مضامین

موبائل فون ایڈکشن اور بچوں کا مستقبل

ازقلم:۔  ابوالکلام انصاری
اسسٹنٹ ٹیچر، فیض احمد فیض اردو ہائی اسکول
ہگلی، مغربی بنگال، ہندوستان
    موبائل نمبر:  9330634200
آج کے انٹرنیٹ کے دور میں اسمارٹ فون لوگوں کی زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے۔ زیادہ تر آن لائن کاموں کی سہولیات موبائل پر دستیاب ہیں۔ اسلئے تقریباً سبھی گھروں میں آج کل موبائل فون پایا جارہا ہے۔ آج سے تقریباً دو دہائی پہلے تک بھی فون صرف بات چیت کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ لیکن ٹیکنالوجی میں ترقی کے ساتھ ساتھ فون اب اسمارٹ فون میں بدل چکا ہے۔ اسکے اسکرین پر  انگلیوں کے سہارے بڑے سے بڑے کام کو بہ آسانی سر انجام دیا جارہا ہے۔ آن لائن شاپنگ، آن لائن ادائیگی، آن لائن تعلیم، آن لائن بکنگ اور دیگر بہت سارے اہم کام موبائل کے ذریعہ آسانی سے کئے جا رہے ہیں۔ یہ آلہ ہماری زندگی کو آسان بنانے میں بہت معاون و
مدد گار ثابت ہو رہا ہے۔
لیکن ان تمام مندرجہ بالا خوبیوں کے باوجود اس میں بہت ساری خامیاں بھی ہیں جن کا شکار بڑے عمر کے لوگوں کے ساتھ ساتھ بچے بھی ہو رہے ہیں۔ بچوں کو موبائل فون کی خوبیوں اور خامیوں میں تمیز نہ ہونے کی وجہ کردہ زیادہ تراس آلہ سے نقصان ہی اٹھا رہے ہیں۔ آئیے ہم ذیل میں موبائل فون کے صحیح اور غلط استعمال کیا ہیں اس بات پر روشنی ڈالتے ہیں۔موبائل فون کا صحیح استعمال:۔  ماہرین کا ماننا ہے کہ موبائل کے صحیح استعمال کو صرف دوز مروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے اور وہ ہیں:
 1. Communication 2. Information
اگر ہم یا ہمارے بچے کسی سے رابطہ قائم کرنے (communication)کیلئے اسکا استعمال کر ہے ہیں تب تو اسکا استعمال صحیح ہو رہا ہے۔
خواہ وہ رابطہ بات چیت کی شکل میں ہو یا اور کوئی دوسری شکل میں ہو۔ اسی طرح اگر ہم اسکا استعمال جانکاری (information) حاصل کرنے کے لئے کر رہے ہیں تب بھی صحیح ہے۔ مگر یہ جانکاری بھی مثبت ہونی چاہیئے جو ہماری زندگی کے لئے مفید ہو۔ جو ہماری ترقی میں مددگار ثابت ہو۔ جو ہماری پریشانیوں کو دور کرے۔ اس کے برعکس اگر ہم کسی طرح کی کوئی منفی جانکاری لے رہے ہیں جس سے انسانیت کو نقصان کا سامنا ہو تو یہ جانکاری بھی غلط استعمال کے زمرے میں آجائیگی۔
موبائل فون کا سب سے خطرناک / غلط استعمال:۔
اسکا سب سے غلط یا خطرناک استعمال entertainment ہے۔
اپنے جی کو بہلانے کے لئے، وقت گزاری کے لئے، تھکان دور کرنے کے لئے اسکا استعمال کرنا سب سے خطرناک ہے۔ ان سب مقاصد کیلئے پارک، میدان، ورزش کے لئے جیم جانا وغیرہ ہمارے لئے زیادہ موزوں ہے۔ ان مقاصد کے لئے بچے chat کرتے ہیں، game کھیلتے ہیں، social media کا بے جا استعمال کرتے ہیں جوان کے لئے صرف اور صرف جسمانی اور نفسیاتی مسائل ہی پیدا کرتے ہیں۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر کوئی بچہ ۴۲گھنٹے میں سے ۴گھنٹے سے زیادہ وقت موبائل فون کو دے رہا ہے تو سمجھ لینا چاہیئے کہ وہ موبائل فون کی لت (mobile phone addiction/screen addiction)  جیسی مہلک بیماری میں مبتلا ہو چکا ہے۔ آئیے نظر ڈالتے ہیں کہ بچوں میں وہ کون کون سی تبدیلی یا مسائل موبائل ایڈیکشن کے وجہ کر پیدا ہو جاتے ہیں۔ ان مسائل کو ہم جسمانی (physical)، نفسیاتی(psychological) اور سماجی (social) مسائل کے زمرے میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
جسمانی مسائل(Physical Problems):۔
۱)   جسمانی کمزوری
۲)  موٹاپا
۳)  کھیل کود سے انحراف
۴)  بھوک بہت زیادہ لگنا یا بھوک میں کمی ہو جانا
۵)  سونے جاگنے کا وقت بے ترتیب ہو جانا
۶)   بول چال کے مسائل
۷)  انگلیوں کی نسوں کی مناسب افزائش نہ ہونا اور ان میں مسائل پیدا ہو جانا۔
۸)  کندھوں اور گردن میں درد
۹)  ہاتھوں یا کلائیوں میں درد
۰۱)  سر میں درد
۱۱)  آنکھ کے مسائل
نفسیاتی مسائل(Psychological Problems):۔
  1. Mood Swinging
2. Stress
3. Anxiety
     4. Anger
5. Dipression
6. Lack of concentration
7. Lack of creativity
8. Lack of innovation
9. Learning Disability
10. Negative Thinking
11. Losing Memory power
سماجی مسا ئل(Social Problems):۔
 ۱)  غیر سماجی بن جانا۲)   حقیقی دنیا سے دوری/  فرضی دنیا میں جینا
۳)  وقت کی نا قدری۴)  بے حیائی۵)  اخلاقی پستی
۶)  Cyber Crime
بچوں کے اندر مندرجہ بالا مسائل پیدا کرنے کا اصل ذمہ دار کون؟
بچوں کے اندر مندرجہ بالا مسائل پیدا کرنے کا اصل ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ خود والدین حضرات ہیں۔ بچوں کے پاس وہ مالی حیثیت نہیں ہے کہ وہ اسمارٹ فون جیسی قیمتی شئے کو خرید کر استعمال کر سکیں۔ والدین ہی اپنے بچوں کے ہاتھ میں موبائل دیتے ہیں۔ والدین اپنی ذاتی مصروفیات کے بنا پر بچوں کو الجھائے رکھنے کی خاطر ان کے ہاتھ میں موبائل دے دیتے ہیں تا کہ بچے ان کے کام میں کسی طرح سے خلل نہ ڈالیں۔ والدین کی مصروفیت اتنی ہے کہ انہیں بچوں کو وقت دینے کی فرست نہیں ہے۔ بچوں کے سامنے خود والدین موبائل فون کا بے جا استعمال کرتے ہیں۔  entertainment کی خاطر گھنٹوں موبائل میں لگے رہتے ہیں۔ بچہ والدین کی نقل کرتا ہے اور ان کے عادات و اطوار اس کے اندر داخل ہونے لگتے ہیں۔ بری عادتیں تو بہت آسانی کے ساتھ بچے سیکھ لیتے ہیں مگر نیک بننے میں بہت وقت لگتا ہے۔ والدین جب بچوں کے ہاتھ میں موبائل دیں توانہیں اس بات کا خیال ہونا چاہئے کہ آیا وہ اس کے جائز استعمال سے واقفیت رکھتے ہیں یا نہیں۔ بچوں کی جائز اور مفید ضروریات کو پورا کرنے کی خاطر موبائل ان کے ہاتھ میں دیا جا سکتا ہے۔ جیسے آن لا ئن تعلیم، ضروری رابطے کرنا وغیرہ۔ اوربچوں کو موبائل دے کر ان کی نگرانی بھی کرنی ہوگی کہ بچّے موبائل کا صحیح استعمال کر رہے ہیں یا بے جا استعمال کر رہے ہیں۔
بچوں کے کاموں کو monitor کرتے رہنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ ورنہ بچے جب بری عادتوں میں ملوث ہو جاتے ہیں تب پچھتاوا کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ والدین مزید غلطی تب کرتے ہیں جب خود بچوں کو موبائل فون ایڈیکشن میں مبتلا کرتے ہیں اور بعد میں ان کو موبائل ترک کرنے پر زور دیتے ہیں اور نہیں چھو ڑنے پر غصہ کرتے ہیں، ان کو مارتے ہیں جن سے گھریلو مسائل میں اور بھی اضافہ ہوتا ہے۔ کچھ والدین اس ایڈیکشن کو چھڑانے کی کوشش بھی نہیں کرتے اور امید کرتے ہیں کہ وقت آنے پر بچہ خود چھوڑ دیگا۔ یہ بھی ایک غلط نظریہ ہے۔
موبائل فون ایڈیکشن چھڑانے کے تدابیر:۔
۱)  بچوں کے سامنے ان کے موبائل استعمال کرنے کی تعریف دوسروں کے سامنے بالکل نہیں کرنی چاہیئے۔ نہیں تو ان کو مزید حوصلہ ملے گا اور وہ موبائل کے عادی بنتے چلے جائینگے۔
۲)  گھر میں ہمیشہ موبائل کے بے جا استعمال کے نقصانات کے متعلق بیداری لانے والی باتیں کرنی چاہئے تاکہ بچوں کی ذہن سازی ہو سکے۔
۳)  ڈاکٹر یا دیگر بار سوخ شخصیات کے ذریعہ بچوں کو موبائل کے بے جا استعمال کے نقصانات سے آگاہ کراناچاہئے۔
۴)  والدین خود بھی موبائل کے بے جا استعمال سے پرہیز کریں۔
۵)  بچوں کو کھیل کود، سیر و تفریح اور مطالعہ وغیرہ کی طرف رغبت دلانے کوشش کرنی چاہئے۔
۶)  بچوں کے مصروفیات کا ایک routine ان کو بنا کر دینا چاہئے۔
۷)  موبائل کے استعمال کو monitor کرنا چاہئے۔
۸)  گھر میں ایک locker  یا  box ہو جس میں گھر کے تمام افراد اپنے موبائل فون کو رکھ دین اور ضرورت کے وقت ہی استعمال کریں۔
۹)  بچوں کے ساتھ عقلی)  (rational گفتگوں کی جائے۔
۰۱)  سوچنے کا عمل thought process)) کو بدلنا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ جب تک کسی بری عادت کو چھوڑنے کے بارے میں سوچا نہیں جائے گا یا اس کا ارادہ نہیں کیا جائے گا تب تک اس عادت کو بدلا نہیں جا سکتا۔
۱۱)  اپنے عمل(action) میں تبدیلی لانا ضروری ہوتا ہے۔ بری عادت کو چھوڑ کر فوراً اچھی عادت کو اپنا نا ضروری ہے۔
۲۱)   اپنے اوپر مفید جرمانے (positive penalty) لگانا چاہئے۔ یعنی اگر کسی بری عادت کو چھوڑنے کا ارادہ کیا گیا اور پھر دوبارہ اگر وہ غلطی ہو جاتی ہے تو اپنے کو کوئی مثبت / مفید جرمانہ یعنی نفلی نماز یا صدقہ دینا وغیرہ کا عادی بنانا چاہیئے تا کہ وہ غلطی بار بار نہ ہو۔
بری عادتوں کو چھوڑنے کے اسلامی آداب:۔
۱)  توبہ:۔  بری عادت سے ہمیشہ کے لئے توبہ کرنا۔
۲)  عزم:۔  مستقبل میں اس بری عادت سے بچنے کی کامل عزم کرنا۔
۳)  استقامت:۔  استقامت کے ساتھ اپنے اس عزم پر قائم رہنا۔
۴)    اسباب اختیار کرنا:۔  بری عادت سے بچنے کے اسباب اختیار کرنا جن کی مدد سے دوبارہ اس عادت کو نہ دہرانا پڑے۔
۵)   نیک صحبت اختیار کرنا:۔  بری عادت کو چھوڑنے کے لئے نیک صحبت کا اختیار کرنا بہت مفید ہوتا ہے۔
۶)  نفس کو سزا دینا:۔ نفس اس بری عادت کو دہرانے پر امادہ کرے گا تو اس کو سزا دے کر اس بری عادت سے باز رہنا۔
بچوں کے مستقبل کو سنوارنے اور ان کو تابناک بنانے کے لئے موبائل فون ایڈیکشن سے بچانا نہایت ضروری ہے اور اگر کوئی بچہ اس ایڈکشن کا شکار ہے تو مندرجہ بالا تدابیر اختیار کر کے اس کے مستقبل کو تاریک ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ اس لئے والدین و گارجین حضرات کو اس کے تئیں خود بھی بیدار ہونے کی ضرورت ہے اور اپنے بچوں کے اندر بھی بیداری لانا بہت ضروری ہے۔ ورنہ نسلیں تباہ ہو جائیں گی۔
آج کل خاص طور سے مسلم معاشرے کے بچوں کو دیکھا جا رہا ہے کہ وہ گھنٹوں موبائل میں وقت ضائع کر رہے ہیں۔ social media،  video game،  chatting وغیرہ میں ان کی مصروفیت اتنی زیادہ ہے کہ حد نہیں۔ سڑکوں کے کنارے، گلیوں میں،چوراہوں پر اور نہ جانے کہاں کہاں یہ بچے جھنڈ کی شکل میں بیٹھے ہوئے اپنے ہاتھوں میں موبائل لئے اس میں مگن دیکھے جا سکتے ہیں۔
اعلیٰ تعلیم میں مسلم قوم آج AISHE Survey 2020-21 کے مطابق SC،  ST  اور OBC سے بھی پیچھے ہو گئی ہے۔ جس قوم کو مذہب اسلام نے لغویات سے منھ موڑ لینے، لایعنی سے پرہیز کرنے اور لہو و لعب سے دور رہنے کی تعلیم دی ہے آج اسی قوم کے بچھے ان سب فضولیات میں زیادہ دیکھے جارہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ان باتوں کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے موبائل فون ایڈکشن سے خود بھی پرہیز کیا جائے اور اپنے نو نہالوں کی بھی حفاظت کی جائے تا کہ قوم و ملت کے بچے اپنا مستقبل سنوار سکیں اور شیطانی حرکات سے حفظ و امان پاسکیں۔

متعلقہ خبریں

Back to top button