نے کہا تھا کہ ہندو ٹرسٹ خالص مذہبی ہے۔جب کہ وقف بورڈ ایک سیکولر ادارہ ہے۔لیکن تشار مہتا کی یہ دلیل بہت کمزور تھی۔کیونکہ وقف بورڈ اپنے آپ میں ایک نہ صرف مذہبی بلکہ خالص دینی ادارہ ہے۔اور یہ ادارہ رضاۓ الہی کے لیئے چلتا ہے۔جس کی بنیاد خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی تھی۔

 

ہم یہاں پر سابق چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی بنچ کے تلخ تبصرے اس لیئے یاد دلا رہے ہیں کیوں کہ موجودہ چیف جسٹس کی بنچ نے ان تبصروں پر غور خوض کرتے ہوۓ عبوری فیصلہ سنا سکتی تھی۔اسی لیئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ بنچ نے سابقہ تبصروں پر غور خوض کیوں نہیں کیا؟ذرا توقف کریں اور سوچیں کہ اگر ابھی بھی سنجیو کھنہ چیف جسٹس ہوتے تو کیا ان کے کیئے گئے تبصروں کو پڑھ کر ایسا نہیں لگتا کہ وہ "وقف بذریعہ استعمال” شق کو بحال کردیتے؟کیوں کہ ان کے تبصرے، سوالات اور سوالات میں گہرائی شامل تھی۔اس متنازع قانون کو ہر زوایئے سے دیکھا جاۓ تو اس سے سواۓ مسائل اور پیچیدگیوں کے علاوہ اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔موجودہ بنچ چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوائی کی سرپرستی میں وقف ترمیمی قانون پر جو عبوری فیصلہ دیا گیا۔ عدلیہ نے اس میں ایک قسم کا توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔جس ایک طرف سرکار بھی خوشی کا اظہار کر رہی ہے۔اور مسلم فریقین بھی تین شقوں پر روک لگانے کا استقبال کر رہے ہیں۔اور مکمل قانون پر پابندی نہ لگانے سے مایوسی کا بھی اظہار کر رہے ہیں۔

 

تین اہم سوالات جو اس متنازع قانون اور سپریم کورٹ کے عبوری فیصلے پر ہیں۔ایک تو یہ کہ وقف صرف مسلمانوں کی ملکیت ہے۔اور فریق بھی صرف مسلمان ہی ہے۔فریق صرف مسلمان اس لیئے ہے کہ یہاں معاملہ دو مذہبوں کے درمیان نہیں ہے۔اگر معاملہ دو مذہبوں کے درمیان ہوتا تو دو فریقین ہوتے۔تو بات سیدھی سیدھی ہے کہ مسلمانوں سے ان کی املاک کے متعلق مکمل انصاف ملنا چاہیئے۔پھر کیوں کچھ شقوں پر روک لگاکر دوسرے فریق کو توازن میں رکھتے ہوۓ خوش کیوں کیا گیا؟دوسرا سوال سپریم کورٹ نے مرکزی وقف کونسل میں ہندو طبقہ کے ارکان کو شامل رکھنے کا ایک درمیانی راستہ کیوں نکالا؟بلکہ یہ ہونا چاہیئے تھا کہ ایک خالص دینی ادارے میں ہندو طبقہ کے افراد کو شامل ہی نہیں کیا جانا چاہیئے۔بلکہ سپریم کورٹ نے اس قانون میں وقف بورڈ سی ای او کے طور پر مسلمان کو رکھنے کی صرف تجویز دی۔اس سے سرکار کو یہ راہ آسان ہوگئی کہ وہ اپنی مرضی کا سی ای او کسی کو بھی منتخب کرلے گی۔تیسرا سوال ہے کہ یہ متنازع قانون ضلع کلکٹر کو جو اختیارات دے رہا تھا۔ سپریم کورٹ نے یہ کہہ کر اس شق پر روک لگادی کی ایک ضلع مجسٹریٹ کو عدلیہ کا حق نہیں دیا جاسکتا۔دوسرا ضلع مجسٹریٹ سرکار کے دباؤ میں فیصلے لے سکتا ہے۔سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ خوش آئند ہے۔لیکن سپریم کورٹ نے سرکار کی نیت پر سوال کھڑے کیوں نہیں کیئے؟کیوں کہ سابق چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی بنچ نے سرکار سے بہت سارے تلخ سوالات کیئے تھے۔

 

سرکار کی نیت شروع سے ہی خراب ہے۔وہ اس متنازع و سیاہ قانون سے مسلمانوں کی جائیدادوں کو ہڑپ کرنا چاہتی ہے۔جس کا خدشہ سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے تک تو برقرار رہے گا۔خدشہ یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ کے عبوری فیصلے نے ایک چیز تو تقریباً طئے کردی کہ اس متنازع قانون پر مکمل طور روک لگانے کی گنجائش آگے بھی باقی نہیں رہے گی۔ہاں یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ سپریم کورٹ مزید کچھ شقوں پر پابندی لگادے۔لیکن جس طرح سپریم کورٹ نے اپنے اس عبوری فیصلے میں جن اہم شقوں کو جوں کا توں برقرار رکھا وہ سرکار کی کامیابی کی ضامن ہے۔جس سے سرکار کی جانب سے وقف ملکیت حاصل کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔مطلب صاف ہے کہ وقف املاک پر لٹکتی تلوار ابھی بھی برقرار ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ عدالتوں کا معیار یہ نہیں کہ وہ فیصلوں میں توازن برقرار رکھے۔ بلکہ عدالتیں عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیئے ہوتی ہے۔اور اسی امید کے ساتھ عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے۔امید کہ سپریم کورٹ اپنے حتمی فیصلے میں توازن کے بجاۓ انصاف پر مبنی فیصلہ دے گی۔

متعلقہ خبریں

Back to top button