مضامین

فتح پور مقبرے پر شر پسندوں کی یلغار "ووٹ چوری” مہم سے توجہ ہٹانے کی سازش تو نہیں!

تحریر:سید سرفراز احمد

ایک سوال جس کا جواب اس ملک کی عوام کو بڑی ہی سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کرتے ہوۓ دینا چاہیئے کہ آخر اس ملک کی سیاست کا رخ موڑنے والی چیز کونسی ہے؟جب ہم نے اس سوال کے جواب کو ماضی کے ساتھ ساتھ عصر حاضر میں تلاش کرنا شروع کیا تو صرف ایک ہی بات نظر آتی ہے وہ ہے ملک کے اندر ہندو مسلم میں کسی بھی طرح تناؤ کا ماحول پیدا کیا جاۓ۔سیاسی روٹیوں کو سیکنے کا یہی سب سے اچھا موقع ہوتا ہے۔دوسری طرف ہمیں یہ بھی نظر آۓ گا کہ فرقہ پرستی کی سیاست نے ایک اکثریتی سماج کو مذہب بیزاری اور نفرت کی جانب اس قدر جھکادیا کہ جو کھرے اور کھوٹے میں امتیاز کرنے کی بھی سمجھ بوجھ سے عاری ہوچکے ہیں۔

 

یہی وجہ رہی کہ فرقہ وارانہ تشدد،مندر مسجد کے تنازعے،لسانی تعصب،وغیرہ وغیرہ مسائل جنم لینا شروع ہوجاتے ہیں۔اسی بڑھتی نفرت نے اس ملک کی ترقی کے بیڑے کو غرق کر رکھا ہے۔حالانکہ یہ سب مسائل ایک ترقی یافتہ ملک کا ایجنڈہ نہیں ہونا چاہیئے۔لیکن ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ فرقہ پرستی اور نفرت کی سیاست اس ملک کا اہم ایجنڈہ بن چکا ہے۔جو اقتدار تک رسائی کا سب سے آسان ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔اگر چہ کہ اس ملک کی رعایا خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتی ہو انھیں اپنے فیصلے مذہبی جذبات سے نکل کر عقل مندی شعور و فراست اور سنجیدگی سے غور و فکر کرتے ہوۓ کرنا چاہیئے۔سوچیئے اگر ایسا ہوگا تو ملک کی موجودہ تصویر کس طرح ہوتی؟

 

مسجدوں کے نیچے مندروں کو تلاش کرنے کی مہم شائد کچھ عرصہ کے لیئے موقوف کردی گئی۔کیونکہ ابھی یہ ایجنڈے پردے کے پیچھے چھپا دیئے گئے۔موقع مناسبت سے اچانک رونما ہوجائیں گے۔آپ نے دیکھا ہوگا جب بھی کسی ریاست میں الیکشن قریب آتا ہے تو یہ گڑے مردے ذندہ کردیئے جاتے ہیں۔تاکہ پھر سے مندر مسجد کی پشت پر سوار ہوکر اپنی سیاسی ساکھ کو بچایا جاسکے۔سیاست دانوں کی قسمت بھی اتنی اچھی ہے کہ ہر سال ملک کی کوئی نہ کوئی ریاست میں الیکشن ضرور آجاتا ہے۔تاکہ یہ اپنی سیاسی روٹی ہندو مسلم کارڈ کی آگ پر سینک سکے۔

 

جب سے اس ملک کی اکثریتی رعایا میں سناتن ہندو دھرم کی جگہ ہندوتوا نے لے لی ہے تب سے مندر مسجد اور ہندو مسلم تنازعوں میں آگ لگانے والے یا آگ کو ہوا دینے والوں کی اکثریت میں اضافہ ہوا ہے۔جو اکثریتی سماج مغلیہ سلطنت کے شب و روز قصیدے پڑھا کرتا تھا وہ آج ان سے نفرت کرنے لگا ہے۔یہاں یہ بتانے کی قطعاً بھی ضرورت نہیں ہے کہ یہ کام کس نے کیا ہے۔اب چونکہ ملک میں راہل گاندھی نے "ووٹ چوری” کا ایٹم بم پھوڑا ہے۔جس سے پورا ملک سکتہ میں ڈوبا ہوا ہے۔الیکشن کمیشن اور بھاجپا ہوش باختہ ہیں۔راہل گاندھی نے ایسا "ایٹم بم” پھوڑا ہے کہ ملک کا ہر شہری اس مسئلہ پر اپنی دل چسپی ظاہر کر رہا ہے۔بلکہ اس مہم کا حصہ دار بھی بن رہا ہے۔

 

سوال ہے اس مسئلہ کو ملک کی عوام سے اوجھل رکھنا کس کا کام ہے؟ظاہر اقتدار میں بھاجپا کا اتحاد ہے اور بھاجپا اس اتحاد کی مضبوط کمان ہے۔لہذا بھاجپا کی سیاسی زمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ وہ کسی بھی طرح "ووٹ چوری” مسئلہ سے عوام کی توجہ ہٹانے کا کام کرے۔ورنہ پھر بھاجپا کی سیاسی ساکھ پر آنچ آنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور بہار و بنگال میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے تناسب میں بھاری گراوٹ آسکتی ہے۔اسی لیئے بھاجپا کا آئی ٹی سل سوشیل میڈیا پر, گودی میڈیا ٹیلی ویژن پر سرگرم ہے۔جو اس "ووٹ چوری” مہم کا دفاع کرنے میں اپنی پوری توانائی صرف کررہا ہے۔

 

لیکن سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ راہل گاندھی نے تمام الزامات الیکشن کمیشن پر لگاۓ ہیں۔تو مرچی بھاجپا کو کیوں لگ رہی ہے؟کیونکہ پاپ کا گھڑا دونوں نے مل کر بھرا ہے۔ظاہر ہے مرچی تو لگے گی۔لیکن الزامات الیکشن کمیشن پر لگے ہیں تو جوابات بھی الیکشن کمیشن کو دینا چاہیئے۔پھر بھاجپا کیوں میدان میں کود گئی؟بھاجپا کے اس طرز عمل سے دھندلی تصویر صاف جاتی ہے کہ "ووٹ چوری” میں بھاجپا کا اہم کردار ہے۔شائد اپوزیشن کے ان ہی الزامات کا رخ پھیرنے اور عوام کے ذہنوں کو اصل و اہم مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیئے پہلے ہندوستانی فضائیہ کے چیف مارشل امر پریت سنگھ کو سامنے لایا گیا۔

 

جنھوں نے دعویٰ کیا کہ آپریشن سندور کے دوران ہم نے پاکستان کے "چھ طیارے مار گراۓ”۔پھر ہندوستانی فوج کے سربراہ اپیندر دویدی نے آئی آئی ٹی مدراس کے ایک افتتاحی سیشن میں کہا کہ "دشمن کے ساتھ اگلی جنگ جلد ہی ہوسکتی”۔”دشمن اگلی بار تنہا نہیں ہوگا”۔ہم نے”آپریشن سندور میں شطرنج کی چالیں چلی”۔یہاں سینئر کانگریس قائد اُدت راج کا رد عمل میں سامنے آیا انھوں نے کہا کہ فوج آپریشن سندور کے انکشافات اب کیوں کررہی ہے؟کیا "ووٹ چوری”مسئلہ کو ٹھنڈا کرنے کے لیئے کوئی فوج کا استعمال کررہا ہے؟تاکہ عوام کی توجہ اصل مسئلہ سے ہٹ جاۓ۔ایسے انکشافات تو آپریشن کے چلتے دوران ہونے چاہیئے تھے۔فوج کی بہادری پر ہمارا کوئی سوال نہیں ہے۔لیکن ایسا فوج سے زبردستی کہلوایا جارہا ہے۔بلکہ یہ بھی کہا کہ "ووٹ چوری” کے مسئلہ سے توجہ ہٹانے کے لیئے بڑا فساد بھی کروایا جاسکتا ہے۔

 

جب ایک ایسے وقت میں "ووٹ چوری” مہم تند و تیزی آندھی کی طرح ملک کے گوشے گوشے میں پھیل چکی ہے۔ تب اسی دوران 11 اگسٹ کو اتر پردیش کے فتح پور میں ہندوتوا تنظیموں جن میں بجرنگ دل ،ہندو مہا سبھا کے علاوہ دیگر تنظیموں کے شر پسندوں نے فتح پور کے دو سو سالہ(میڈیا رپورٹس کے حوالے سے)قدیم نواب ابو محمد عبدالصمد ؒ کے مقبرے پر یلغار کرتے ہوۓ توڑ پھوڑ کردی۔اور زعفرانی بھگوا پرچم لہرادیا۔جن کا دعویٰ ہے کہ یہ مقبرے کی جگہ شیو مندر ہے۔جن کا ارادہ یہاں پوجا پاٹ کرنے کا تھا۔یہ ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے جو اترپردیش میں ہندو مسلم کے درمیان فساد کروانے کی غرض سے کیا گیا۔اترپردیش میں قانون کی حکمرانی پر پہلے بھی سوالات اٹھے ہیں اور اب بھی اٹھ رہے ہیں۔کہ قانون کے راج کے بجاۓ یہاں یوگی راج بڑے دھوم دھام سے چل رہا ہے۔یاد رہے یوگی راج میں یکطرفہ غنڈہ گردی کا تماشا آۓ دن دیکھنے کو ملتا رہتا ہے۔

 

جب شرپسند مقبرے کے پاس جمع ہوۓ اور مقبرے پر چڑھائی کرنے لگے تو پولیس پوری طرح سے خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔ایسا لگ رہا تھا کہ یہ شر پسند اپنے کسی بڑے رہ نما کی نگرانی میں مقبرے پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی لے کر آۓ تھے۔کئی ایک ویڈوس سوشیل میڈیا پر وائرل ہیں جس میں پولیس عہدیدار خود شرپسندوں کے اصل سرغنہ کے گلے میں ہاتھ ڈال کر ہنستے مسکراتے نظر آرہا ہے۔ایک شر پسند پولیس پر ہی لاٹھی اٹھاتے نظر آرہا ہے۔جب مسلم سماج کا گروہ جمع ہونا شروع ہوا تو پولیس نے شرپسندوں کو وہاں سے ہٹایا۔تب بھی شر پسند سڑک پر آکر دھرنا دیتے ہوۓ ہنومان چالیسہ کا پاٹ پڑھنا شروع کردیتے ہیں۔اس حملہ کے جملہ 160 شر پسندوں کے خلاف مقدمات درج کیئے گئے جن میں دس شناخت کردہ چہرے اور ایک سو پچاس نامعلوم شرپسند شامل ہیں۔

 

میڈیا کے ایک سوال کے جواب میں ضلع ایس پی کہتے ہیں کہ پولیس پہلے سے تعینات کردی گئی تھی۔ہم نے ڈرون سے ویڈوس بھی لیئے ہیں۔یہاں ایک سوال پولیس پر اٹھتا ہے کہ اگر پولیس پہلے سے تعینات کردی گئی تھی تو پھر یہ شر پسند عیدگاہ کے اندر مقبرے تک کیسے پہنچے؟کیونکہ ویڈو میں صاف نظر آرہا ہے کہ شر پسندوں کی تعداد سینکڑوں میں تھی۔تو پھر کیا پولیس نے انھیں جانے سے نہیں روکا؟اشوک کمار پانڈے جو سینئر جرنلسٹ ہیں انھوں نے فتح پور مقبرے کی توڑ پھوڑ پر تجزیہ کرتے دوران بتایا کہ یہ غنڈہ گردی اور مقبرے میں یوں ہی اچانک نہیں گھس گئے۔بلکہ ہندو تنظیموں نے پانچ دن پہلے سے یہ تیاری کر رکھی تھی۔یعنی 7 اگسٹ کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو مطلع کیا تھا کہ یہ مقبرہ نہیں بلکہ مندر ہے ہم گیارہ اگسٹ کو اس کی صاف صفائی کرنے آئیں گے۔جس کا صاف مطلب یہی تھا کہ ہم اس مقبرے پر قبضہ کرنے آئیں گے۔

 

جب ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ضلع ایس پی کو یہ سب معلوم تھا کہ ہندو توا تنظیمیں اکٹھا ہوکر فتح پور کے عیدگاہ میں موجود مقبرے پر ہلہ بولنے والی ہیں تو پھر پولیس کا سخت بندوبست کیوں نہیں کیا گیا؟یہ پورا تماشا ضلع انتظامیہ کی لاپرواہی کے نتیجہ میں اور پولیس کی نگرانی میں ہوا اور پھر پولیس کی کھلی چھوٹ نے شرپسندوں کے حوصلوں میں اضافہ کیا۔اہم بات یہ بھی ہے کہ اس مقبرے کے تمام تاریخی دستاویزات موجودہ متولی کے پاس موجود ہے۔متولی کا دعویٰ ہے کہ یہ مقبرہ پانچ سو سالہ قدیم ہے۔جس کو اکبر بادشاہ کے پوتے نے بنوایا تھا۔سوال یہاں پھر اٹھتا ہے کہ جن شر پسند تنظیموں نے اس مقبرے پر مندر ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔کیا ان کے پاس تاریخی دستاویزات موجود ہیں؟ اگر ہیں تو وہ قانون کے راستے سے کیوں آنا نہیں چاہتے؟کیونکہ ان کا مقصد امن و امان میں بگاڑ پیدا کرنا ہوتا ہے۔بلکہ انھیں کسی بھی طرح مسلمانوں کی تاریخی مساجد یا مقبرے پر جھوٹے دعوے کرتے ہوۓ ہندو مسلم میں آگ لگانے کی ایک عادت سی پڑ گئی ہے۔

 

فتح پور کے مقبرے پر ہندوتوا شرپسندوں کا ہلہ بولنا 1992 کی بابری مسجد کی شہادت یاد دلا رہا ہے۔بابری مسجد پر ہوۓ حملے کا ایک وہ دور اور فتح پور کے مقبرے پر حملے کی تصویریں وہی کم و بیش کچھ جھلکیاں پیش کررہا ہے۔یہاں سنبھل کے جامع مسجد کا تذکرہ کرنا بھی بے جا نہ ہوگا کیونکہ سنبھل میں بھی ایسا ہی کچھ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا گیا۔اور پولیس تماشا بین بنی ہوئی تھی۔نہ صرف تماشا بین بلکہ پانچ مسلم نوجوانوں کی شہادت کی بھی زمہ دار تھی۔لیکن یوگی سرکار کو فرق کیوں پڑے گا۔یہ تو ان ہی کی سیاسی ساکھ مضبوط کر رہے ہیں۔ابھی ساون سے پہلے کانوڑ یاترا میں کیا کچھ دیکھنے کو نہیں ملا۔پھر بھی یوگی کہتے ہیں کہ کانوڑیوں سے مسلمانوں کو سبق سیکھنا چاہیئے۔اگر کانوڑیوں سے مسلمان سبق سیکھ لے گا تو پھر امن کو کون قائم کرے گا؟یہ سب نظارے دیکھ کر ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یوگی سرکار اتر پردیش میں قانون کا راج نہیں بلکہ غنڈہ راج کو پنپنے میں بھر پور تعاون کررہی ہے۔

 

ابھی ملک میں اپوزیشن بھر پور پوزیشن میں نظر آرہا ہے۔ اپوزیشن کی”ووٹ چوری مہم”سے حزب اقتدار تلملا رہا ہے۔اور اس دوران جمعرات کو سپریم کورٹ نے بہار میں چل رہے ایس آئی آر پر زبردست فیصلہ سناتے ہوۓ الیکشن کمیشن کے غرور کو چکنا چور کردیا۔سپریم کورٹ نے واضح کردیا کہ 65 لاکھ راۓ دہندہ گان کے جو ووٹ حذف کردیئے گئے۔اس کو تمام تر وجوہات کے ساتھ ویب سائٹ پر اپلوڈ کیا جاۓ۔اور ضروری دستاویزات میں آدھار کارڈ کو شامل کرنے کی بھی ہدایت دی۔ایس آئی آر بہار میں چل رہا ہے لیکن پورے ملک کی عوام کی نظریں اس پر مرکوز ہیں۔کیونکہ بہار کے بعد اس کو پورے ملک میں آغاز کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔اور راہل گاندھی کے سنسنی خیز انکشافات نے عوام کی آنکھیں کھول کر رکھ دی ہے۔ابھی راہل گاندھی نے خود کہا ہے کہ یہ تو ٹرائیلر تھا "پیکچر ابھی باقی ہے” مطلب صاف ہے کہ راہل گاندھی اب ایٹم بم کی جگہ کوئی میزائل ڈالنے والے ہیں۔

 

بہار میں چل رہی ایس آئی آر راہل گاندھی کی "ووٹ چوری مہم”اور 17 اگسٹ سے بہار میں "ووٹ ادھیکار مہم”جو سولہ دنوں تک چلنے والی ہے۔یہ سب چیزوں سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیئے بھاجپائی آئی ٹی سل،کارکنان،اور گودی میڈیا دن رات اپنے کام پر لگے ہوۓ ہیں۔لیکن دال نہیں گل رہی ہے۔ایسے میں یہ قیاس لگایا جاسکتا ہے کہ گناہ گار اپنا پردہ فاش نہ ہونے کے لیئے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔فتح پور مقبرے پر شر پسندوں کی یلــغـار کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیئے۔

 

لال قلعہ کہ فصیل سے وزیر اعظم کا اپنی مربی تنظیم کے قصیدے پڑھنا بھی عوام کی توجہ ہٹانے اور میڈیا کو ایک الگ بحث میں لگانے کی غرض سے جان بوجھ کر یہ پتہ پھینکا گیا۔ہی نہیں بلکہ مزید کوئی بھی نیا مسئلہ یا کسی بھی چیز کو متنازع بناکر سامنے لایا جاسکتا ہے۔تاکہ سماج میں پھوٹ پڑے اور ہندو مسلم تناؤ بڑھے۔اور یہ یہی چاہتے ہیں کہ عوام کی توجہ "ووٹ چوری” جیسے گرما گرم مسئلہ سے ہٹ جاۓ۔اور یہ کھسیانی بلی کی طرح اپنا راستہ ڈھونڈلیں۔یہاں پر انتظامیہ کی دوگنی زمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ حالات پر گہری نظر رکھیں۔لا اینڈ آرڈر کو ملک میں خاص طور پر دہلی، اتر پردیش،بہار میں برقرار رکھنے کے لیئے ہر ممکنہ اقدامات کریں۔لیکن اس معاملہ میں اپوزیشن کو بھی بہت حساس رہنا ضروری ہے۔ورنہ سب کیا دھرا خاک میں مل جاۓ گا۔

متعلقہ خبریں

Back to top button