مضامین

آزادی وطن اور ہندوستانی مسلمان

ذکی نور عظیم ندوی- لکھنؤ

بڑے مذاہب و ادیان ہی نہیں بلکہ ان سے نکلنے والے تقریبا تمام چھوٹے بڑے مذاہب اور تمام عقائد کے ماننے والے افراد پائے جاتے ہیں۔اس طرح عہد قدیم سے ہی ہندوستان کی شناخت ایک ایسے ملک اور تہذیب و ثقافت کے طور پر رہی جس میں مختلف مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرےسے اور ان کے مذاہب و عقائد سے براہ راست واقف ہوئے۔اس کے باوجود وہ اپنے اپنے مذاہب پر عمل پیرا رہے ، لیکن آپسی معاملات میں ایک دوسرے کےمعاون اور باہمی الفت و مودت کے ساتھ اس طرح رہے کہ وہ انسانی تاریخ میں مذہبی رواداری کی مثال بن گئے۔

ہندوستان کے اسی سماجی تانے بانے اور مختلف مذاہب کے ماننے والے افراد کے ایک ساتھ اپنے اپنے مذہب پر عمل کرتے ہوئے باہمی پیار و محبت اور اخوت و بھائی چارگی کے ساتھ رہنے، اپنے اپنے مذہب کی دعوت، اس کی خوبیوں اور امتیازی پہلؤوں کی نشر و اشاعت کی دی گئی آزادی ہندوستان کی عظمت کا سب سے بڑا راز اور اس کا وہ نمایاں امتیازی پہلو ہے جس کا تصور دنیا میں ہندوستان کے علاوہ کوئی دوسرا ملک ہرگز نہیں کرسکتا۔ اسی لیے ہندوستان کو وہ خوبصورت گلدستہ سمجھا جاتا ہے جس میں مختلف مذاہب کے ماننے والے پھول کی حیثیت سے اپنی خوشبو بکھیرتے اور گلدستہ کی خوبصورتی میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں اور ان خوبیوں کو دستور کے ذریعہ قانونی حیثیت دے دئے جانے کی وجہ سے "کثرت میں وحدت” اس ملک کا امتیاز اور اس کی شان قرار پائی۔

اسی وجہ سےہندوستان کا مذہبی شخص خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو دوسرے ملکوں کے مذہبی افراد سے بہتر نمایاں اور مذہبی رواداری کا حامل ہوتا ہے اور یہاں کے سماجی نظام اور پس منظر کو دیکھتے ہوئے یہ ہونا ضروری بھی ہے۔اسی طرح وہ ہندوستانی مسلمان جو پختگی اور عزیمت کے ساتھ اپنے دین اور اس کی حقیقی تعلیمات پر عمل پیرا، اس کے داعی، اس کے تحفظ کے لئے فکر مند اور اس کی قانون کے دائرہ میں نشر و اشاعت کے لئے کوشاں وسرگرم ہیں وہ دوسرے ملکوں یہاں تک کہ مسلم اور عرب ملکوں کے مسلمانوں سے بھی زیادہ قابلِ قدر ہیں کہ وہ اسلام کو عادت کے طور پر رائج رسم ورواج کے بجائے دوسرے مذاہب کے پیرو کاروں اور ان مذاہب کی تعلیمات کے بیچ اسلام کو سمجھ کر اور اختیارکرکے اس پر پوری طرح عمل پیرا ہی نہیں بلکہ اس کے داعی وعلم بردار کی حیثیت سے ہندوستان میں اصل ہندوستانی مزاج و فکر "مذہبی آزادی اور آپسی رواداری” کی بھی ترجمانی کر رہے ہیں۔ اور دین اسلام کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے اپنے دینی و اسلامی فریضہ سے بھی غافل نہیں ہیں۔

سورہ لقمان کی آخری آیت، آیت نمبر 34 میں اللہ نے قیامت کی آمد، بارش ہونے، رحم مادر میں بچے کی پرورش اور پھر پیدائش، مستقبل کی درست معلومات اور اس کے فیصلوں اور انسان کی موت، اس کی جگہ اور وقت کی صحیح جانکاری اور معلومات کو اپنا وہ خاص امتیاز قرار دیا ہے جس میں کسی اور کا کوئی دخل اور اختیار تو دور کسی دوسرے کو اس کی مکمل اور صحیح معلومات بھی نہیں۔یعنی انسان اس دنیا میں ایک مدت گزارنے، مختلف چیزوں کی منصوبہ بندی اور پلاننگ کے باوجود بھی خود اپنی موت کی جگہ اور وقت کے سلسلے میں کوئی پلاننگ اور منصوبہ بندی نہیں کر سکتا بلکہ یہ صرف اللہ کا اختیار ہے۔ تو اپنی پیدائش کے بارے میں جبکہ اس کا وجود ہی نہیں وہ کیسے کچھ کر سکتا ہے۔

یعنی انسان کی پیدائش خالص اللہ کا انتخاب اور اختیار ہے اور اس وجہ سے ہماری پیدائش کے لیے ہندوستان کا انتخاب صرف اللہ کا انتخاب ہے جس سے ہندوستانی مسلمان مطمئن اور راضی ہونے کی وجہ سے اس کی ترقی، خوشحالی یہاں امن و سلامتی، پیار و محبت،آپسی باہمی تعاون اور وقت ضرورت اس کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی کو اپنا ملکی ہی نہیں بلکہ ملی ودینی فریضہ سمجھتے ہیں۔ جس کی بے شمار مثالیں تاریخ کے صفحات میں سنہرے حروف میں درج ہیں۔ خاص طور پر جنگ آزادی میں ان کا سرگرم کردار اور عظیم قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔

انگریز جو ہندوستان میں تجارتی راستے سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے توسط سے داخل ہوئے اور دھیرے دھیرے یہاں کے اقتصاد ہی نہیں بلکہ اقتدار میں بھی دخیل ہوگئے اور ایک وقت ایسا آیا کہ یہاں کے بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو ان کے تخت پر بیٹھنے سے منع کردیا۔اور 1857ء میں بہادر شاہ ظفر کے سبھی بیٹوں کے سر قلم کر کے ایک تھالی میں سجا کر ان کو پیش کرنے کے بعد بلا شرکت غیرے 1947ء تک یہاں پر غیر قانونی ظالمانہ جابرانہ اور ہر طرح سے ناقابل قبول راج کرتے رہے۔یہاں تک کہ ملک کے تمام مذاہب طبقات کی مستقل مشترکہ کوششوں (جس میں مسلمانوں کا کردار سب سے زیادہ نمایاں اور اہم رہا)  کے نتیجے میں میں 15/اگست 1947ء کو آزادی کا سورج طلوع ضرور ہوا لیکن ساتھ ہی انگریزوں کی منافقانہ اور مکار ذہنیت اور سازشوں کی وجہ سے ایک ناقابل برداشت اور نہایت تکلیف دہ زخم یعنی عظیم ہندوستان کی دو ملکوں ہندوستان اور پاکستان میں تقسیم  کا درد بھی سہنا پڑا۔
1947ء میں تقسیم کے وقت پاکستان میں زیادہ تر مسلمان گئے لیکن بڑی تعداد میں مسلمانوں نے ہندوستان میں رہنے کو ترجیح دی اور اس کو خیر باد کہنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ یہی نہیں بلکہ منقسم ہندوستان کے ذمہ داروں نے بھی اسکو پسند کیا اور بعض مسلم اکثریتی علاقوں جیسے کشمیر، حیدرآباد، بھوپال، جوناگڑھ اور جودھپور جیسی ریاستوں کے ابتدائی طور پر انکار کے باوجود اس کو ہندوستان کے ساتھ رکھنے کے لیے ہر طرح اور آخری درجہ کی سیاسی،سفارتی اور دیگر کاوشیں یہاں تک کہ بعض جگہوں پر تو طاقت کا بھی بھرپور استعمال کیا۔ اس طرح ہندوستان کسی خاص مذہب کا نا ہو کر ایک سیکولر جمہوریہ کے طور پر دنیا کے نقشے میں اپنی عظمت کے جھنڈے لہراتا رہا۔ اور اس کی شناخت ایک ایسے عظیم ملک کے طور پر کی جاتی رہی جس میں ہر مذہب ہر طبقہ ہر رنگ ہر نسل اور بے شمار زبان بولنے والے لوگ ہمیشہ سے بلا کسی تفریق  کے پوری آزادی اور اختیار کے ساتھ تھے اور ہیں۔
ہمارا ملک 15 اگست1947ء کو آزاد تو ہوگیا لیکن ابھی تک یہاں  برطانوی پارلیمنٹ میں پاس ہونے والا "گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935” ہی رائج رہا۔ ہاں آزاد ہندوستان کے نئے دستور کیلئے تمام مذاہب، طبقات اور علاقوں کے نمائندوں پر مشتمل ڈاکٹر امبیڈکر کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے کافی غور وخوض تفصیلی گفت و شنید مناقشہ، بحث ومباحثہ اور دنیا میں رائج دیگر دستوروں اور خاص طور پر ملک کے عناصر ترکیبی مختلف مذاہب، طبقات، علاقوں، زبانوں اور انکی تہذیب وثقافت کو مد نظر رکھ کر اس عظیم ملک کے لئے سب سے تفصیلی  دستور آزادی کے 2 سال 3 ماہ اور 11 دن بعد 26 نومبر 1949 کو مکمل کیا  اور مختلف صوبوں کے مجالس قانون ساز کی منظوری کے بعد 26 جنوری 1950ء کو اسے نافذ کردیا گیا۔

دستور میں ملک کو مذہب کے بجائے ایک سیکولر عوامی جمہوریہ بنانے، اس کے تمام باشندوں کو سیاسی سماجی اور معاشی انصاف فراہم کرنے، ہر ایک کو آزادانہ افکار و خیال رکھنے، مذہب و عقیدہ پر عمل، مذہبی اداروں کی تعمیر اور اس کی دعوت وتبلیغ ،  عبادت کرنے اور عبادت گاہ کی تعمیر اور اظہار رائے کی آزادی کے ساتھ ساتھ حیثیت اور موقع کے اعتبار سے مساوات و برابری کا حق دیا گیا اور اتحاد و سالمیت کو یقینی بنانے کے لئے اخوت و بھائی چارہ فروغ دینے کے عزمِ کا اظہار کیا گیا۔اور یوم آزادی 15 اگست کی طرح قانون سازی کی تکمیل کے دن 26 نومبر کے بجائے قانون کے نفاذ کے دن 26 جنوری کو دوسرا قومی دن مان کر ان دونوں دنوں 15 اگست اور 26 جنوری کو ملکی سطح پر جشن منانے اور عام تعطیل رکھنے کو قانونی حیثیت دی گئی۔ اور یہ پیغام دیا گیا کہ جس طرح مکان کا نقشہ بنانے کے بجائے اس کے مطابق تعمیر، اور کسی پروجیکٹ کے پلان کے بجائے اس کے مطابق اس کا نفاذ اصل ہے اسی طرح ملک کے لئے دستور سازی سے زیادہ اس کا نفاذ اصل ہے۔اس لئے ہمارا دوسرا قومی دن 26 جنوری ہوگا۔
مسلمانوں سے عام طور پر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ان کے نزدیک مذہب اصل ہے یا ملک؟ تو اس سلسلے میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس میں کسی ایک پہلو کو مدنظر نہیں رکھا جاتا بلکہ اس میں زندگی کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھا جاتا ہے اور اس میں عقائد عبادات اخلاق و کردار دیگر معاملات کے ساتھ ملک کی ترقی وخوشحالی، وہاں امن و سلامتی اور دیگر امور کو مجموعی طور پر برتا جاتا ہے۔ اور اسی وجہ سے جب بھی ملک کو ضرورت ہوئی مسلمان کبھی پیچھے نہیں رہا بلکہ صف اول میں نظر آیا جس کی تاریخ گواہ ہے۔اسلام میں تو دیگر حقوق نظرانداز کرکے صرف اللہ کے حقوق کی فکر کو بھی درست نہیں مانا گیا۔چنانچہ حضرت سلمان فارسی نے حضرت ابو الدرداء کو دن میں روزہ رکھنے اور رات میں صرف عبادت کرنے سے روکا اور کہا تم پر تمہارے رب کا، تمہارے اپنے جسم وجان کا، تمہاری بیوی بچوں کا بھی حق ہے اور ہر ایک کو اس کا حق ادا کرو تبھی سچے مسلمان ہو گے(بخاري)
اس ملک میں مسلمانوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ کردار ادا کرنا چاہیے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے پہلے حلف الفضول کے موقع پر قریش کے کچھ با اثر لوگوں کے ساتھ مل کر ادا کیا تھا کہ آج کے بعد اس سرزمین پر کسی پر بھی ظلم نہیں ہونے دیں گے۔ اور نبوت کے بعد بھی اس طرح کے موقع پر شرکت کو باعث فخر قرار دیتے ہوئے اس کے بدلہ میں سرخ اونٹنی کو بھی نا پسند قرار دیا تھا(احمد)
[email protected]

 

 

۔

متعلقہ خبریں

Back to top button