2006 کے ممبئی حملوں کا قصور وار کون؟ *بڑھتا تعصب اور بے قصور مسلمانوں کی اجڑتی زندگیاں

تحریر:سید سرفراز احمد
اس ملک کے مسلمانوں کے ساتھ ہمیشہ اس ضرب المثل کے مصداق "کرے کوئی بھرے کوئی” کی ہوتا رہا ہے۔یہ وہ خاموش ظلم ہے جس سے معصوموں کے خاندانوں کو اجاڑا جاتا ہے۔ان کی زندگیوں کو تباہ و برباد کیا جاتا ہے۔پھر ایک وقت آتا ہے ایک طویل صبر آزما قانونی چارہ جوئی کے بعد عدالتوں کے ذریعہ انھیں بے گناہ بتاکر باعزت بری کردیا جاتا ہے۔لیکن تب تک انصاف بھی خون کے آنسو رونے لگتا ہے۔اور انصاف کے آنے آنے تک یہ اپنی عمر کا ایک طویل عرصہ زنداں کی صعوبتوں میں کاٹ چکے ہوتے ہیں۔نہ ہی کوئی ان کی بے گناہوں میں گذری اسیری کی زندگی کے دن لوٹا سکتا ہے۔نہ ہی ان اجڑے خاندانوں کو سنوار سکتا ہے۔دراصل ان بے گناہوں کو جیلوں میں ٹھونسنے کی لابی کے پیچھے سیاست کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے۔جو اپنی حکمرانی پر لگنے والے داغ سے بچنے کے لیئے ایسے معصوموں کا سہارا لیتے ہیں۔اور ایسے معاملات میں خاص کر مسلمانوں کو پیش پیش رکھا جاتا ہے۔لیکن یہ ظالم ایک لمحہ کے لیئے بھی یہ نہیں سوچتے ہیں کہ ایک بے گناہ کے پیچھے اس کا کنبہ بھی ہوتا ہے۔جن کی کفالت کرنا اس کی زمہ داری بھی ہوتی ہے۔اگر یہ جیل میں ہوگا تو پھر اس کے بیوی بچوں کی کفالت کون کرے گا۔لیکن یہ سب اس نکمی سیاست میں نہیں سوچا جاتا۔
اگر آج کے بھارت کی سیاست کا جائزہ لیں گے تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو جیلوں میں ٹھونسنے کی سازشیں کی جاتی ہیں۔کسی بھی واقعہ یا حملے کا الزام مسلمانوں کے سر آسانی سے عائد کرتے ہوۓ مسلم نوجوانوں کو جیلوں میں بھرا جاتا ہے۔بلکہ انھیں دہشت گرد ثابت کرنے میں ان کے تار پڑوسی ملک سے جوڑ دیئے جاتے ہیں۔11 جولائی 2006 میں ممبئی کی لوکل ٹرینوں میں ہوۓ سلسلہ وار حملوں میں دو سو سے زائد افراد ہلاک ہوۓ تھے۔اور سینکڑوں زخمی ہوۓ تھے۔اس سلسلہ وار حملوں میں انسداد دہشت گردی(اے ٹی ایس)نے اپنی چارج شیٹ میں تیس ملزمان کے ناموں کو شامل کیا تھا۔ جن میں سبھی مسلم تھے۔جس میں سے تیرہ افراد کی شناخت پاکستانی شہریوں کے طور پر ہوئی۔خصوصی عدالت نے مزید تیرہ ملزمان میں سے پانچ کو پھانسی کی سزا اور سات کو عمر قید کی سزا اور ایک کو بری کردیا تھا۔اسی کیس کو ممبئی ہائی کورٹ نے21/جولائی 2025 کو فیصلہ سناتے ہوۓ تمام بارہ ملزمان کو باعزت بری کرتے ہوۓ اے ٹی ایس پر کئی طرح کے سوالیہ نشان کھڑا کردیئے۔
پہلا سوال انیس سال طویل کیس کے باوجود بھی ہائی کورٹ کی نظر میں ایک بھی ملزم مجرم نہیں بن سکا تو اے ٹی ایس نے کن شواہد کی بناء پر ان تمام مصصوموں کو ملزم بنایا تھا؟دوسرا سوال اے ٹی ایس ہو یا دیگر سرکاری ایجنسیاں ایک ہی طبقہ کے افراد کو کیا تعصب بھری نگاہ سے نہیں دیکھ رہے ہیں؟تیسرا اور اہم سوال یہ ہے کہ اگر یہ بارہ ملزمین ممبئی حملوں میں بے گناہ ہیں تو پھر اصل مجرم کون ہیں؟چوتھا سوال ان معصوموں اور بے گناہوں کے انیس سال کو کون لوٹاۓ گا جو بناء قصور کے سزا کاٹتے رہے؟پانچواں اور آخری سوال یہ ہے کہ جنھوں نے ان معصوم بے گناہوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجا ہے کیا انھیں اس کی سزا ملے گی؟
یہ وہ اہم سوالات ہے جو اے ٹی ایس پر اٹھ رہے ہیں۔لیکن ہوا یوں کہ مہاراشٹر سرکار نے ممبئی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف عدالت عالیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔عدالت عالیہ کی دو رکنی ججس کی بنچ نے ہائی کورٹ کے فیصلے پر عبوری روک لگا دی۔اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا کہ ملزمین کو دوبارہ جیل نہیں بھیجا جاۓ گا۔بلکہ نوٹس جاری کرتے ہوۓ ان ملزمین کی راۓ طلب کی ہے۔عدالت عالیہ کی بنچ نے یہ بھی کہا کہ ممبئی ہائی کورٹ کے فیصلے کو نظیر کے طور پر نہیں دیکھا جاۓ گا۔جب کہ ہائی کورٹ نے اس طویل کیس کے ملزمین کو یہ کہہ کر باعزت بری کردیا کہ کوئی بھی ٹھوس ثبوت نہیں پاۓ گئے۔بلکہ سب شک و شبہات کے دائرے میں ہیں۔سپریم کورٹ کے موقف پر بھی طرح طرح کے سوالات کھڑے ہورہے ہیں۔کیونکہ سپریم کورٹ کا موقف کسی ایک فیصلے پر کھرا نہیں اتر رہا ہے۔
حکومت مہاراشٹر کا عدالت عالیہ تک پہنچنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ مذہب کی بنیاد پر ان بے قصور ملزمین جو مسلم ہیں انھیں سزا دلوانے کی تگ ودو کررہی ہے۔فرض کریں اگر ان تمام مسلم ملزمین کی جگہ ہندو مذہب کے ملزمین ہوتے تو کیا حکومت مہاراشٹر کا یہی رویہ ہوتا؟ظاہر ہے ایسا ہرگز بھی نہیں ہوتا۔سرکار کا عدالت عالیہ تک جانے کی صرف ایک ہی وجہ ہے کہ کسی بھی طرح سرکاری ایجنسی اے ٹی ایس کا دفاع کرتے ہوۓ انھیں سوالات کے گھیرے سے نکالا جاۓ۔تاکہ اے ٹی ایس سرکار کے اشاروں پر آگے بھی کام کرسکے۔لیکن اے ٹی ایس کو ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد اپنا جائزہ و احستاب کرنے کی ضرورت ہے۔کہ بے قصور ملزمین کو دہشت گردی کا ٹھپہ لگانے سے پہلے پوری طرح غیر جانب داری کو ملحوظ رکھنا چاہیئے۔اور اصل مجرم اور اصل قصور وار کو سزا دلوانا چاہیئے۔تاکہ کبھی اس طرح کی شرمندگی کا سامنا کرنا نہ پڑے۔
اڑیسہ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس ڈاکٹر ایس مرلی دھر جو سبک دوشی کے بعد ابھی وکالت سے وابستہ ہیں۔انھوں نے پولیس کے سلوک پر سوال اٹھاتے ہوۓ کہا کہ پولیس تفتیش سے پہلے کسی ملزم کو مجرم بناکر گرفتار کرلیتی ہے اور بعد میں تفتیش کرتی ہے۔حتیٰ کہ میڈیا میں بھی اسے ایسے پیش کیا جاتا ہے جیسے کہ یہی مجرم ہے۔پھر عدالتی کاروائی کے بعد یہ بے قصور ثابت ہوتا ہے۔ایسے معاملات میں جہاں تک زمینی سطح کی صورت حال کا جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ پولیس ہو یا کوئی بھی سرکاری ایجنسی انھیں جلد سے جلد ملزمین کو گرفتار کرتے ہوۓ اپنی ساکھ بچانے کی فکر ہوتی ہے۔ایسے میں انھیں صرف ایک ہی مسلم طبقہ نظر آتا ہے۔جہاں سے وہ اقلیتوں کو اکثریتی تعداد میں گرفتار کرنا شروع کردیتی ہے۔لیکن یہ ایک جانب داری عمل ہے۔جس سے پولیس اور سرکاری ایجسیز کو بچنا چاہیئے۔
اگر ہم رپورٹس کے حوالوں سے بھارت کی جیلوں کا جائزہ لیں گے معلوم ہوتا ہے کہ آبادی کے تناسب سے مسلمان ہی سب سے ذیادہ جیلوں میں ہے۔بھارت میں 2011 کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی آبادی 14.2 فیصد ہے۔سرکاری ادارہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی رپورٹ کے مطابق قصوروار قرار دیے گئے مسلمانو ں کی تعداد 16.6 فیصد اور زیر سماعت قیدیوں کی تعداد 18.7 فیصد ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی تقریبا تمام ریاستوں کی جیلوں میں مسلمان قیدیوں کی تعداد ریاست کے مسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے زیادہ ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ پولیس کا جانبدارانہ رویہ ہے۔ جو ایک خاص ذہن کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف تعصب برتا جاتا ہے۔جب تک محکمہ پولیس اور سرکاری ایجنسیز اس تعصب کو ختم نہیں کرتی جب تک یہ صورت حال تبدیل نہیں ہوسکتی۔
مرکزی سرکاروں کا رویہ دیکھیں تو یہ بھی کوئی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔کانگریس نے اپنے دور حکومت میں ٹاڈا اور پوٹا جیسے قانون لگاکر مسلمانوں کو جیلوں میں ڈالا تھا۔ تاہم اب موجودہ ظالم حکومت کی جانب سے یو اے پی اے اور این ایس اے کے تحت مسلمانوں کو جیلوں میں ڈالا جارہا ہے۔جس کی مثال سال 2020 کے دہلی فسادات کی لی جاسکتی ہے۔عمر خالد ،شرجیل امام،خالد سیفی و دیگر آج بھی جیل کی صعوبتوں کو برداشت کررہے ہیں۔حالانکہ جرم ابھی ثابت نہیں ہوا ہے۔ساوتھ ایشین وائر کا ایک ڈاٹا یہاں پر پیش کیا جارہا ہے۔جس سے آپ کو یہ اندازہ مل جاۓ گا کہ ملک کی الگ الگ ریاستوں کے جیلوں میں مسلم طبقہ کی آبادی کا تناسب کتنا ہے اور جیلوں میں محروس افراد کا تناسب کتنا ہے۔
ساؤتھ ایشین کے مطابق آسام میں مسلمان 2011 کی مردم شماری کے مطابق آبادی کا34 فیصد ہیں جبکہ جیلوں میں مسلمانوں کی تعداد 47.5 فیصد ہے۔ گجرات میں مسلمانوں کی آبادی 10 فیصد ہے اور 2017 سے وہ تقریبا 27 فیصد انڈر ٹرائل ہیں۔ کرناٹک میں مسلمان آبادی کا 13 فیصد ہیں جبکہ جیلوں میں 2018 سے اب تک 22 فیصد ہیں۔ کیرالہ میں مسلمانوں کی آبادی 26.5 فیصد ہے وہیں جیلوں میں مسلمانوں کا تناسب 30 فیصد ہے۔ مہاراشٹر میں مسلمان آبادی 11.5 فیصد ہیں اور انڈر ٹرائل میں ان کا فیصد 2012 میں 36.5 فیصد تک پہنچ گیا تھا۔ راجستھان میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 9 فیصد ہے جبکہ انڈر ٹرائل میں 23 فیصدی مسلمان انڈر ٹرائل میں نمایندگی کرتے ہیں۔ تمل ناڈو میں مسلمانوں کی آبادی 6 فیصد ہے جبکہ جیلوں میں مسلمان 11 فیصد ہیں۔
اترپردیش میں مسلمانوں کی تعداد 19 فیصد ہے جبکہ 29 فیصد جیلوں میں انڈر ٹرائل ہے۔ مغربی بنگال میں مسلمانوں کی آبادی 27 فیصد ہے لیکن جیلوں میں مسلمانوں کی بات کریں تو وہاں یہ تعداد 36 فیصد ہے۔ بہارمیں آبادی کے حساب سے 15 فیصد مسلمان ہیں جبکہ جیلوں میں 17 فیصد مسلمان ہیں۔ زیادہ تر ہندو اکثریتی ریاستوں کی جیل میں قید مجرموں سے زیادہ انڈر ٹرائل میں مسلمانوں کی نمائندگی ہے۔
البتہ صرف مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کی جیل میں قید ملزمان میں ہندوں کی نمائندگی زیادہ ہے اس ریاست میں جہاں ہندو آبادی 28.5 فیصد ہے وہیں جیلوں میں 39.5 فیصد ہے۔جس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم کشمیری قیدیوں کو زیادہ تر گرفتار کرکے بھارتی جیلوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔اس رپورٹس کے بعد ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ پورے بھارت کی جیلوں میں مسلمانوں کا تناسب ہی سب سے ذیادہ ہے۔جب کہ مسلمان اس ملک میں اقلیت میں رہتے ہیں۔کیا یہ سب تعصب کی بناء پر نہیں ہورہا ہے؟کیا یہ سب جانب داری کا کھیل نہیں ہے؟
جمعیت العلماء ہند جو جیلوں میں محروس بے قصور مسلم نوجوانوں کی قانونی مقدمات کی لڑائی کے لیئے ہر دم آگے رہتی ہے۔مہاراشٹر جمعیت العلماء کے سابق ریاستی صدر مرحوم گلزار اعظمی بے قصور مسلم نوجوانوں کی رہائی کے لیئے ہر دم کوشاں رہتے۔آج جمعیت العلماء مہاراشٹر کی قانونی کوششیں اور محنتیں رائیگاں نہیں گئی۔لیکن اصل بات یہی ہے کہ سرکاری ایجنسیز ہو یا پولیس انھیں تعصب کا نقاب ہٹاکر پوری طرح سے غیر جانب دار کاروائی کرنی چاہیئے۔ابھی تین روز قبل کی ہی بات ہے گجرات اے ٹی ایس نے بیس سے پچیس سال کی عمر کے درمیان رہنے والے چار مسلم نوجوانوں کو القاعدہ سے روابط کا دعویٰ کرتے ہوۓ گرفتار کرلیا۔جن پر نقلی نوٹوں کے ریکٹ اور دہشت گردی کا الزام لگایا گیا۔اس کے علاوہ دیگر بڑے بڑے الزامات بھی ان کے سر لگاۓ جارہے ہیں۔ابھی تفتیش کا عمل جاری ہے۔یہ تو آنے والا وقت بتاۓ گا کہ کیا ان کے روابط القاعدہ سے وابستہ تھے یا نہیں۔ان پر عائد کیئے جانے والے الزامات درست ہیں یا نہیں؟لیکن مہاراشٹر سرکار اور اے ٹی ایس سے یہ کون پوچھے گا کہ 2006 کے ممبئی حملوں کا اصل قصور وار کون ہیں؟