کہیں یہ زوال کا آغاز تو نہیں! ٹرمپ اور راہل گاندھی کے جال میں پھنسی مودی سرکار

تحریر:سید سرفراز احمد
ہر عروج کو زوال پذیر ہونا لازمی ہے۔خاص کر جموری ملک میں اس طرح کے نشیب و فراز کا آنا جمہوریت کا لازمی جز سمجھا جاتا ہے۔اور جب زوال کے وقت کا آغاز ہوتا ہے تو چاروں سمت سے پشیمانی تذلیل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اور ایسے وقت میں کوئی بھی چالاکی یا سازش کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔اگر ایک ایسی حکومت جو مختلیف سازشوں کے ذریعہ اس ملک کی عوام کو اپنا ماتحت بناکر رکھنا چاہتی ہو تو ایسی حکمرانی نہ صرف زوال پذیر ہوتی ہے بلکہ انھیں اپنے کیئے کی سزا بھی بھگتنے کے لیئے تیار رہنا پڑتا ہے۔جنھیں اپنے اقتدار پر زعم تھا جو غیر جمہوری خواب کو سجانے کی تگ ودو کررہے تھے۔وہ سب اچانک خاک آلود ہوجاتے ہیں۔اور سماج میں اس قدر رسوائی کا سامنا کرنا پڑتاہے کہ انھیں منہ چھپانے کے لیئے بھی جگہ تلاش کرنی پڑتی ہے۔یہ سب تب ہوتا ہے جب قانون کی حکمرانی سے گریز کیا جاتا ہے اور مطلق العنان رویہ کو اوڑھنا بچھونا بنالیا جاتا ہے۔موجودہ سرکار میں ان سب چیزوں کو ہم دیکھتے آرہے ہیں۔لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ وہ وقت قریب آرہا ہے جو ہر عروج کے بعد شروع ہوتا ہے۔
ایک طرف امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اپنے خاص دوست یعنی ہمارے وزیراعظم نریندر مودی سے آخر اس قدر اتنے خفا کیوں ہے کہ وہ ٹیرف پر ٹیرف لگاتے جارہے ہیں۔یہی نہیں بلکہ ہر گذرتے دن ایک نیا بم پھوڑ رہے ہیں۔لیکن ہمارے وزیر اعظم کی زبان میں ذرا برابر بھی جنبش نہیں آتی۔جو وزیراعظم وشو گرو کے خواب دیکھ رہے ہیں تو لازمی ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی سرخ آنکھوں کا بھر پور استعمال کریں۔چلو مان لیتے ہیں وشو گروہ بھارتی عوام میں دھول جھونکنے کا ایک فارمولہ تھا۔کیا دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک کے وزیراعظم کی حیثیت سے آپ میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ امریکہ کو منہ توڑ جواب دیتے؟اندرون ملک بڑے بڑے دعوے کرنا اقلیتوں کے تیئں تعصب کا مظاہرہ کرنا نفرت کے زہر کو بھارتی سماج میں گھولنے کا ہنر جسے آتا ہے وہ کیوں امریکہ کے آگے سر خم کردیتا ہے؟کیا چھپن انچ کا سینہ صرف ملک کے باسیوں کو دکھانے کے لیئے ہے؟
امریکی صدر بار بار بھارت کی ساکھ کو متاثر کررہا ہے۔پہلے بھارتی شہریوں کی تذلیل کرتے ہوۓ ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہنا کر بھیج دیا جاتا ہے۔ہمارے وزیر اعظم خاموش رہتے ہیں۔پھر ٹرمپ بھارت پاکستان میں جنگ بندی کروانے کے قصیدے پڑھتا ہے۔پھر ہمارے وزیراعظم کی خاموشی معنی خیز ہوتی ہے۔اور پھر اعلان ہوتا ہے کہ بھارت پر 25 فیصد ٹیرف لگایاجاۓ گا۔اور دھمکی دی جاتی ہے کہ مزید ٹیرف بڑھاکر جرمانہ بھی لگادیا جاۓ گا۔پھر ٹرمپ اعلان کرتا ہے کہ مزید 25 فیصد اضافی ٹیرف لگادیا جاۓ گا۔
اب کل ملاکر 50 فیصد ٹیرف کے بعد بھی اور مزید دھمکیاں دی جارہی ہے۔نہ صرف دھمکیاں بلکہ بلیک میل بھی کیا جارہا ہے کہ اگر روس سے تیل لینا بند نہیں کیا جاۓ گا تو ٹیرف عائد کیا جاۓ گا۔یہ تو منظر فلم لگان کے مترادف نظر آرہا ہے۔جس میں برطانوی حکمران دوگنا لگان کا اعلان کرتے ہیں۔اور پھر معاہدہ ہوتا ہے کرکٹ میچ کھیلنے کا اگر برطانوی لوگ میچ جیت جائیں گے تو لگان دوگناہ ہوجاۓ گا اور اگر ہار جائیں تو لگان معاف ہوجاۓ گا۔لیکن یہاں کوئی میچ نہیں ہونے والا ہے۔بلکہ بلیک میل کیا جارہا ہے۔جب مائی ڈیر فرینڈ ہی بلیک میل کررہا ہو تو پھر یہ دوستی کس کام کی ؟ اب عوام میں یہ سوال اٹھ رہا ہوگا کہ ہمارے وزیراعظم اس مسئلہ کا کیا حل نکالیں گے؟
وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ وہ اپنے کسانوں اور مچھواروں کے لیئے اس ٹیرف کے بدلے ذاتی قیمت چکانے کے لیے تیار ہیں۔ جبکہ اپوزیشن قائد کانگریس پارٹی کے رہنما راہل گاندھی نے ٹیرف کو ’معاشی بلیک میلنگ‘ اور انڈیا کو غیر منصفانہ تجارتی معاہدے پر مجبور کرنے کی کوشش قرار دیا۔نریندر مودی کہہ رہے ہیں کہ وہ ذاتی قیمت چکانے کے لیئے تیار ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے وزیر اعظم وہ کونسی ذاتی قیمت چکانے کے لیئے تیار ہیں؟
کیونکہ امریکہ بھارت کی اشیاء پر ٹیرف عائد کررہا ہے تو نقصان کسانوں اور مچھواروں و دیگر تجارتی طبقات کا ہوگا۔وزیر اعظم کے بقول کہ میں ذاتی قیمت چکانے کے لیئے تیار ہوں اس کو صرف ایک جذباتی بیان کے تناظر میں ہی دیکھا جاسکتا ہے۔تاکہ بہار کے راۓ دہندہ گان پر اس عائد کردہ ٹیرف کا منفی اثر نہ پڑیں۔راہل گاندھی نے ٹوئٹر پر لکھا کہ وزیراعظم اپنے دوست گوتم اڈانی کے خلاف امریکہ میں چل رہی تحقیق کے دفاع میں ٹرمپ کے ٹیرف کے عوض خاموشی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔پھر تو یہ بات صاف ہورہی ہے کہ وزیراعظم ایک شخص کے لیئے ملک کے کروڑوں عوام کو تجارتی نقصان پہنچانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
فیڈریشن آف انڈین ایکسپورٹ آرگنائزیشن کے صدر ایس سی رال ہن نے اس اقدام کے سنگین اثرات پر تشویش کا اظہار کیا۔انھوں نے ایک بیان میں کہا کہ یہ اقدام انڈین برآمدات کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔کیونکہ ہماری 55 فیصد سے زائد برآمدات براہ راست امریکی مارکیٹ کو جاتی ہے۔پچاس فیصد کا باہمی محصول ایک اضافی لاگت کا بوجھ عائد کرتا ہے۔ جس سے ہمارے برآمد کنندگان کو دیگر ممالک کے مقابلے میں 30تا35 فیصد مسابقتی نقصان ہوگا۔رال ہن نے کہا کہ کئی برآمدی آرڈرس پہلے ہی سے روک دیئے گئے ہیں۔ کیونکہ خریدار اپنے فیصلے پر نظر ثانی کر رہے ہیں۔نہوں نے مزید کہا کہ چھوٹے اور متوسط درجہ کے کاروبار کے منافع کی شرح پہلے ہی کم ہے۔ اور اب اس اچانک لاگت میں اضافے کو برداشت کرنا ممکن نہیں۔بھارت کو چاہیئے کہ بجاۓ ٹرمپ کی دھمکیوں کے سامنے جھکنے کے وہ اپنی خارجہ پالیسی کو مضبوط بنانے کی فکر کریں۔لیکن اگر مسئلہ اپنے دوست اڈانی کو بچانے کا ہے تو یہ سب نا ممکن ہے۔
دوسری طرف راہل گاندھی نے ووٹ چوری کا ایٹم بم ایسا پھوڑا کہ پورے ملک کے سیاسی گلیاروں سے لے کر قومی میڈیا گودی میڈیا اور عوام میں ایک کھلبلی سی مچی ہوئی ہے۔7 اگسٹ بروز جمعرات کے روز راہل گاندھی نے ایک پریس کانفرنس میں پی پی ٹی کے ذریعہ ووٹ چوری کا خلاصہ کرتے ہوۓ الیکشن کمیشن آف انڈیا پر سنگین الزامات عائد کیئے کہ الیکشن کمیشن ووٹ چوری کے ذریعہ کس طرح بھاجپا کی خفیہ مدد کررہا ہے۔اس طرح کا الزام عائد کرنا شائد ہی آزاد بھارت کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے۔راہل گاندھی نے نہ صرف الزامات عائد کیئے بلکہ پورے ثبوتوں کے ساتھ میڈیا کے سامنے اپنی بات رکھتے ہوۓ ووٹ چوری کے کھیل تماشے کو پیش کیا۔راہل گاندھی نے کہا کہ ووٹ چوری کے کھیل پر ہمیں بہت پہلے ہی شک ہوا ہے۔لیکن کوئی ٹھوس ثبوت ہمارے پاس موجود نہیں تھے۔جب بھی الیکشن کمیشن سے ثبوت مانگے جاتے تو الیکشن کمیشن جارحانہ رویہ اپناتا۔
راہل گاندھی نے کرناٹک کے مہادیو پورہ کے ایک اسمبلی حلقہ میں جملہ چھ لاکھ ووٹرس میں سے ایک لاکھ سے زائد ووٹ چوری کی پول کھول کر بتائی۔اور مزید بتایا کہ یہ ووٹ چوری کا کھیل پانچ طریقوں سے کیا گیا۔جعلی ووٹرس،فرضی ووٹرس غلط پتے کے ساتھ،ایک ہی پتے پر کثیر تعداد میں ووٹرس،غلط تصاویر،اور فارم 6 کا غلط استعمال،انھوں نے نہ صرف ان پانچ طریقے بتاۓ بلکہ ان ووٹ چوری کے ان پانچ طریقوں کے شواہد بھی رکھے۔جب الیکشن کمیشن سے الکٹرانک ڈاٹا مانگا گیا تو الیکشن کمیشن کا بہت ہی شرمناک چہرہ سامنے آتا ہے۔
راہل گاندھی کے مطابق الیکشن کمیشن نے جان بوجھ کر کاغذی دستاویزات تھامادیئے تاکہ ڈاٹا کے تجزیہ کو ناممکن بنایا جاسکے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن الکٹرانک شکل میں ڈاٹا دیتا تو ہم فرضی ووٹرس کا پتہ منٹوں میں لگادیتے۔ جب کہ یہ کاغذی دستاویزات کی تعداد اتنی تھی کہ تین قطاریں سات فٹ لمبی تھی۔یہ صرف ایک اسمبلی حلقہ کے راۓ دہندہ گان کی تفصیلات تھی۔راہل گاندھی نے بتایا کہ اس کی جانچ کرنے میں چھ مہینے لگ گئے۔الیکشن کمیشن کا یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ وہ شفافیت سے گریز کررہا ہے۔لیکن آخر کار ووٹ چوری کے ہیرا پھیری کا کھیل بے نقاب ہوگیا۔
ووٹ چوری کے کھیل کو اس ایک مثال کے ذریعہ آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔فارم 6 جو نئے راۓ دہندہ گان کے لیئے ہوتا ہے۔جن کی عمر 18 سے 22 یا 23 کے درمیان ہوسکتی ہے۔لیکن راہل گاندھی نے جو شواہد پیش کیئے اس فارم6 میں تمام کی عمر 70 سال سے لیکر 96 سال کی عمر کے درمیان ہے۔کیا یہ افراد پہلی بار ووٹ ڈال رہے تھے؟راہل گاندھی کے اس ایٹم بم کے بعد الیکشن کمیشن پھر سے جارحانہ رخ اختیار کررہا ہے۔الیکشن کمیشن راہل گاندھی کے جوابات دینے یا ان کے دعوؤں کی تردید کرنے کے بجاۓ حلف نامہ داخل کرنے کو چیلنج کررہا ہے۔اگر دعوی جھوٹا ہوگا تو جیل جانے کی دھمکی دے رہا ہے۔یوگیندر یادو کہہ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن اسی لیئے ڈرا رہا ہے کہ چور کی داڑھی میں تنکا ہے۔
اپوزیشن پارٹیاں نے جب الیکشن کمیشن کو راۓ دہی کے سی سی فوٹیج دینے کا مطالبہ کیا تو یہ کہہ کر خاموش کروادیا کہ اس ڈاٹا کو 45 دنوں تک ہی رکھا جاتا ہے۔سوال یہ ہے کہ جب الیکشن کمیشن شفاف طریقے سے راۓ دہی کرواتا ہے تو تمام شواہد دینے میں کیا حرج ہے؟کیونکہ الیکشن کمیشن کا ثبوت فراہم نہ کرنا ہی شکوک کے دائرے کو تقویت پہنچانے کا کام کررہا ہے۔پھر سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا الیکشن کمیشن نریندر مودی کو بچانے کے لیئے اپوزیشن پارٹیوں کو ثبوت دینے سے انکار کررہا ہے؟لیکن یہ حقائق بہت دیر تک نہیں چھپنے والے ہیں۔بلکہ بہت جلد یہ بے نقاب ہوسکتے ہیں۔
قائد اپوزیشن راہل گاندھی نے مہاراشٹر،مدھیہ پردیش،کرناٹک،اور ہریانہ میں ووٹ چوری کی دھاندلیوں کا تذکرہ کیا۔میڈیا میں سے کسی نے راہل گاندھی سے سوال پوچھا کیا اگر بیالٹ پیپر سے انتخابات کروائے جائیں تو اس ووٹ چوری سے بچا جاسکتا ہے؟جواب میں راہل گاندھی نے بڑا ہی اچھا جواب دیتے ہوۓ کہا کہ انتخابات بیالٹ پیپر سے ہوں یا ای وی ایم سے جب ایمپائر ہی غیر شفاف یا یکطرفہ ہوں تو نہ ہی الیکشن کی اور نہ ہی جمہوریت کی اہمیت باقی رہے گی۔ایسا ہی ووٹ چوری کا کھیل ایس آئی آر کے روپ میں بہار میں کھیلا جارہا ہے۔بس طریقہ الگ ہے۔جہاں الیکشن کمیشن نے 65 لاکھ ووٹرس کو پہلے حذف کردیا۔سپریم کورٹ نے 65 لاکھ ووٹرس کی تفصیلات طلب کی ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
لیکن راہل گاندھی کے اس ایٹم بم کے بعد الیکشن کمیشن کی شفافیت پر گہرے سوالات کھڑے ہورہے ہیں۔ابھی الیکشن کمیشن کو ایک تو بہار میں حذف کردہ 65 لاکھ ووٹرس کی تفصیلات سپریم کورٹ کو دینی ہوگی۔ اور دوسرا الیکشن کمیشن پر راہل گاندھی کے سنگین الزامات کے درمیان پھنس چکا ہے۔اگر واقعی الزامات سچ ہیں تو پھر سوالات کا دائرہ کار مزید بڑھے گا۔کہ ووٹ چوری کس کے کہنے پر ہوئی؟اور کیوں ہوئی؟کون کون اس دھاندلی میں شامل ہیں؟ اور الیکشن کمیشن کی خود مختاری پر بھی گہرے سوالات اٹھیں گے۔اگر یہ سب موجودہ سرکار کے اشاروں پر ہوا ہوگا تو یقیناً ان سب کو اس کی بھاری قیمت بھی چکانی پڑے گی۔
ایک اہم سوال یہی اٹھتا ہے کہ جب راہل گاندھی ووٹ چوری کے کھیل کو پورے ثبوتوں کے ساتھ بتاسکتے ہیں تو الیکشن کمیشن تو خود ایمپائر ہے۔ڈاٹا بھی پورا ان ہی کے پاس ہے۔وہ خود راہل گاندھی کے لگاۓ گئے الزامات کی تردید کرتے ہوۓ ثبوتوں کے ساتھ پیش کردے۔دودھ کا دودھ پانی کا پانی کا ہوجاۓ گا۔اگر الیکشن کمیشن یہ سب نہیں کرے گا۔جواب دینے کے بجاۓ جارحانہ رخ اختیار کرے گا تو ملک کی عوام راہل گاندھی کو سچا ماننے میں ذرا سا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرے گی۔راہل گاندھی کی طرف سے لگاۓ گئے الزامات اور الیکشن کمیشن کی خاموشی سے یہ بات تو صاف ہوجاتی ہے کہ ای وی ایم صرف بدنام ہے کام تو کوئی اور کررہا ہے۔
اسی لیئے شائد امیت شاہ بار بار یہ دعوی کرتے نہیں تھکتے کہ ہمیں اور بیس سال اقتدار سے کوئی باہر نہیں کرسکتا۔پتہ نہیں امیت شاہ یہ دعوی کن بنیادوں پر کرتے ہیں۔ ویسے مودی سرکار بھارتی شہریوں کے اچھے دن لانے لانے میں ہی خود برے دن کی طرف آگے بڑھ رہی ہے۔پھر اچھے دن کی کیا خاک امید کی جاسکتی۔یہی نہیں بلکہ مودی سرکار خارجہ پالیسی میں بھی بری طرح ناکام ہورہی ہے۔اسی لیئے ٹرمپ کے آگے بے بس نظر آرہی ہے۔اور جس کو پپو کہہ کر طنز کسا جاتا تھا۔ آج اسی پپو نے ان کی نیندوں کو حرام کر رکھا ہے۔اب تو ایسا ہی لگ رہا ہے کہ ٹرمپ اور راہل گاندھی کے جال میں مودی سرکار ہی نہیں بلکہ الیکشن کمیشن بھی بری طرح پھنس چکا ہے۔ماحول کو دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ بھاجپا کے زوال کا آغاز ہوچکا ہے۔