جو تماشہ کرنے آیا تھا خود ہی تماشا ہوگیا وندے ماترم سے ایس آئی آر تک: حکمران جماعت ہوش باختہ

تحریر:سید سرفراز احمد
بقول وزیر اعظم نریندر مودی "پارلیمنٹ اجلاس میں ڈرامہ نہ کیجئے بلکہ ڈیلیوری کیجئے۔اور موسم کا مزہ لیجئے۔” ظاہر ہے وزیر اعظم نے یہ جملے حزب اختلاف کے لیئے لکھ کر لایا ہوگا۔اس سے ایک بات تو ظاہر ہورہی ہے کہ وزیر اعظم کو پہلے سے علم تھا کہ گویا پارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعتیں حکمران کا گریبان پورے آب و تاب سے پکڑنے والی ہے۔اسی لیئے شائد نریندر مودی نے پہلے ہی عوام میں یہ پیغام عام کردیا کہ ڈرامہ صرف اپوزیشن کرتی ہے ہم تو ڈیلیوری کرتے ہیں۔وہ بھی سرما کے موسم کا مزہ لیتے ہوۓ۔لیکن وزیر اعظم کی یہ عجیب و غریب منطق تھی کہ بجاۓ وہ خود ڈیلیوری کرنے کے اپوزیشن سے مطالبہ کررہے ہیں۔کیوں کہ حکمران جماعت اگر پارلیمنٹ میں اپنے ہر کام کا جواب مضبوط دلائل سے دے گی تو نہ پارلیمنٹ میں ہنگامہ ہوگا نہ ہی حکمران جماعت کو منہ لٹکاۓ بیٹھنا پڑے گا۔
ہوا بھی کچھ ایسا ہی جو وزیر اعظم جس شہر میں موسم کا مزہ لینے کی بات کر رہے ہیں۔ اسی دلی کے دل کی دھڑکن ہوائی آلودگی کے درمیان دھڑک رہی ہے۔کیا وزیر اعظم کو یہ زیب دیتا ہے کہ ایک ایسے وقت میں دلی کی عوام آلودگی سے پریشان ہے اور آپ موسم کا مزہ لینے کی بات کیسے کرسکتے ہیں؟ کیا دلی کی اس آلودگی پر پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہوسکتی تھی؟ لیکن حکمران جماعت کو تو "وندے ماترم” پر بحث کرانا تھا۔تاکہ وندے ماترم پر بہترین ڈرامہ کیا جاسکے۔اور اس سے ہندو مسلم سیاسی کارڈ کھیلا جاسکے۔تاکہ اس کا سیاسی فائدہ بنگال میں ہوجاۓ۔لیکن پانسہ الٹا پڑگیا۔الٹا اس لیئے پڑگیا کہ وزیر اعظم نے ایوان میں اپنی افتتاحیہ تقریر میں آر ایس ایس اور ہندو مہا سبھا کے گن گانا شروع کردیئے۔اور پنڈت نہرو پر الزام لگایا کہ پنڈت نہرو نے جناح کو خوش کرنے اور مسلم ووٹ بینک کو بناۓ رکھنے کے لیئے وندے ماترم کے پہلے دو بند کو برقرار رکھتے ہوۓ باقی پورے ترانے کو حذف کردیا۔
ہمارے وزیر اعظم کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ جھوٹ کو بہت سلیقے سے پیش کرنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ دراصل وندے ماترم کو حذف کرنے کی حقیقت اور تاریخ یہ ہے کہ جب اس پر اعتراض آیا تو اس کے لیئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔کمیٹی کے رکن سبھاش چندر بوس نے وندے ماترم کو لکھنے والے رابندر ناتھ ٹیگور سے بات کی۔اور متفقہ راۓ سے وندے ماترم کے پہلے دو بند کے علاوہ باقی حصے کو حذف کردیا گیا۔ اس ترانے کو حذف کرنے میں پنڈت جواہر لعل نہرو کا اپنا اکیلا فیصلہ نہیں تھا۔لیکن شائد ہمارے وزیر اعظم ایوان میں موجود اپنے اراکین کی طرح دیگر کو بھی تاریخ سے نا آشنا سمجھتے ہیں ۔اسی لیئے من گھڑت کہانی سناکر عوام کو گم راہ کرنا چاہتے ہیں۔یہی پاسہ الٹا اس لیئے پڑگیا کہ ہندو مہا سبھا آر ایس آیس اور مسلم لیگ کے تعلقات کو سنجے سنگھ عام آدمی پارٹی نے تاریخ کے حوالوں کے ساتھ اتنی دھلائی کردی کہ بھاجپا کے اراکین کے منہ کا پانی سوکھ گیا۔سنجے سنگھ نے کہا کہ جو آر ایس آیس اپنے ہیڈ کوارٹر میں ترنگا نہیں لہراتی وہ وندے ماترم پر کیسے بحث کراۓ گی؟جو آر ایس ایس انگریزوں کی وفاداری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی وہ آر ایس ایس اور بھاجپا کیا دیش بھکت کہلاۓ گی؟ حالاں کہ تاریخ میں یہ درج ہے کہ ہندو مہا سبھا جو خود جناح کی مسلم لیگ کے ساتھ بنگال کی حکومت میں شامل ہوگئی تو مسلم لیگ کا اور جناح کا معاون کون بنا؟
سنجے سنگھ نے دوٹوک کہا کہ آر ایس ایس اور بھاجپا کا ملک کی آزادی میں کوئی رول نہیں رہا۔انھیں کوئی حق نہیں بنتا کہ وہ وندے ماترم پر بحث کراۓ۔سنجے سنگھ نے کہا کہ ان کی یہ فطرت رہی کہ وہ "انگلی کٹاکر شہیدوں میں اپنا نام درج کرانا چاہتے ہیں”۔اگر سرکار کی نیت پر غور کیا جاۓ تو واقع سرکار وندے ماترم پر بحث کراکر بنگال میں آنے والے اسمبلی انتخابات میں سیاسی کارڈ کا کھیل کھیلتے ہوۓ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہ رہی تھی۔لیکن اپوزیشن جماعتوں کے اراکین نے تاریخ کو سچے اور پکے ثبوتوں کے ساتھ پارلیمنٹ میں پیش کیا تو سرکار کی ہاں میں ہاں ملانے والوں میں سے کسی کی زبان پھسل گئی تو کسی کو غصہ آگیا۔ کوئی لڑکھڑا گیا تو کوئی شور شرابے پر اتر آیا۔آخر کار بقول نریندر مودی سرکار کے نمائندوں کو ہی ڈرامہ بازی کرنا پڑا۔ لیکن جس جھوٹ کو پارلیمنٹ میں پروسہ جارہا تھا۔اس کا سچ عوام کے سامنے آہی گیا۔سرکار چاہ رہی تھی کہ وندے ماترم کو پارلیمنٹ میں موضوع بحث بناکر مسلمانوں کو اکسایا جاۓ جس سے سرکار کو اصل مسائل سے پلہ جھاڑنے کا راستہ مل جاۓ گا۔اور ملک میں پھر ایک بار ہندو مسلم نفرت کی دیوار کھڑی ہوجاۓ۔اور یہ اپنی سیاست کا جھنجھنا بجاتے رہے۔حالاں کہ مسلمانوں کو کسی کے وندے ماترم پڑھنے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔بس مسلمان دستور کے مطابق چاہتے ہیں کہ انھیں اپنے ملک میں آزادی اور پورے حق کے ساتھ رہنے دیا جاۓ۔یہاں ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی کو یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیئے کہ ایک وقت میں خود بھاجپا کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ "مسلمانوں کو وندے ماترم سے مستشنیٰ رکھا جاۓ "۔لیکن آج کی بھاجپا مذہبی سیاست میں ذیادہ دل چسپی رکھتی ہے۔
پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس اس وقت گرما گرم بحث میں تبدیل ہوگیا جب وزیر داخلہ امیت شاہ اور قائد حزب اختلاف راہل گاندھی آمنے سامنے آگئے۔ بحث چل رہی تھی "انتخابی اصلاحات” "ووٹ چوری” اور "ایس آئی آر” پر جب بحث شروع ہوئی تو وزیر داخلہ امیت شاہ اور حزب اختلاف قائد راہل گاندھی میں زبردست نوک جھونک اور تلخ کلامی دیکھنے کو ملی۔ راہل گاندھی نے فہرست راۓ دہندہ گان کی عدم شفافیت اور انتخابی نظام پر سوالات اٹھاۓ۔تو امیت شاہ نے جواب سے فرار اختیار کرتے ہوۓ پھر سے اپنے خاص رفیق نریندر مودی کی راہ پر چلتے ہوۓ جواہر لعل نہرو اور اندرا گاندھی کے دور کو گنوایا۔جب کہ پرینکا گاندھی نے ایک روز قبل ہی کہہ دیا تھا کہ جو ماضی میں غلطیاں ہوئی ہے اس سے انکار نہیں لیکن آج آپ گیارہ سال سے سرکار میں ہے تو آپ کیا کر رہے ہیں؟جب کہ امیت شاہ راہل گاندھی کی بنیادی باتوں کا جواب دینے سے گریز کرتے رہے۔ حتیٰ کہ گول مٹول کی باتیں کررہے تھے تو راہل گاندھی نے تھیکا وار کرتے ہوۓ امیت شاہ کو اپنی تین پریس کانفرنس پر مباحثے کا چیلنج کیا۔جس پر امیت شاہ ہوش باختہ ہوگئے۔اور جواب دینے کے بجاۓ اپنے چہرے کے رنگ بدلتے رہے۔اور کہا کہ میں تیس سال سے اس پارلیمنٹ کا حصہ رہا ہوں۔اور میری تقریر کا طریقہ میں خود طئے کروں گا۔
امیت شاہ اس بار کافی ذیادہ بوکھلاہٹ میں نظر آۓ۔چہرے کا رنگ زرد پڑگیا تھا۔ان کی بوکھلاہٹ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ بحث کے دوران گالی بھی دے دیتے ہیں۔جس پر اپوزیشن ہنگامہ کرتی ہے تو اسپیکر سے کہتے ہیں کہ میرے اس حصے کو کاٹ دیا جاۓ۔ذرا تصور کریں اگر امیت شاہ کی جگہ کوئی اپوزیشن قائد ہوتا اگر ایسی ہی کچھ گالی منہ سے نکل جاتی تو میڈیا ہاؤسس میں ہنگامہ برپا ہوجاتا۔معافی مانگنے پر مجبور کیا جاتا۔اسپیکر کی جانب سے اب تک کاروائی بھی ہوجاتی۔لیکن ملک کے وزیر داخلہ جو اپنی زبان کو قابو میں نہیں رکھ سکتے۔وہ کیسے اپنے عہدے سے انصاف کرسکتے؟آج گودی میڈیا کی زبان گونگی ہوگئی ہے۔منہ میں دہی جم گیا ہے۔لیکن کسی میں مجال نہیں کہ جمہوریت کے مندر میں وقت کا وزیر داخلہ گالی بھی دے رہا ہے اور اس کو ہلکے میں بھی لے رہا ہے تو کیا میڈیا کی یہ زمہ داری نہیں بنتی ہے کہ وہ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ بتائیں؟ اور آئینہ دکھانے کا کام کریں۔کاش آج کا میڈیا ایسا ہوتا۔
سرکار نے اپوزیشن کے سوالات اور اصل مسائل سے دور بھاگنے کے لیئے وندے ماترم کو موضوع بحث بنایا ہے۔میڈیا یہ سوال سرکار سے کیوں نہیں پوچھتا کہ جب لال قلعہ کے پاس حملہ ہوا تو یہ اسلحہ پاکستان سے یہاں تک کیسے پہنچ گیا؟انڈیگو تنازع کا شکار ہے لیکن سرکار بے حس پڑی ہے کیوں؟دہلی ہوائی آلودگی کی زد میں ہے لوگ آکسیجن کے بجاۓ زہریلی سانسیں لے رہے ہیں جب کہ ریاست اور مرکز میں بھاجپا کی سرکار ہے مسئلہ کا حل کیوں نہیں نکالا جارہا ہے؟گودی میڈیا ان سوالات کو کیوں نہیں اٹھاتا ہے؟ اور جب یہی سرکار وندے ماترم پر گفتگو کرانا چاہتی ہے تو یہی گودی میڈیا بھاجپا کو عوام کے سامنے ایسے پیش کرکے دکھاتی ہے جیسے بھاجپا ہی میں دیش بھکتی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔حالاں کہ بھاجپا میں دیش بھکتی نام کی کوئی چیز نہ تاریخ میں نظر آتی ہے نہ حاضر میں،پھر بھی یہ کیسی اند بھکتی ہے۔ جس دن یہ اند بھکتی کام نہ آۓ گی اس دن کو اس ملک کی عوام کو ضرور دیکھے گی۔
پارلیمنٹ میں نہ ہی ایس آئی آر پر کھل کر گفتگو ہوئی اور نہ انتخابی اصلاحات پر ، سرکار کی جانب سے کانگریس کی تاریخ کو ایسے دہرایا جاتا ہے کہ اگر کانگریس ماضی میں غلطیاں کر سکتی ہے تو اب ہم کیوں نہیں؟پارلیمنٹ نام ہے سرکار میں بیٹھے لوگ اپوزیشن کے مسائل اور اختلافی سوالات کو سننا اور انھیں مناسب انداز میں جواب بھی دینا۔بلکہ ملک کی عوام کو مطمئن بھی کرانا سرکار کا کام ہے۔لیکن ہر بار سرکار اپنی جواب دہی سے رفو چکر ہوتی ہے۔اس بار پارلیمنٹ میں سرکار اسی منشاء کے ساتھ وندے ماترم پر بحث کراکر اکثریتی فرقے کو بالخصوص بنگالی عوام کو اپنے سیاسی نرغے میں پھنسانا چاہتی تھی۔لیکن اپنے ہی پیر پر کلہاڑی مارلی۔اور بھاجپا اور اس کی مربی تنظیم کی تاریخ خود بہ خود عوام کے سامنے عیاں ہوگئی۔جس سے امیت شاہ تذبذب کا شکار ہوتے نظر آۓ۔ایسا لگ رہا تھا امیت شاہ الیکشن کمیشن پر عائد ہونے والے الزامات کو خود پر محسوس کررہے تھے۔شائد کہ پردے کے پیچھے والا معاملہ ایسا ہی ہو۔کیوں کہ اصل غیر شفاف عمل خود الیکشن کمیشن کے تقرری میں ہی پایا جاتا ہے۔جس میں وزیر اعظم اپوزیشن قائد اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو شامل ہونا تھا۔لیکن بھاجپا نے یہاں بھی ایک نیا قانون لاکر چیف جسٹس کو اس سے کنارے کردیا۔اور خود اپنی من پسند کا چیف الیکشن کمیشنر منتخب کرلیا۔اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سرکار سرکاری اداروں میں اپنے من پسند عہدیداروں کو رکھنا پسند کرتی ہے۔تاکہ فیصلے اپنے موافق کے ہو۔لیکن ایسی سیاسی سازشیں بہت دیر تک نہیں چلتی۔جیسے آج خود پارلیمنٹ میں اپنی ناک کٹالی ایسے ہی ایک دن ضرور آۓ گا دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجاۓ گا۔پارلیمنٹ میں ہوئی بحث پر التمش عباس کا یہ شعر صادق آتا ہے۔
شعبدہ بازی زیادہ دیر تک چلتی نہیں
جو تماشہ کرنے آیا خود تماشا ہو گیا



